حضرت شاہ حسین لاہوری ؒ
(Prof Abdullah Bhatti, Lahore)
برصغیرپاک و ہند کے کامیاب ترین مغلیہ حکمران اکبر اعظم
کا دور حکومت اپنے عروج پر تھا اکبر اعظم کے دادا بابر نے ابراہیم لو دھی
اور راجپوتوں کو شکست فاش دے کر جس مغلیہ سلطنت کی بنیا د رکھی تھی وہ بابر
اور ہمایوں کی شب وروز کو ششوں سے اب مضبو ط تناور درخت کا روپ دھا رچکی
تھی ہما یوں کی جلدی مو ت پر اکبر انتہا ئی نو عمری میں ہندوستان کے تخت پر
جلو ہ افروزہوا اور پھر بہرام خان کی وفا دارانہ کو ششوں اور اپنے مقدر کی
وجہ سے ہر گز رتے دن کے ساتھ مغلیہ سلطنت مضبو ط سے مضبو ط ہوتی چلی گئی
ملک کے دور دراز علا قوں میں ہو نے والی سازشوں کا قلع قمع کا میابی سے کیا
جا چکا تھا اب اکبر اپنی حکمرانی کوخوب انجوا ئے کر رہا تھا اس کے ساتھ
ساتھ اکبر نے ملک کے طو ل و عرض میں جا سوسوں کا جال بچھا رکھا تھا جو دن
رات عام لوگوں پر نظر رکھتے اِن جاسوسوں کو جہاں کہیں بھی بغا وت کی بو نظر
آتی یہ فوری طو رپر اِیسی خبر اکبر با دشاہ تک پہنچاتے ایک دن جلا ل الدین
اکبر تخت شاہی پر بیٹھا تھا کہ شاہی جاسوسوں نے آکر یہ خبر دی کہ لا ہور
میں ایک شخص تیزی سے عوام و خواص میں مضبوط ہو رہا ہے یہ خود کو درویش کہتا
ہے لیکن یہ عام درویشوں کی بجا ئے اور ہی قسم کی سر گرمیوں میں ملوث ہے اُس
کی حرکتیں عوام میں گمراہی پھیلا رہی ہیں اکبر نے فوری طور پر اِس کی خبر
گیری اور پکڑنے کا حکم جا ری کیا اِسی دوران جا سوسوں نے یہ خبر دی کہ اِس
درویش نے داڑھی منڈھوا دی ہے لال لباس پہنتا ہے دن رات شراب کے نشے میں دھت
نو جوان لڑکوں کے ساتھ سر عام رقص کر تا ہے با دشاہ کا تجسس اور بھی تیز ہو
گیا لاہور کے کو توال ملک علی کے نا م فرمان جا ری کر دیا کہ فوری طو رپر
اِس نا م نہاد درویش کو پا یہ زنجیر کر کے آگرہ بھیجا جا ئے جو اُن دِنوں
میں ہندو ستان کا دارالخلا فہ تھا شاہی حکم کے جا ری ہو تے ہیں کو توال شہر
درویش کی تلا ش میں اپنے ہر کا روں کے ساتھ نکل پڑا کوتوال نے شہر کے کو نے
کو نے میں اپنے جا سوس پھیلا دیتے لیکن دن رات کو ششوں کے با وجود درویش کو
توال کے ہتھے نہ چڑھ سکا کو توال کو جیسے ہی اُس کا کو ئی جا سوس خبر دیتا
کہ مذکورہ درویش اپنے ہمراہیوں کے ساتھ دیوانہ وار مست رقص میں مبتلا ہے تو
برق رفتا ری سے اُس جگہ پہنچتا لیکن اُس کے جا تے ہی درویش پراسرار طو ر پر
اُس جگہ سے غا ئب ہو جا تا اب اُس جگہ شاہی جا سوس اور عا م راہگیر تو ہو
تے جو بار بار کہتے کہ وہ درویش اپنے دوستوں کے ساتھ ابھی یہاں تھا لیکن
پتہ نہیں اب کدھر غا ئب ہو گیا ہے کوتوال بہت غضب نا ک ہو تا جا سوس قسمیں
کھا تے کہ تھو ڑی دیر پہلے وہ درویش یہیں تھا ایسا کئی بار ہو چکا تھا جب
جا سوسوں نے درویش کی کسی علا قے میں مو جو دگی کی اطلا ع دی لیکن جیسے ہی
