نوٹ: یہ مضمون پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیر
اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی یاد میں لکھا گیاہے جنہیں چار اپریل 1979 کو
پھانسی دی گئی تھی جو ایک عدالتی قتل تھا، اس مضمون کا موجودہ پاکستان
پیپلز پارٹی کے کردار سے کوئی تعلق نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چار اپریل 1979 پاکستان اور دنیا بھرکے جمہوریت پسند عوام کے لیے ایک ایسا
منحوس دن تھا ، جسے تاریخ میں ایک سیاہ ترین دن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا
جائے گا۔ اگر آپ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو لازمی آپ اس عدالتی فیصلے
کی مذمت کرینگے جو لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس مولوی مشتاق اور سپریم
کورٹ کے سابق چیف جسٹس انوارالحق نے ایک آمر جنرل ضیاء الحق کے کہنے پراور
کچھ اپنی ذاتی ناپسندیدگی کی وجہ سے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو
قتل کرنے کےلیے پھانسی دینے کا غلط فیصلہ دیا تھا۔ چار اپریل 1979 کو بھٹو
کو پھانسی دئے دی گئی، جو ایک عدالتی قتل تھا، جس کے ذمہ داروں میں آمر
جنرل ضیاء الحق، مولوی مشتاق اور انوارالحق شامل تھے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کسی
بزدل کا نام نہیں تھا، وہ مسلم اور تیسری دنیا کا ہیرو تھا اور یہ ہی اس کا
قصور تھا، کیونکہ امریکی سامراج کو اس طرح کے اور خاص کر تیسری دنیا کے وہ
رہنما بلکل پسند نہیں آتے جو سامراج کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرتے
ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ ایک موقعہ پر سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجرنے
بھٹو کو کھلے عام سزا دینے کی دھمکی دی تھی۔ چار اپریل 1979کے سیاہ دن
کےحوالے سے مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ذوالفقار علی بھٹوکو قتل
کیا گیا تھا، اس میں امریکہ، پاکستان کا حکمراں فو جی ٹولہ ، اعلی عدالتوں
کے جج اور جماعت اسلامی سب شامل تھے۔
پاکستان کی عدلیہ پر ہمیشہ سے یہ الزام لگا ہوا ہے کہ یہ کبھی بھی غیر
جانبدار نہیں رہی، اس کے بہت زیادہ فیصلے اور خاص کر سیاسی فیصلے ہمیشہ
نظریہ ضرورت کے تحت ہوئے ہیں، سب سے پہلےجسٹس منیر کا وہ بدنام زمانہ فیصلہ
آیا جس میں گورنر جنرل غلام محمدکےغیر جمہوری فیصلےکو نظریہ ضرورت کی چھتری
تلےجائز قرار دیا گیا تھا۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی
عدالتی قتل کہلاتی ہے۔ 1977 میں جنرل ضیاء الحق نے بھٹو سے حکومت تو چھین
لی لیکن بھٹو کی شہرت اور عوام کی اس سے محبت نہ چھین سکا، سدا کا بزدل
تھااس لیے بھٹو کا وجود ہی ختم کرنے میں اپنی عافیت جانی۔ اقتدار پر قبضے
کے بعد چیف جسٹس یعقوب علی خان کو گھر میں نظر بند کرکے جبری رخصت پر بھیج
دیا اور اپنے سے بڑئے خوشامدی اور بزدل جسٹس انوارالحق کو ستمبر 1977 میں
سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنادیا۔جسٹس مولوی مشتاق کو بھٹو اس لیے ناپسند تھا
کہ بھٹو نے اسے لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس نامزد نہیں کیا تھا۔ ضیاءالحق
نے جسٹس مولوی مشتاق کو 12 جنوری 1978 کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس
مقررکیا، جس نے 18 مارچ 1978 کو بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ سنایا جس میں
اس نےآخری جملہ یہ کہا کہ’’تمہیں گلے میں پھندا ڈال کر لٹکایا جائے گا
تاوقتیکہ تم مر جاو‘‘۔
بعد میں چیف جسٹس انوارالحق کے سپریم کورٹ نےبھی بھٹو کی پھانسی کی سزا
برقرار رکھی اور 4 اپریل 1979 کی صبح بھٹو کو سرکاری طور پر پھانسی دینے کا
پی ٹی وی کے زریعے اعلان کیا گیا۔ سپریم کورٹ کی بھٹو کو پھانسی دینے والی
بینچ میں جسٹس نسیم حسن شاہ بھی شامل تھے جو کسی وقت میں جماعت اسلامی کی
طلبہ تنظیم اسلامی جمیت طلبہ سے تعلق رکھتے تھے۔ 17 اگست 1988 کو جنرل
ضیاءالحق ایک فضائی حادثے میں مارا گیا اور سوائے اس کی بتیسی کے کچھ نہ
