۱۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ فتح
مکہ کے سال جب نبی کریم ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو آپ ﷺ نے اپنے سر انور
پر’’خود‘‘(آہنی ٹوپی) پہن رکھی تھی جب آپ ﷺ نے اُسے اُتارا تو ایک شخص حاضر
ہوا اورعرض کیا:
یا رسول اللہ ﷺ ' ابن خطل (گستاخِ رسول) کعبۃ اللہ کے پردوں سے چمٹا ہواہے
تو آپ ﷺ نے حکم دیا اُسے قتل کردو
( مسلم شریف ،کتاب الحج، رقم الحدیث 3312،صفحہ نمبر572مطبوعہ دارالسلام
ریاض سعودی عرب)
۲۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ؑﷺ نے
فرمایا ' کعب بن اشرف (یہودی) کو کون قتل کریگا کیونکہ اس نے اللہ تعالیٰ
اور اس کے رسول ﷺ کواذیت(تکلیف) دی ہے۔ محمد بن مسلمہ نے عرض کیا۔ یارسول
اللہ ﷺ ! کیا آپ پسند فرماتے ہیں کہ میں اس کو قتل کردوں ۔آپ ﷺ نے فرمایا
جی ہاں۔
وہ کعب بن اشرف کے پاس گیا اور کہا کہ اس نے یعنی حضوراکرم ﷺ نے ہم کو ''
اوامر نواہی '' کا مکلف بنادیاہے اور ہم سے صدقات طلب کرتے ہیں ۔
محمد بن مسلمہ نے کہا کہ کعب بن اشرف نے کہا : بخدا تم اس کے بعد اس سے بھی
زیادہ تنگ پڑجاؤ گے۔
محمد بن مسلمہ نے کہا ہم نے اس کی اتباع کی ہے اور اس کا فراق پسند نہیں
کرتے حتی کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا معاملہ کدھر جاتاہے وہ بہت دیر تک اس
کے ساتھ محو گفتگو کرتے رہے حتی کہ اس پر قادر ہوگئے اور اس کو قتل کردیا۔
(بخاری شریف جلد دوم،کتاب الجہاد ،رقم الحدیث 281،صفحہ نمبر153مطبوعہ شبیر
برادرز لاہور پنجاب پاکستان)
۳۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بنی نجار سے ایک آدمی
جوسورہ بقرہ اور سورہ ال عمران کو سیکھ رہاتھا اور کاتب وحی بھی تھا(یہ
منافق بارگاہ مصطفوی میں گستاخی کا مرتکب ہوگیا) اور بھاگ کر اہل کتاب سے
جاملا۔ انہوں نے تعجب کیا ۔ ۔ ۔ابھی ان کے پاس اُسے تھوڑا ہی عرصہ گزراتھا
کہ وہ ہلاک ہوگیا لوگوں نے اس کیلئے قبر کھودکر اس میں دفن کردیا۔صبح ہوئی
تو دیکھا کہ زمین نے اُسے باہر پھینک دیاہے ۔ اُسے پھر دفن کیا اگلے دن
زمین پھراسے باہر پھینک دیا ۔ اس سے اگلے دن پھر یہی ہوا ۔ اس پر لوگوں نے
اسے ایسے ہی بے گورو کفن چھوڑدیا۔
( مسلم شریف عربی جلددوم صفحہ نمبر 370مطبوعہ کراچی)
۴۔ حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے
کہ ایک نابینا صحابی کی ام ولد تھی جو نبی کریم ﷺ کو سب و شتم کیاکرتی اور
بدگوئی کرتی تھی ۔ اُس کا آقا منع کرتامگر بازنہ آتی ۔ ڈانٹ ڈپٹ کرتا تب
بھی باز نہ آتی ۔
ایک رات اس نے حضوراکرم ﷺ کی بدگوئی کی اور سب و شتم کرتی رہی۔ پس صحابی
رضی اللہ عنہ نے خنجر لے کر اس کے پیٹ پر رکھااور دباؤ ڈال کر اسے قتل
کردیا۔ چنانچہ اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان سے بچہ بھی برآمد ہواجس سے وہ
خون میں لت پت ہوگئی۔
صبح کے وقت نبی کریم ﷺ سے اس بات کا ذکر ہوا تو آپ ﷺ نے لوگوں کو جمع کرکے
فرمایا۔ میں ایسا کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کی قسم دیتاہوں اور اپنے حق کی
جو میرا اس پر ہے کہ وہ کھڑا ہوجائے۔
پس نابینا صحابی کھڑے ہوئے۔ لوگوں کو پھاندتے اور لرزتے ہوئے بڑھے، یہاں تک
کہ نبی کریم ﷺ کے سامنے جابیٹھے۔ عرض گزار ہوئے کہ یارسول اللہ ﷺ ! میں اس
کا مالک تھا ۔ وہ آپ ﷺ کی شان میں بکواس کرتی تھی ۔ میں منع کرتا تو
بازنہیں آتی تھی ڈانٹ ڈپٹ کرتاتب بھی نہ رکتی ۔ میرے اس سے دو بیٹے ہیں
موتی جیسے اور میری غمخوارتھی۔ گذشتہ رات جب وہ آپ ﷺ کو سب و شتم کرنے لگی
اور ہجو گوئی (گستاخی) کی تو میں نے خنجر لے کر اس کے پیٹ پر رکھ دیا اور
اس پر دباؤ ڈال کر اسے قتل کردیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا لوگو! گواہ رہنا کہ
اس کا خون رائیگاں گیا۔
(سنن ابو دائود، کتاب الحدود، رقم الحدیث 4361صفحہ نمبر 613مطبوعہ
دارالسلام ریاض سعودی عرب)
لہذا سرور کونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا گستاخ کافر و مرتد ہوجاتاہے
گستاخ رسول ہرگز مسلمان نہیں رہتا۔ وہ اپنی کلمہ گوئی کی اہانت رسول کے
باعث خود ہی نفی کردیتاہے وہ اسلام کے دائرے سے باہر اور ایمان کی دولت سے
محروم ہوجاتاہے ۔ |