کو توال اُس علا قے میں پہنچتا تو درویش اس طرح غا ئب ہو جا تا جیسے کبھی
وہا ں تھا ہی نہیں بار ہاکو ششوں کی نا کا می سے وہ جھنجلا ہٹ اور ما یو سی
کا شکا ر ہو گیا اور آخر کا ر تنگ آکر شہنشاہ اکبر کو خط لکھا کہ شہنشاہ ِ
معظم یہ خا دم اُس درویش کو تلا ش کر کر کے تھک چکا ہے اور میری رائے میں
وہ درویش نہیں بلکہ کو ئی شعبدہ با ز یا جا دوگر ہے جو کسی جگہ نظر آتا ہے
اور پھر غا ئب ہو جاتا ہے اکبر نے خط پڑ ھا تو اور بھی حیرت میں ڈوب گیا
فوری فرمان جا ری کیا کہ اگر وہ شخص جا دوگر ہے تو اِس کی گرفتا ری پہلے سے
بھی ضروری ہو گئی ہے ۔کوتوال شہر نے اپنی کو ششو ں اور جا سوسوں کی تعداد
میں اور بھی اضا فہ کر دیا لیکن نا کامی پر ناکامی اُس کا مقدر ہی جا رہی
تھی اور پھر اُس درویش نے خو د ہی کو توال کا کام آسان کر دیا ایک دن کو
توا ل اپنے کا رندوں کے ساتھ بر ق رفتا ری اُس جگہ کی طرف روانہ ہوا جہاں
پر کسی با غی کو پھا نسی کی سزا دی جا نے والی تھی با دشاہ کی طرف یہ حکم
بھی جا ری تھا کہ پھا نسی پا نے سے پہلے مجرم کے منہ سے جو بھی الفاظ نکلیں
اُن کو ضبط تحریر لا یا جا ئے کوتوال اُس علا قے میں پہنچا تو جا سوس نے
بتا یا کہ فلا ں لمبے بالوں والا نوجوان دراز قد خو برو شخص درویش ہے جس کی
آپ کو تلا ش ہے سپا ہیوں نے جا کر درویش کو جکڑ لیا تو کوتوال نے حقارت سے
کہا اب اپنی جا دوگری دکھاؤ درویش دلنواز تبسم سے مسکرایا اور بو لا میں نے
اپنے آپ کو خو د گرفتا ر کر ایا ہے اور یہ قدرت کا ایک راز ہے پھر درویش کو
زنجیریں پہنا دی گئیں اور پھر اہل لا ہور نے عجیب منظر دیکھا کہ زنجیریں خو
د بخو د ٹو ٹ کر زمین پر گری پڑی تھیں درویش مسکراتی نظروں سے کو توال کی
طرف دیکھا جس کی آنکھیں حیرت سے پھٹی پڑی تھیں کوتوال کے حکم پر درویش کو
دوبا رہ زنجیریں پہنا ئی گئیں لیکن ان کا بھی پہلے جیسا ہی حشر ہوا جیسے
کسی غیر مرئی قوت نے زنجیر کو درویش کے جسم الگ کر دیا ہو لوگ حیرت کے
مجسمے بنے اس عجیب و غریب کھیل کو دیکھ رہے تھے جیسے اُن کے سامنے کو ئی
بہت بڑا جا دوگر اپنے کما ل فن کا مظاہرہ کر رہا ہو جب کو توال کے سپا ہی
بار بار ناکام ہو رہے تھے تو اُن کے چہروں پر خوف کے واضح اثرات نظر آنے
شرو ع ہو گئے تو درویش نے نعرہ مستا نہ با ٓواز بلند کیا اور کہاجب تک میں
خو د زنجیریں نہیں پہنوں گا اُس وقت تک مجھے کو ئی زنجیریں نہیں پہنا سکتا
کوتوال خودکوعرق ندامت اور ذلت میں ڈوبا محسوس کر رہا تھا اُس سے اپنی ذلت
برداشت نہیں ہو رہی تھی وہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا کہ میں تمہا ری یہ جا
دوگری ختم کر کے دم لوں گا اُس کی یہ حالت دیکھ کر درویش بو لا آخر تم مجھے
کس جرم میں گرفتار کر نا چاہتے ہو میں نے کسی شہری کو تنگ نہیں کیا حکو مت
