بسم اﷲ الرحمن الرحیم
یمن میں مہاجرین کا مسئلہ 1994سے جاری ہے جب پہلی دفعہ مملکت پر خانہ جنگی
کے بادل سایہ زن ہوئے۔ایک عرصے تک یہ مسئلہ داخلی سطح تک ہی رہااورحکومت
اور کچھ بین الاقوامی ادارے اس مسئلے کے حل کے لیے کوشاں رہے۔ایک طرف عالمی
طاقتیں جو متحارب گروہوں کوہوادے رہی تھیں ،ان سے بھی مزاکرات چلتے رہے
تودوسری طرف مہاجرین کی خدمت اور ان کی دوبارہ آبادکاری کے مراحل بھی جاری
رہے۔اس لحاظ سے یمن مشرق وسطی کاوہ پہلا ملک ہے جس نے 1951میں مہاجرین
کنونشن کے معاہدے پر دستخط کیے تھے اور1967میں اس ادارے کے پروٹوکول کا رکن
بھی نامزد ہوا تھا۔اس توسط سے عالمی ادارہ برائے مہاجرین نے یمنی حکومت کے
ساتھ مل کرمہاجرین کوہجرت کے دوران وسائل مواصلات،خیمے،خوراک و علاج اور
معلومات کی فراہمی سمیت متعدد امور میں معاونت کی۔اس عالمی ادارہ برائے
مہاجرین کے بیان کے مطابق ان کے کارکنان نے حتی الامکان کوشش کی کہ یمن کی
انسانی ہجرت کو کم سے کم کیاجائے یاختم کردیاجائے۔اس دوران اس ادارے نے
صنعامیں بچوں کے لیے متعدد ادارے قائم کیے اور خاندانوں کے لیے محفوظ پناہ
گاہیں بنائیں۔خاص طورپر 2014میں جب یمنی حکومت اورضلع ’’ابیان‘‘کے باغیوں
کے درمیان جھڑپیں ہوئیں تو سینکڑوں خاندان بے گھرہوگئے،اس انسانی سانحے کو
اس ادارے نے حکومت کے تعاون کے ساتھ مل کرحل کرنے کی کوشش کی اور اتنی بڑی
تعدادکو فوری نوعیت کی امداد بہم پہنچاتے رہے۔
یمن کے اندرونی خلفشار ابھی باقی تھے کہ خارجی ٹکراؤ نے بھی ملک کوآن
دبوچا۔مارچ 2015سے یمن میں آگ اور خون کاکھیل جاری ہے۔اس طویل عرصے سے خطے
کی شہری آبادی جس عدم استحکام سے دوچار ہے اس کابخوبی اندازہ
کیاجاسکتاہے۔کسی بھی رہائشی علاقے میں کسی بھی طرف سے گولے بارود کی بارش
ہر وقت متوقع ہے،ایسے میں تعلیم،کاروباراور علاج تو دور کی بات ہے عام
طورپر روزانہ کی مشغولیات کے لیے بھی گھرسے نکلنا جان جوکھوں کی بات
ہے۔پوری ریاست ہرچاراطراف بری اور بحری سرحدوں کی طرف سے گولہ باری اور
اندرون ملک میں خانہ جنگی کی زد میں ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق چھ ہزار
سے زائدکی تعداد توصرف شہری آبادی ان حملوں سے جان سے گئی،زخمیوں کی تعداد
اس سے کہیں زیادہ ہے۔ان مسلسل بنیادوں پر جاری غیرمستحکم حالات نے بہت بڑی
تعدادمیں آبادی کوبہت بڑے پیمانے پر نقل و حرکت پر مجبور کردیاہے۔شہری
آبادیوں کی غول کے غول محفوظ پناہ گاہوں کی طرف متحرک نظر آتے ہیں۔یہ چونکہ
مشرق وسطی کے حبشیوں کاایک غریب ترین ملک ہے اس لیے یہاں کی ہجرت بھی قابل
رحم ہے اور مہاجرین کی کسمپرسی کے مشاہدے سے بلامبالغہ انسانی المیہ جنم
لیتانظر آتاہے جس کی طرف شاید دنیاہنوزبے خبرہے یاپڑوس کے دیگربڑے بڑے
انسانی سانحات میں یہ المیہ دب کررہ گیاہے۔مقامی تجزیہ نگاروں کے مطابق
21.1ملین کی تعدادمیں یمنی افرادکسی نہ کسی انسانی تحفظ کے منتظر ہیں جو کل
آبادی کاکم و بیش 80%بنتے ہیں،کیونکہ یمن کی کل آبادی 26ملین کے لگ بھگ
ہے۔اکتوبر2015تک 2.4ملین افراد یمن کے اندر ہی بگڑتے ہوئے حالات کے باعث
ایک جگہ سے دوسری جگہوں تک منتقل ہوچکے تھے۔جب کہ کم و بیش پونے دولاکھ