ملا۔ قدرت کا انصاف دیکھیے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد مولوی مشتاق کو ہر وقت موت
کا خوف طاری رہتا تھا، مرنے سے قبل ایک پرُ اسرار بیماری میں مبتلا ہوگیا
تھا، جس کے باعث اس کے جسم سے بدبو آنا شروع ہو گئی تھی، جس دن مولوی
مشتاق زندگی کی قیدسے آزاد ہوا،اس کے جنازے پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کر
دیا تھا۔اخبارات میں شائع ایک تصویر کے نیچے لکھا ہوا تھا کہ بھٹو شہید کو
سزا دینے والے جج مولوی مشتاق کی میت سڑک پر لاوارث پڑی ہے۔ مولوی مشتاق کے
جنازے پر شہد کی مکھیوں نے اتنا شدید حملہ کیا تھا کہ آخری رسومات میں
شامل لوگ جنازہ چھوڑ کر بھاگ گئے تھے، اس واقعے میں چار افراد کی موت بھی
واقع ہوگئی تھی۔
مورخہ 21 مارچ 1978 کو ذوالفقار علی بھٹو نے جیل سے عدالت کو کہا تھا
’’میرا خدا جانتا ہے کہ میں نے اس آدمی کا خون نہیں کیا، اگر میں نے اس کا
ارتکاب کیا ہوتا تو مجھ میں اتنا حوصلہ ہے کہ میں اس کا اقبال کر لیتا اور
اقبال جرم اس وحشیانہ مقدمے کی کارروائی سے کم اذیت دہ اور بے عزتی کا باعث
ہوتا۔ میں مسلمان ہوں اور ایک مسلمان کی تقدیر کا فیصلہ اس ذات مطلق کے
ہاتھ میں ہوتا ہے، میں صاف ضمیر کے ساتھ اس کے حضور پیش ہو سکتا ہوں اور اس
سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس کی مملکت اسلامیہ پاکستان کی راکھ کے ڈھیر سے
دوبارہ ایک باعزت قوم کی صورت میں تعمیر کی ہے۔ میں آج کوٹ لکھپت کے اس
’’بلیک ہول‘‘ میں اپنے ضمیر کے ساتھ مطمئن ہوں ( بحوالہ کتاب: ذوالفقار علی
بھٹو، عدالتی قتل)۔معروف صحافی اور دانشور وکٹوریہ شو فیلڈ’’بھٹو کا مقدمہ
اور عمل درآمد‘‘ کے عنوان سے تحریر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’ذوالفقار علی
بھٹو کے عدالتی قتل کے حوالے سے واقعات و حادثات اب پاکستان کی قومی تاریخ
کا حصہ ہیں‘‘۔ انصاف کے قتل کے اس تاریخی مقدمے کے دیگر تمام کردار بھی
دنیا سے رخصت ہو کر اس آخری عدالت میں پہنچ چکے ہیں جہاں انصاف کا قتل نہیں
بلکہ انصاف ہو گا۔
جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد یہ بات تسلیم کی کہ بھٹو
کوپھانسی دینے کا فیصلہ دباو کا نتیجہ تھا، نسیم حسن شاہ نے یہ بھی کہا تھا
کہ سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مولوی مشتاق کو یہ مقدمہ نہیں سننا چاہیے
تھا کیونکہ ان کی بھٹو سے ذاتی رنجش تھی۔ نسیم حسن شاہ نے یہ بھی تسلیم کیا
کہ بھٹو کے مقدمہ میں شک کا فائدہ انھیں ملنا چاہیے تھا۔ نسیم حسن شاہ کے
اس اعترافی بیان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کو قانونی تہذیب
اور وجود کے قتل سے کم نہیں سمجھا جائے گا اور ہر جمہوریت پسند کے نزدیک یہ
عدالتی نظام کے غلط استعمال کا ایک ناقابل تلافی واقعہ تھا۔ تاریخ کا ایک
اور دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ 23 مارچ 1931 کوکوئی مجسٹریٹ بھگت سنگھ کی
پھانسی کے وقت وہاں کھڑا ہونے اور موت کے سرٹیفیکٹ پر دستخط کرنے کےلیے
تیار نہیں تھا ۔ ایک آنریری مجسٹریٹ نے یہ کام کیا تھا اور وہ مجسٹریٹ
نواب محمد احمد قصوری تھا اور یہ ہی نواب قصوری اپنے ہی قتل کے الزام میں
اپنے عہد کے ایک اور بھگت سنگھ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا سبب بنا ۔
ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل میں جنرل ضیاء الحق کے ساتھ جماعت اسلامی
بھی شامل تھی۔ جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد، ضیاءالحق اورانوارالحق
تینوں کا تعلق جالندھر سے تھا مگر ایک تعلق اس بھی زیادہ مضبوط تھا اور وہ
تھا بھٹو دشمنی کا، جس میں مولوی مشتاق اور نسیم حسن شاہ بھی شامل تھے۔
بھٹو پھانسی پاکرتاریخ میں شہید کہلایا جبکہ ضیاءالحق اور اس کے ساتھیوں کی
پہچان قاتلوں کی ہے، آج نہ کوئی مولوی مشتاق کو جانتا ہے اور نہ ہی
انوارالحق کو، اور نہ ہی میاں طفیل محمد کا تاریخ میں کوئی مقام ہے مگر
ذوالفقار علی بھٹو عدالتی قتل کے بعد پاکستانی تاریخ کا ایک مضبوط کردار بن
چکے ہیں۔ |