فراموش انتخاب از کاشف فاروق

کہانی کا مصنف روزانہ صبح کی سیر کے لیے باہر جایا کرتا تھا۔ جس جگہ اس کے محلے کی گلیاں ختم ہوتی تھیں تقریباً وہیں سے آبادی بھی ختم ہوجاتی، وہیں سے باہر کی طرف ایک لمبی سڑک نکلتی تھی۔ جس پر مصنف سیر کے لیے چل نکلتا۔ سڑک سے تھوڑی دور جاکر محصول چونگی کی چوکی تھی۔ جہاں پر خربوزوں اور ککڑیوں کے ٹوکرے پڑے ہوتے یا دوسری طرف سبزیوں سے لدی ہوئی گدھا گاڑیاں کھڑی نظر آتیں۔ آگے ایک رهٹ تھا اور اس سے آگے ٹیوب ویل اور اس کا سیمنٹ کا بنا ہوا حوض۔ جس میں ٹیوب ویل کا پانی گزرتا تھا، ٹیوب ویل سے بیس تیس قدم کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی کوٹھی تھی۔ جس پر چاروں طرف سے سفیدی ہوئی ہوئی تھی۔ کوٹھی کے باہر کسی انجینئیر کے نام کی تختی لگی تھی۔ لیکن بظاهر وه غیر آباد اور پراسرار سی لگتی تھی۔ کیونکه وهاں پر زندگی کے نشان بهت هی کم نظر آتے تھے۔ کوٹھی سے آگے بهت دور دونوں طرف کھلا میدان تھا۔ اسکے بعد سڑک ایک تیز موڑ کھاتی اور مشن اسکول کی عمارت سامنے آجاتی۔ اس سے خاصی دور اینٹوں کے بھٹے کی چمنیاں نظر آتیں۔ اس کے بعد سڑک کے آگے ریل کی پٹڑی آجاتی جهاں سے ریلوے کی طرف پھاٹک لگا هوا تھا۔

مصنف کا روز کا یه معمول تھا که وه سڑک پر سیر کے لیے نکلتے هی نیم کے کسی پیڑ سے ایک مسواک توڑ لیتا اور اسے چباتے هوۓ سڑک پر چل نکلتا، جس جگه پر ریل کی پٹڑی سڑک کو کاٹتی وهاں سے وه واپس لوٹ جاتا، یه اس کی آخری حد تھی۔ واپسی پر وه ٹیوب ویل کے حوض سے اپنا منه هاتھ دھوتا اور چپل اتار کر مٹی میں اٹے پاؤں پانی میں ڈال دیتا۔ تو اسے عجیب سی فرحت محسوس هوتی۔ کوٹھی کے سامنے سے گزرتے هوئے کبھی کبھار ایسا هوتا که اندر سے ایک سفید رنگ کی گیند باهر سڑک پر آگرتی جسے اٹھانے کے لیے ایک نوجوان سا لڑکا جو حلیے سے ملازم لگتا سڑک پر آتا اور بغیر کسی طرف دھیان دیے گیند اٹھا کر کوٹھی میں داخل هوجاتا۔ کبھی کبھار هونے والے صرف اس واقعه سے اندازه هوتا که کوٹھی غیر آباد نهیں هے۔ ورنه عام طور پر کوٹھی میں زندگی کے آثار بهت کم نظر آتے۔

ایک دن ایک چھوٹا سا عجیب واقعه هوا۔ مصنف نے دیکھا که کوٹھی کے عین سامنے سے گزرنے والی سڑک پر سفید چاک سے لفظ فراموش لکھا هوا هے۔ مصنف وهاں پر یه لفظ لکھا هوا دیکھ کر ٹھٹھک سا گیا، کیونکه اس لفظ سے اسکی بھی بعض یادیں وابسته تھیں۔ دوسرے دن جب وه سڑک پر سے گزرا تو لفظ فراموش کے حروف کچھ مٹ سے گئے تھے۔