افراد یمن سے نکل کر مشرق وسطی کے دیگرممالک اور
جبوتی،صومالیہ،ایتھوپیا(حبشہ)اورسوڈان جیسے افریقی ممالک میں ہجرت کر کے
جاچکے تھے۔2016کے اختتام تک اس تعداد میں سوا لاکھ کے لگ بھگ مزید اضافہ ہو
چکاتھا۔یاد رہے اتنی بڑی تعدادجن افریقی ممالک کی طرف ہجرت کرتی چلی جارہی
ہے وہ ممالک بذات خود غربت کی انتہائی زیریں سطح کے حامل ممالک ہیں جن کے
لیے اپنی آبادیوں کوہی گندم کی فراہمی ایک دقت طلب امر ہے کجایہ کہ ان کے
بجٹ پر مہاجرین کابوجھ بھی آن پڑے۔یہ افریقہ کاوہ خطہ ارضی ہے جہاں آسمان
سے شدیدترین گرمی ٹوٹ کر پڑتی ہے اوروسائل حیات جسم و جاں کے رشتے کوقائم
کرنے کے لیے بھی سوالیہ نشان ہیں اور مہاجرین میں بہت بڑی تعدادحسب معمول
خواتین اور بچوں کی ہے۔ان حالات میں یہ انسان کہاں جائیں ؟؟؟یہ سوال اس وقت
پوری انسانیت کے سامنے لمحہ فکریہ بن چکاہے۔
ایتھوپیانے اعلی ظرفی کامظاہرہ کرتے ہوئے یمنی مہاجرین کی رجسٹریشن کاعمل
شروع کیاہے اور انہیں اپنے شہری علاقوں میں بھی داخلے کی اجازت دے دی
ہے۔ایتھوپیاوہی ملک ہے جسے سیرت النبی ﷺکے طالب علم ’’حبشہ‘‘کے نام سے
جانتے ہیں اوراس ملک میں اولین مسلمانوں کو بھی پناہ دی تھی،جب کہ آج
ایتھوپیادنیاکے غریب ترین ممالک میں شمار ہوتاہے جو خود خوراک کے بدترین
بحران کاشکار ہے۔دوسری طرف سوڈان نے بھی اپنے دروازے پوری طرح کھول رکھے
ہیں اور یمنی مہاجرین کو اپنے ملک کو کھلی آمدورفت کی اجازت دے رکھی ہے ۔اس
کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ عالمی اداروں کی امدادبرائے مہاجرین ان
ملکوں کے توسط سے مہاجرین تک پہنچائی جاتی ہے۔ افریقی باشندے مالی
طورپراتنے مستحکم نہیں ہیں کہ یورپ کا سفربرداشت کرسکیں۔خاص طورپر شامی
مہاجرین کے معاملے پر یورپ کی تنگ نظری دیکھ کر بھی شاید کسی افریقی
مہاجرنے یورپ جانے کاسوچاہی نہ ہوگا۔بادی النظرمیں ایتھوپیااورسوڈان کارویہ
یورپ کے ملکوں سے کہیں بہتر ہے۔سوڈان اور ایتھوپیااپنی غربت کے باوجود
مہاجرین کو خوش آمدید کہاجب کہ یورپ میں مہاجرین کو سرحدوں پر ہی یخ بستہ
ہواؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاگیاتھا۔صحافی کے سوال پر کہ یمنی افرادیورپ
کی طرف ہجرت کیوں نہیں کرتے ایک ستائس سالہ یمنی نوجوان نے سچ بولا کہ میں
راستے میں مرنے کی بجائے اپنے گھرپر مرنے کو ترجیح دیتاہوں۔جب کہ ’’عالمی
برادری‘‘ان معاملات صرف بیان دے کرمگرمچھ کے آنسؤں کاکرداراداکرتی ہے۔یمن
چونکہ یورپی یونین کے ان ملکوں کی فہرست میں شامل نہیں ہے جن کے شہریوں کو
سیاسی پناہ کاحق حاصل ہے اس لیے اگر کسی نے یورپ میں داخلے کی درخواست بھی
دی تووہ مستردکر دی گئی۔یہ یورپ کا معیار انسانیت ہے کہ جن ملکوں سے مفادات
کی توقع ہو ان کے شہریوں کو سیاسی پناہ دی جاسکتی ہے بصورت دیگر نہیں۔
یمن کی سرحدوں پر موجود مہاجرین کیمپ جہاں کھچاکھچ بھر چکے ہیں اور مزید
مہاجرین کی آمد کاسلسلہ بھی مسلسل جاری ہے وہاں خود یمن کے اندر چونکہ شہری
آبادیوں پر مسلسل گولہ بارود کی بارش ہو رہی ہے اس لیے یمن کے شہروں کے
باہر کیمپ بن چکے ہیں۔کتنے دکھ کی بات ہے کہ ان شہروں کے رہنے والے باسی
