ایک غریب شخص اپنی بھوک مٹانے کے لئے اگر کسی تندور سے دو
روٹیاں چوری کر لیتا ہے تو اُس کی پھر پولیس اور عدالتوں سے جان بخشی نہیں
ہوتی، چونکہ اُس کی پیروی کون کرے گا؟ غریب انسان کو نہ وکیل ملتا ہے نہ
ضمانتی؟ مگر دُوسری طرف 462 ارب کی بدعنوانی اور دہشت گردوں کی معاونت کے
ملزم ڈاکٹر عاصم حسین کی 50 لاکھ روپے میں ضمانت منظور کر لی جاتی ہے اور
دوران گرفتاری ہی بطور صدر پاکستان پیپلز پارٹی سندھ انتخاب بھی کر لیا
جاتا ہے۔ کچھ دن قبل ماڈل ایان علی کی بھی ضمانت پر رہائی ممکن ہوتی ہے اور
اب وہ دُنیا کی سیر و سیاحت میں مصروف نظر آتی ہیں۔ ایم کیو ایم کے وسیم
اختر جن پر 250 فیکٹری ملازمین کو زندہ جلانے کا الزام ہے وہ بھی جیل میں
ہی میئر کراچی منتخب ہو جاتے ہیں اور پھر ضمانت پر رہا بھی ہو جاتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے حج کرپشن سکینڈل کے مرکزی ملزم حامد سعید کاظمی بھی
’’باعزت‘‘ بری ہو جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ہی سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن
جن پر 5 ارب کی بدعنوانی کا الزام ہے اور وہ دو سال تک بھگوڑے بھی رہ چکے
ہیں اُن کی ضمانت بھی 20 لاکھ روپوں میں منظور کر لی جاتی ہے اور کراچی میں
تاج پوشی بھی کی جاتی ہے۔ اسی طرح بدنام زمانہ گلو بٹ بھی ’’باعزت‘‘ رہائی
پا لیتے ہیں۔ یہ چند خبریں ہیں جو کہ چند ماہ میں منظر عام پر آئی ہیں جبکہ
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں قانون صرف غریب لوگوں کے لئے ہے۔ غریب انسان
ایسا قانون کے شکنجے میں آتا ہے کہ پھر اُس کو جان چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے
اور کئی سال تک اُس کی جان بخشی نہیں ہوتی مگر امراء کے لئے قانون کو چکمہ
دینے کے 101 طریقے موجود ہیں۔ ہمارے معاشرے میں جس قدر کوئی شخص اپنی عزت
بچانے کے لئے احتیاط کرے گا اُس کے لئے مسائل ہی مسائل ہیں۔ یہاں پر چھوٹے
لیول پر کرپشن کرنا یا بدعنوان ہونا بذات خود ایک بہت بڑا جرم ہے۔ ہمارے
معاشرے میں جس قدر ڈھٹائی کے ساتھ بڑی کرپشن کی جائے، بڑی بڑی خبریں نمایاں
انداز میں لگائی جائیں یہی وہ اپنی کامیابی تصور کرتا ہے۔ ایک تندور سے دو
روٹی چوری کرنے والے کی کون میڈیا کوریج کرے گا؟ میڈیا کوریج تو ایان علی،
ڈاکٹر عاصم، شرجیل میمن، حامد سعید کاظمی، وسیم اختر، گلو بٹ اور رئیسانی
جیسے ’’بڑے‘‘ لوگوں کی ہوتی ہے۔ اور تندور سے روٹی چوری کرنے والے کی خبر
کو کون ریٹنگ دے گا؟ ریٹنگ تو ’’بڑے بدعنوان‘‘ لوگوں سے ملتی ہے۔ پاکستان
میں عدلیہ کا خوف بھی نچلی سطح پر ہی ہے۔ کسی گاؤں کے کسی غریب شخص پر بکری
چوری کا مقدمہ درج ہو جائے تو اُس کی راتوں کی نیندیں اُڑ جاتی ہیں۔ وہ صبح
سویرے کئی میل کا سفر طے کر کے عدالت پہنچ جاتا ہے۔ وہاں گھنٹوں اندر کے
بعد پتہ چلتا ہے کہ آج جج صاحب موجود نہیں ہیں اگلی تاریخ ہو جاتی ہے۔ کبھی
جج نہیں تو کبھی وکیل نہیں۔ کبھی ہڑتال ہے تو کبھی دُوسری طرف کا وکیل
بیمار ہے۔ بس ایک بکری چوری کا الزام اُس کو ’’گائے‘‘ کی قیمت میں ادا کرنا
پڑتا ہے جبکہ جتنا بڑا کوئی بدعنوان ہو گا دُوسرے لفظوں میں کرپٹ ہو گا اُس
کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتا کہ اُس پر کتنا بڑا الزام ہے۔ اکثر آپ نے
دیکھا ہو گا کہ ایسے تمام لوگ ہمارے معاشرے میں جب عدالت میں پیش ہوتے ہیں
تو وکٹری کا نشان بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اُن کے چہرے کھلے ہوئے ہوتے ہیں۔
اُنہوں نے بہت خوبصورت کپڑے زیب تن کئے ہوتے ہیں۔ کپڑوں کو تازہ کلف لگی
ہوتی ہے۔ کپڑوں کی کلف اُن کو اور بھی اکڑ میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اُن کی
وضع قطع اور چہرے سے قطعی محسوس نہیں ہوتا کہ اُن پر کوئی اتنا بڑا الزام
ہے۔ چونکہ یہ لوگ بڑا جواء کھیلتے ہیں۔ 5 ارب کی کرپشن کر کے اگر 20 لاکھ
کی ضمانت دے کر جان چھوٹ جائے اور پھر دُنیا بھر میں مفت کی تشہیر بھی ہو
جائے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہوتا۔ پھر ان کے حوصلے بلند اور جواں ہو
جاتے ہیں۔ ان کو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کھیل تو بڑے مزہ کا ہے جس
میں ان کی جیت ہی جیت ہے۔ اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ جس پر 5 ارب کی
کرپشن کا الزام ہے اُسی کو 20 لاکھ کا سونے کا تاج پہنا جاتا ہے دُوسرے
لفظوں میں اگر اُس کے 20 لاکھ ضمانت پر خرچ بھی ہوئے ہیں تو سونے کے تاج کی
صورت میں وہ واپس آگئے ہیں، کیسا جواء ہے جو ان کی جیت سے شروع ہوتا ہے اور
ان کی جیت پر ہی ختم ہوتا ہے۔ اگر ہار ہوتی ہے تو صرف اور صرف پاکستانی
عوام کی۔ یہ حال ہے ہمارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدلیہ اور جمہوریت
کا۔ یہاں پر زندگی گزر جاتی ہے مگر فیصلے نہیں آتے۔ یہاں پر عوام کے حقوق
پر ڈاکہ مارنا جمہوریت کہلاتا ہے۔ جس معاشرے کے شہریوں کو بنیادی انسانی
حقوق تک حاصل نہ ہوں اور انسانی حقوق کی پامالی معمول بن چکا ہو اور جس
معاشرے میں اچھے اور بُرے کی تمیز ختم ہو جائے۔ جس معاشرے میں کرپٹ عناصر
کو سونے کے تاج پہنائے جائیں اُس پر افسوس کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے اور
کیا لکھا جا سکتا ہے۔ ہمارا معاشرہ ہی جیسے امراء کا معاشرہ بن چکا ہے۔ آپ
ہر ضلع کی چالان لسٹ نکال کر دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ کتنے فیصد
چالان پراڈو اور لینڈ کروزر کے ہوتے ہیں جبکہ چنگ چی رکشوں، سوزوکی وین،
کیری وین اور موٹر سائیکلوں کے چالان کی بھرمار ہوتی ہے دُوسرے لفظوں میں
ماہانہ چالان کا کوٹہ انہی ’’بیچاروں‘‘ سے پورا کیا جاتا ہے۔ عجیب منطق ہے
جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ کاش! اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایسا مساویانہ نظام
بن جاتا جس میں صرف اور صرف قانون کی حکمرانی ہوتی۔ جس میں امیر، غریب، اہم
اور عام میں کوئی فرق نہ ہوتا۔ جس میں امراء اور غرباء کے لئے ایک ہی قانون
ہوتا۔ جس میں وی آئی پی کلچر کی کوئی گنجائش نہ ہوتی۔ جس میں عوام الناس کا
پیسہ لوٹنے والوں کے لئے کوئی چھوٹ نہ ہوتی۔ ایسے لوگوں کو سیاست کی قطعی
اجازت نہ ہوتی۔ کاش! ہماری عدلیہ ایسے لوگوں کو قرار واقعی سزا دے سکتی اور
پھر یقینا پاکستان میں قانون کا بول بالا ہوتا۔ کاش! ایسا ہو جاتا۔ اﷲ
تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
|