چند دن اسی طرح گزر گئے۔ ایک دن مصنف نے دیکھا که کوٹھی کی سفید اور صاف شفاف دیوار پر کالے کوئلے سے لفظ فراموش لکھا هوا تھا۔ اس نے یه سوچ کر اپنے دل کو تسلی دی که شاید یه کسی شریر بچے کی شرارت کا نتیجه هے۔ چنانچه سیر سے واپسی کے دوران اس نے دیکھا که ایک ادھیڑ عمر کا شخص جو چهرے سے افسر لگتا تھا اور شب خوابی کا لباس پهنے هوئے تھا، اپنی نگرانی میں وه لفظ مٹوا رها تھا۔ دو تین دن بعد مصنف نے اسی مقام پر وه لفظ پھر لکھا هوا دیکھا۔ ایسا کئی مرتبه هوا که مصنف جب سیر کے لیے کوٹھی کے پاس سے گزرتا تو وه لفظ دیوار پر موجود هوتا لیکن واپسی پر وه یا تو مٹایا جاچکا هوتا یا پھر مٹایا جارها هوتا۔ اسی دوران میں مصنف کو اپنے کام کاج کے سلسلے میں شهر سے باهر جانا پڑا۔

پندره دن بعد، اسکی واپسی هوئی۔ صبح کو وه سیر کے لیے نکلا تو وه لفظ وهاں لکھا هوا موجود تھا، لیکن کسی نے اسے مٹانے کی کوشش نهیں کی تھی۔ دو تین دن گزر گۓ، لیکن پھر بھی کسی نے اس لفظ کو نهیں مٹایا تھا۔ مصنف نے سوچا که ممکن هے انجینئیر صاحب کسی لمبے دورے پر نکل گئے هوں۔ یا پھر ان کا تبادله هوگیا هو، اور یه بھی ممکن هے که وه بیمار هوں۔ بهر حال، یه مسئله حل نه هوسکا۔ اسی دوران میں بارشوں کا سیزن شروع هوگیا۔ لگاتار بارشیں هونے لگیں۔ سوکھے هوئے تالاب بارش کے پانی سے بھر گۓ۔ فضا میں نمی کے باعث در و دیوار پر سبز کائی جمنا شروع هوگئی۔ انجینئیر صاحب کی کوٹھی پر لکھا هوا وه لفظ اسی طرح موجود تھا۔ لیکن اس کے حروف دھندلے پڑ گۓ تھے۔ مصنف کو خدشه هوا که کهیں یه لفظ بالکل هی نه مٹ جائے۔ دراصل اس لفظ سے اس کو ایک تعلق سا هوگیا تھا۔ برسات کا موسم ختم هونے لگا۔ بارش بھی کبھی کبھار هوتی تھی۔ تالابوں کا پانی کم هونا شروع هوگیا تھا۔ لوگوں نے برسات کے موسم میں اپنے مکانوں کی گری هوئی دیواروں اور چھتوں وغیره کا کام شروع کردیا تھا۔ ایک دن مصنف کو انجینئیر صاحب کی کوٹھی کے احاطے میں بھی چونے کی بوری رکھی هوئی نظر آئی۔ ظاھر هے که کوٹھی کے در و دیوار کی بھی سفیدی هونے والی تھی۔ مصنف کا دھیان فوراً لفظ فراموش کی طرف گیا۔ یه لفظ خاصا مدھم پڑ چکا تھا۔ لیکن سفیدی کے دوران تو اس نے بالکل هی مٹ جانے تھا۔ اس خیال سے مصنف کے دل میں اداسی کی ایک لهر دوڑ گئی۔ جس سے اسے بے پناه انس هوگیا تھا۔ دو تین دنوں میں پوری کی پوری کوٹھی پر سفیدی هوگئی۔ لیکن مصنف یه دیکھ کر دنگ ره گیا که جس دیوار پر لفظ فراموش لکھا تھا وهاں پر اس طریقے سے سفیدی هوئ تھی که اس پر ایک بوند بھی چونے کی نهیں پڑی تھی اور وه لفظ اپنی جگه پر جوں کا توں قائم تھا۔