اپنی عمارات کی خانگی وتمدنی زندگی کوچھوڑ کر شہر سے باہر لگے کیمپوں میں
تکلیف دہ حدتک پناہ گرین ہیں اور صبح و شام آسمان کی طرف نظریں اٹھاتے ہیں
کہ کوئی تو ان کی بنیادی انسانی ضرورتیں پوری کرنے کونظر آئے۔متعدد باران
مہاجرین کو اپنے اپنے شہروں میں دھکیلنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ تمدنی
زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں ،لیکن شہر کاپورا ڈھانچہ مسلسل خانہ جنگی سے
تباہ حال ہے،کاروبارتجارت برباد ہو چکاہے،آبادی سے شہروں کی بستیاں اور
رہائشی علاقے خالی ہیں،کوئی عمارت سلامت نہیں ،کوئی راستہ سیدھااورصاف نہیں
اور پینے کاصاف پانی تک ان شہروں میں عنقا ہے تب ان حالات میں کوئی بھی
واپس جاکر کیاکرے گا۔ جب کہ یہ علاقے مشرق وسطی کے ان ملکوں کے پڑوسی ہیں
جہاں بلامبالغہ دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں،جہاں زمین نے اپنے خزانے
اگل دیے ہیں،سونے کے پہاڑ اور چاندی سے کہیں زیادہ قیمتی دھاتوں کی کانیں
قدرت نے ان کی جھولی میں ڈال دی ہیں اور دنیابھرکاسرمایااور سرمایادار
قطاراندرقطاران ممالک میں نزول فرماہے۔کیاپڑوسی کے ناطے ان ممالک کے حکمران
خاندانوں کایہ فرض نہیں کہ اپنے پڑوسیوں کی دل کھول کر مدد کریں۔کیاان
مسلمان عرب ممالک کے حکمران سیرت طیبہﷺکے وہ واقعات بھول گئے ہیں جب مسلسل
جنگی حالات کے باعث مکہ مکرمہ میں قحط کی صورتحال پیداہوئی تو مدینہ منورہ
کی حکومت نے اونٹوں بھراغلہ فرزندان ببکہ کی طرف روانہ فرمادیاتھاجب کہ اہل
مکہ نے دشمنی کاکونسا وار خالی جانے دیاتھا؟؟؟لیکن یہ کردارتھا جسے دنیاآج
بھی یادکیے ہوئے ہے۔یمن کے مفلوک الحال باسیوں کایہ حق ہے کہ ان کے پڑوسی
ممالک ان غریب انسانوں پر اپنے خیر سے ایک بڑاحصہ خرچ کریں اور یمنی شہروں
کے عمارتی و مواصلاتی ڈھانچے کی تعمیر نوکے اخراجات برداشت کریں تاکہ یہ
محروم آبادیاں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو سکیں۔
یمنی مہاجرین کے مسئلے کوآج قابو میں نہ کیاگیاتویہ ایک بہت بڑاعالمی
انسانی المیہ بن سکتاہے۔کیادنیااس انتظارمیں ہے شامی مہاجرین کی طرح یمنی
مہاجرین کی بھی تصویریں شائع ہوں تب انسانیت حرکت میں آئے۔حقیقت یہ ہے یمنی
ہجرت کابہت بڑاحصہ سمندر کے راستے ہی ہوتاہے لیکن یہ چونکہ ایک غریب اور
پسماندہ ملک ہے اس لیے یہاں کی پوشیدہ اور نہایت گھمبیر صورتحال کامعاشرتی
ذرائع ابلاغ کے ذریعے شورنہیں مچایاجاسکاجس کے باعث یہاں کی انسانیت پس
کررہ گئی ہے اور دنیاگونگی بہری اور نابینا ہوکر آرام سے بیٹھی ہے۔اگرکچھ
ادارے یہاں پہنچے بھی ہیں تووہ اغیارکے ادارے ہیں جبکہ امت مسلمہ کے حکومتی
اور غیر حکومتی ادارے بالکل چپ سادھے بیٹھے ہیں۔یہ بہت ہی غیرذمہ داری کا
ثبوت ہے جو امت مسلمہ کی طرف سے سردمہری کی صورت میں دیاجارہاہے۔کیاضروری
ہے کہ جن مسائل کو مغربی میڈیااٹھائے انہیں کو ہی ہمارا میڈیابھی اجاگر کرے
اور جہاں مغربی میڈیاخاموشی اختیار کرے وہاں ہم بھی آنکھوں پر پٹی باندھے
رہیں،کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟؟؟ |