کے خلا ف بغا وت نہیں کی میرا قصور کیا ہے ‘تو غیر شرعی حر کات کر تا ہے
کوتوال بولا تو درویش نے تبسم آمیز لہجے میں جوا ب دیا ہندوستان میں غیر
شرعی حرکا ت تو ہزاروں لوگ کر تے ہیں تم اُن کو گرفتا ر کیوں نہیں کر تے
‘کو توال غصے سے بولا تم سر عام شراب پیتے ہو اور رقص نا چ گا نا کر تے ہو
درویش پھر ٹھہرے ہو ئے لہجے میں بو لا کیا تم اور دوسرے امرائے سلطنت چھپ
کر شراب نہیں پیتے ۔ میں تو شراب خو د پیتا ہوں خو د نا چتا ہو ں تم شریف
عورتوں کو نچاتے ہو ‘بند کمروں میں شراب نا چ گانا کر تے ہو تمہا را با
دشاہ چھپ کر شراب اور نا چ گانا کر نے والوں کو گرفتار کیوں نہیں کر تا کو
توال کو اور بہا نہ مل گیا اچھاتم تو حکومت کے خلا ف خیالات بھی رکھتے ہو
اب میں تمہیں اِس جرم میں گرفتا ر کر وں گا کو توال کی با ر با رکو ششیں جب
ناکام ہو گئیں تو درویش مسکرایا اور بو لا چلو ایک نئے تما شے کے لیے ہم خو
د ہی زنجیریں پہن لیتے ہیں اب کو توال قہر آلودہ لہجے میں مخا طب ہو ا اگر
اب کی بار تم نے زنجیریں تو ڑیں تو میں تیرے پا ؤں میں آہنی میخیں ٹھو نک
دوں گا کو توال کی با ت سن کر درویش گہرے لہجے میں بو لا ہما ری آنکھیں تو
کچھ اور ہی منظر دیکھ رہی ہیں کہ ہما ری زنجیریں پھولوں کے ہا ر ہیں اور
تمہا رے چہرے پر ہمیں میخیں ٹھونکی ہو ئی نظر آرہی ہیں کو توال غصے سے پا
گل ہو گیا درویش کو قید خا نے کی طرف روانہ کر دیا اور پھا نسی پانے والے
با غی کی طرف متو جہ ہوا با غی کے دل میں با دشاہ کے خلاف شدید نفرت تھی
اُس نے پھا نسی سے پہلے باد شاہ کو خو ب گا لیاں دیں اور پھر شاہی فرمان کے
جواب میں کو توال نے با دشاہ کی خط لکھا کہ با غی نے پھانسی سے پہلے ہزاروں
انسانوں کے سامنے شہنشاہ کی شان میں گا لیاں دی ہیں اور پھر جب یہ خط اکبر
با دشاہ کے سامنے پڑھا گیا تو گالیاں سن کر شدت غصب سے بھڑکنے لگا اور کہا
اِس مردود کو توال کو شرم نہیں آتی ایسے الفاظ لکھتے ہو ئے فوری طو ر پر
اپنے خا ص بندے کو لا ہور کا کو توال مقرر کیا اور فرمان جا ری کیا اِس بد
تمیز کو توال کو سر عام عوام کے سامنے سر میں اتنی زیا دہ میخیں ٹھونکی
جائیں کہ تڑپ تڑپ کر جان دے دے تا کہ آئندہ کو ئی ایسی گستا خی کا سوچ بھی
نہ سکے اور پھر جب کو توال کے سر میں آہنی میخیں ٹھو نکی جا رہی تھیں تو
اہل لا ہو ر کو وہ درویش بار بار یا د آرہا تھا جس نے قید خا نے میں جا نے
سے پہلے کو توال کو کہا تھا کہ مجھے تو ایک منظر اور بھی دکھا ئی دے رہا ہے
کہ کچھ غیر مرئی ہا تھ تمہا رے سر میں میخیں ٹھونک رہے ہیں محترم قارئین
اِس درویش کا نام حضرت شیخ حسین لا ہو ری ؒ تھا جسے دنیا شاہ حسین لال حسین
ما دھو لال حسین ؒ کے نام سے جانتی ہے جو سلسلہ قادریہ کے آسمان تصوف کے
مشہور و معروف ستارے ہیں جن کی روشنی سے ہزاروں اندھی روحوں نے روشنی حاصل
کی ۔
|
|