اس کے بعد مصنف کچھ عرصے کے لیے دورے پر نکل گیا۔ واپس آیا اور اس کوٹھی کے پاس سے گزرا تو اس نے دیکھا که کوٹھی کے برآمدے میں تین چار بچے دھما چوکڑی مچا رهے هیں اور اندر سے خواتین انهیں شور و غل کرنے سے منع کرنے کے لیے آوازیں دے رهی تھیں۔ بچوں کو ڈانٹنے کے لیے ایک مردانه آواز بھی آئی۔ مصنف کو بے حد اچھنبا هوا که اس کوٹھی میں یه نئی زندگی اچانک کیسے اور کهاں سے پھوٹ پڑی۔ خاموش برآمدوں، شیشے والے بند دروازوں اور گونگے کمروں کی کایا کیسے پلٹ گئی۔ اس نے سوچا که ممکن هے که انجینئیر صاحب کے کهیں سے مهمان آگۓ هوں۔ دوسرے دن اس نے دیکھا که کوٹھی کے باهر والے پھاٹک کے پاس سفیدی کے ڈول ڈرم وغیره رکھے هوئے هیں۔ اس نے نظر اٹھا کر دیکھا، واقعی سفیدی هوچکی تھی۔ اسکی نظریں فوراً اس دیوار کی طرف گئیں جهاں وه لفظ لکھا هوا تھا۔ مصنف کا دل دھک سے ره گیا۔ دیوار پر سفیدی هوچکی تھی اور وه لفظ مکمل طور پر مٹایا جاچکا تھا۔ اس سے ضبط نه هوسکا۔ مالی کوٹھی کی باهر والی دیوار کے ساتھ لگی هوئی بیلوں کو کاٹ رها تھا۔ اس نے اسکے قریب جا کر دریافت کیا که کیا آج انجینئیر صاحب کے مهمان آۓ هوئے هیں؟ مالی نے بتایا که نهیں نئے انجینئیر صاحب آئے هیں۔ پهلے والے انجینئیر صاحب پینشن لے کر چلے گئے هیں۔ مالی نے مصنف کو بتایا که پرانے انجینئیر صاحب کا اب پینشن پر چلے جانا ہی بهتر تھا، کیونکه اب ان کا دماغ ٹھکانے نهیں رها تھا۔ دراصل انجینئیر صاحب کی کوئی اولاد نهیں تھی۔ انهوں نے ایک لڑکا لے کر پالا تھا، وه اس سے بهت لاڈ پیار کرتے تھے۔ وه لڑکا هی ان کی زندگی کا محور تھا، وه اسی کو دیکھ کر جیتے تھے۔ نه کسی سے ملتے ملاتے تھے اور نه کسی کے پاس آتے جاتے تھے۔ دفتر سے گھر اور گھر سے دفتر بس دو هی ان کے ٹھکانے تھے۔ اچانک وه لڑکا لو لگنے سے بیمار هوگیا اور مر گیا۔ انجینئیر صاحب کی دنیا اجڑ گئی۔ وه پھر سے اکیلے ره گئے۔ وه بهت دکھی هوگئے تھے۔ نوکری سے ان کا دل اچاٹ هوگیا تھا اور وه کھوئے کھوئے سے رهنے لگے تھے۔ ان کے دل میں هر وقت اسی لڑکے کا خیال سمایا رهتا تھا۔ انهوں نے اس لڑکے کی ایک ایک چیز کو سنبھال کر رکھا هوا تھا۔ یه کهه کر مالی نے مصنف کی طرف دیکھے بغیر اپنی قینچی اٹھائی اور بیل کاٹنے میں مصروف هوگیا۔

مصنف جو همیشه سیر کے دوران ریل کی پٹڑی کے پاس سے هو کر واپس آیا کرتا تھا آج اسے یه فاصله اتنا طویل لگا که وه بیزار هو کر ریل کی پٹڑی کو چھوئے بغیر واپس آگیا۔
Honey Ahmad
About the Author: Honey Ahmad Read More Articles by Honey Ahmad: 10 Articles with 11694 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.