شیخوپورہ ٹرین حادثہ کا آنکھوں دیکھا حال

رات کے ٹھیک بارہ بج چکے تھے میں سونے کی بالکل تیاری میں تھا کہ اچانک ایک دوست کا فیس بک اسٹیٹس پڑھنے کو ملا کہ شیخوپورہ میں ٹرین حادثہ، میں نے اسے فوری فون لگایا کہ تفصیل فراہم کرو، اس کی طرف سے تفصیل موصول ہوئی ہی تھی کہ شیخوپورہ کے صحافیوں کے ایک گروپ میں بھی یہ خبر چلنے لگی ،نیند اچانک ہی غائب ہوگئی ، میں نے اپنے دوستوں کو کالز کیں کہ اس موقع پہ ہمیں پیچھے نہیں رہنا چاہیئے ، اور یوں ساڑھے بارہ بجے ہم جائے حادثہ پہ پہنچ چکے تھے جو کہ ہماری رہائش سے صرف آٹھ کلو میٹر کے لگ بھگ کی دوری پہ تھا فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے رضا کار شیخوپورہ لاہور فیصل آباد سے بڑی تعداد میں پہنچ رہے تھے -

رات کے ایک بجے کے لگ بھگ ہم نے ٹرین کے انجن سے ڈرائیو کی لاش نکالی جو کہ بالکل کوئلہ ہو چکی تھی ، کیا گزری ہو گی اس بے چارے پہ، اسے اٹھانے کے لیے سر کے پیچھے ہاتھ ڈالا تو انگلیاں کھوپڑی کے اندر تک اتر گئیں اور کھوپڑی اندر سے ایسے ہی گرم تھی جیسے آپ گرم چاولوں میں ہاتھ ڈال دیں،اﷲ مغفرت فرمائے اس ڈرائیو کی جس نے اپنی جان دے دی لیکن سواریوں کو بچا لیا -

تفصیل کے مطابق ہرن مینار روڈ پہ اس پھاٹک کے عین اوپر چوبیس وہیلر آئل ٹینکر پھنسا ہوا تھا جس کو باوجود کوشش کے وہاں سے ہٹایا نہ جا سکا ،ٹرین آئی اور ٹینکر سے ٹکرائی، اور بْری طرح ٹکرائی، انجن ٹینکر کو گھسیٹتا ہوا دور تک لے گیا اور اس کی بندر بانٹ کر دی ، آئل کی موجودگی کی وجہ سے آگ یوں بْری طرح بھڑکی کہ آس پاس کے درخت تک جل گئے پانی کے اندر آئل پھیل جانے کی وجہ سے آگ بجھنے کا نام ہی نہ لے رہی تھی آگ کو بجھانے کی خاطر اس پہ پانی پھینکتے تو وہ مزید بھڑک اٹھتی،

اس دوران چند جذباتی لوگ آگے بڑھے اور حفاظتی تدابیر کی مخالفت کرتے ہوئے آگ کو بجھانے کے لیے پاگل پن کا مظاہرہ کیا ، اور ریسکیو والوں کی طرف سے لگائی گئی حفاظتی بیلٹ کو توڑتے ہوئے آگے بڑھے اور آگ کے بالکل قریب جا جمع ہوئے ، ریسکیو1122نے ان لوگوں کو بہتیرا سمجھایا کہ اس وقت جوش کی نہیں ہوش کی ضرورت ہے ، لیکن وہ تھے کہ غصے آسمان سر پہ اٹھا رکھا تھا حالانکہ تمام مسافر خیریت سے اتر کر اطراف میں جمع ہو چکے تھے اور اس وقت آگ کو لگے ہوئے ایک گھنٹہ گزر چکا تھا اور ریسکیو اہلکار و دیگر امدادی ٹیمیں صرف آئل کا زور ختم ہونے کے انتظار میں تھے ، یہاں مجھے چند چیزیں سمجھ آئیں پہلی بات تو یہ کہ محسوس ہو رہا تھا کہ یہ سبوٹاژ کاروائی ہے اور اس پہ مستزاد یہ کہ چند مخصوص لوگوں کی طرف سے امدادی ٹیمیوں کے کاموں میں خلل ڈالنا اور یہ شور کرنا کہ امدادی ادارے ناکام ہو چکے ہیں یہ سب سوچی سمجھی سازش لگ رہی تھی دوسری بات یہ کہ اکثر لوگوں نے اس حادثے کو تفریح کا ذریعہ بنایا اور سلفیاں اور ویڈیوز بنا بنا کر اپلوڈ کرتے پائے گئے باقی اکثر لوگ بے ڈھنگ انداز میں انفرادی طور پہ بالٹیوں سے پانی پھینکتے رہے اسی اثناء میں فائر بریگیڈ کی آٹھ سے زائد گاڑیاں جائے حادثہ پہ پہنچیں اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن والوں نے ریسکیو والوں کے ساتھ مل کر جس تیزی سے آگ پہ قابو کی خاطر کوششیں کی وہ قابل قدر ہیں اور تین گھنٹے کی مسلسل تگ و دو کے بعد صبح چار بجے کے قریب آگ پہ مکمل طور سے قابو پایا جا سکا، مجھے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن والوں کے ہمراہ جلی ہوئی ٹرین کے اندر کلیئرنس کی خاطر جانے کا موقع ملا آگ بجھ جانے کے بعد بوگیوں کے اندر دھواں اور حبس شدید ہو گیا تھا، اندر جانے کا مقصد یہ تھا کہ دیکھا جائے کہ کوئی ڈیڈ باڈی تو نہیں ہے اندر ، لیکن اﷲ کا شکر ہے کہ تمام چھ بوگیاں کلئیر کرنے پہ معلوم ہوا کہ اندر کوئے لاش نہیں ہے یعنی تمام مسافر خیریت سے ٹرین سے اتر چکے تھے صرف دونوں ڈرائیو ہی آگ سے جھلسنے کی وجہ سے وفات پاگئے ہیں ۔لیکن اس جدید دور میں بھی ٹرین کو قبل از وقت اطلاع دینے کا کوئے نظام موجود نہ ہونا محکمہ ریلوے کی کارکردگی پہ سوالیہ نشان ہے۔

فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی ایمبولیسنز اور موبائل میڈیکل وین موقع پہ موجود رہی اسی طرح ایدھی والوں کی چار ایمبولیسنز بھی موجود تھیں اور ریسکیو 1122 والے بھی اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ موجود رہے اور بھرپور کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہے -

اسی دوران اے آر وائی کے نمائندوں کو کال موصول ہوئی کہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن والوں کو ہرگز کوریج نہیں دینی لیکن کوئی انہیں سمجھایے کہ یہ لوگ شہرت کی خاطر کام نہیں کرتے صبح کے ساڑھے چار بجے مجھے شدید تھکاوٹ اور نیند نے آلیا اور میں واپس گھر روانہ ہوگیا -

لیکن امدادی ٹیمیں جائے حادثہ پہ صبح ہونے کے بعد بھی موجود رہیں اور ٹریک کو کلئیر کروانے میں محکمہ ریلوے کی مدد کرتی رہیں -

ضرورت اس امر کی ہے کہ حادثات کی روک تھام کی خاطر جدید تکنیکی نظام کو اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ اگر حادثے کو روکا نہ جا سکے تو اس کے اثرات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جا سکے -

اسی طرح ریسکیو اہلکاروں کی جانب سے عوام کو کنٹرول کرنے کا سخت نظام موجود ہونا چاہیئے کیونکہ ریسکیو اہلکار تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور وہ جائے حادثہ پہ معاملات کو اچھی طرح سنبھال سکتے ہیں جبکہ عوام صرف جذباتی صورتحال کا شکار ہوکر وقتی اور انفرادی ایکشن کرتی ہے جو کہ کسی کام کے نہیں ہوتے نیز حادثہ ہوجانے کے بعد اس پہ قابو پانے میں کچھ وقت تو لگتا ہے، اس دوران انتظامیہ کو مکمل۔اعتماد سے کام۔کرنے دیا جانا چاہئیے نہ کہ شور و غوغا شروع کر دیا جائے کہ انتظامیہ ناکام ہو چکی ہے اور آگ پہ قابو نہیں پایا جا سکا ، ایسی باتیں کرنے سے نہ تو آگ بجھ سکتی ہے اور نہ ہی نقصان کی تلافی ہو سکتی ہے لہذا ہر ایک کو ایسے مواقع پہ مشترکہ کوششوں سے نقصان کی تلافی میں مدد کرنی چاہیئے -

متاثرہ مسافروں کو ڈی پی او شیخوپورہ سرفراز خان ورک اور ڈپٹی کمشنر شیخوپورہ ارقم طارق کی کوششوں سے پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کے ذریعے لاہور روانہ کر دیا گیا تاکہ وہ دوسری ٹرین سے اپنی منزل کی طرف روانہ ہو سکیں۔

جہاں ایک طرف ریلوے ٹریک پہ موجود پھاٹک کے گیٹ کیپرز کو تربیت دینے اور پھاٹک کو ٹرین کے گزرنے کے اوقات میں ہر صورت کلئیر رکھنے کی تربیت دینے کی ضرورت ہے وہیں ٹینکرز ایسوسی ایشن کے تعاون کے ساتھ ٹینکرز مالکان اور ڈرائیورز کی ذہنی جسمانی اور نفسیاتی تربیت کرنا از حد ضروری ہے تاکہ ایسے حادثات سے آئندہ بچا جا سکے م کیونکہ ٹرک و ٹینکر ڈرائیوز طویل ڈرائیو کرتے ہیں اور وہ بھی بغیر کسی مناسب آرام کے ، تو یہ صورتحال بھی پریشان کن ہے -

عام طور پہ دیکھا گیا ہے کہ دریاؤں کے پلوں اور ریلوے پھاٹک پہ ہی بڑے ٹرک اور ٹینکر مسائل کا شکار ہوتے ہیں تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان کی مینوفیکچرنگ میں کون سے ایسے تکنیکی نقائص رہ جاتے ہیں کہ یہ ٹرک وغیرہ جھٹکے برداشت نہیں کر سکتے اور عوام کے نقصان کا سبب بنتے ہیں ؟ کیا ان نقائص کو دور نہیں کیا جا سکتا ؟ یا کیا ابھی تک ہم نے بحیثیت قوم انسانی جانوں کی قدر و قیمت نہیں جانی؟

Faheem Shakir
About the Author: Faheem Shakir Read More Articles by Faheem Shakir: 3 Articles with 2382 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.