انتخابی اصلاحات وقت کی ضرورت

اگر پی ٹی آئی قیادت کو واقعی اس بات کا ادراک ہوچکا ہے کہ انتخابی اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس کے بغیر 2018 کے انتخابات میں قدم رکھنا، ایک سوراخ سے دو بار ڈسنے کے مترادف ہے، تو یہ قوم کے لیے واقعی نیک شگون ہوگا۔ جس طرح عمران خان کے بیانات آرہے ہیں، اُمید کی جانی چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں بھرپور آواز اُٹھائیں گے۔ صاف شفاف انتخابی عمل جمہوریت کا اہم جُز ہے۔ جس کے ذریعے قوم اپنے مسائل کے حل کیلئے عنان اقتدار باکردار، اہل اور باصلاحیت نمائندوں کے سپرد کرتی ہے۔ اُنہیں ایوانوں میں بھیج کر عزت دیتی ہے، ٹیکس کی صورت میں اپنی امانتیں اُن کے پاس رکھواتی ہے اور بدلے میں اُن سے یہ اُمید کی جاتی ہے کہ وہ اُن کی جان ومال کا تحفظ کریں گے، اُنہیں اور اُن کے بچوں کو بروقت علاج، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں گی، عالمی سطح پر اُن کی نیک نامی کا باعث بنیں گے، لیکن اگر عوام قیام وطن کے ستر برس بعد بھی علاج کیلئے سرکاری اسپتالوں کے دھکے کھاتے پھریں، تعلیمی اداروں کی عمارتیں بہترین انسان بنانے کے بجائے مال بنانے کا ذریعہ بن جائیں۔ عوام کو تحفظ فراہم کرنے والے ادارے مخالفین کو کچلنے کیلئے استعمال ہونے لگیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اقتدار کے ایوانوں تک اہل نمائندے نہیں پہنچ پا رہے۔

عام طور پر ایسی صورت میں عوام کو ہی قصوروار ٹھہرایا جاتا ہے اور یہ دلیل دی جاتی ہے، 'چونکہ عوام کرپٹ ہے اس لیے وہ چناو بھی کرپٹ نمائندوں کا کرتے ہیں۔' اس سے بڑا ظلم کوئی نہیں۔ اگر واقعی عوام کرپٹ نمائندوں کو پسند کرتے ہیں، تب بھی الیکشن کمیشن اور دیگر ادارے کس مرض کی دوا ہیں، عوام کے پیسوں پر پلنے والے یہ ادارے کیوں کرپٹ، ٹیکس چور، جعلی ڈگری والوں کا راستہ نہیں روکتے۔ اگر معاشرے کے بدکردار، چور، ڈاکو اور لٹیرے کو الیکشن لڑنے کی اجازت مل جائے، تو ظاہر ہے شریف آدمی یا تو خاموش رہے گا یا پھر شریر کے شر سے بچنے کیلئے اُسے ووٹ دے گا، کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ اُس نے پانچ سال اُسی محلے میں رہنا ہے جہاں اگر اُس کی جان اور مال کو نقصان پہنچا، اُس کیخلاف غلط ایف آئی آر درج ہوئی تو کوئی اُسے بچانے نہیں آئے گا۔ ایسی صورت میں ایک سفیدپوش اور کر بھی کیا سکتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر عوام واقعی کرپٹ ہیں، محنت سے بھاگتے ہیں اور قانون کا احترام نہیں کرنا چاہتے تو پھر یہ دوسرے ملکوں میں جاکر کیوں ایماندار بن جاتے ہیں، وہاں جاکر کیوں قانون کا احترام کرتے ہیں اور ایک باعزت شہری کی طرح زندگی گزارتے ہیں، اس لیے کہ وہاں نظام ہے، وہ جانتے ہیں کہ وہاں اُن کا احتساب کرنے والا موجود ہے۔ اور یہ نظام تشکیل پاتا ہے نیک اور ایماندار نمائندوں کی بدولت۔ یعنی آپ کان جہاں سے بھی پکڑیں بالاخر ہر مسئلے کا یہی حل نکلے گا کہ اقتدار کے ایوانوں تک نیک اور باصلاحیت لوگوں کو بھیجا جائے

جنوری دو ہزار بارہ کی سخت سردیوں میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد میں چار دن دھرنا دیا ۔ اُن کا یہ مطالبہ تھا کہ الیکشن دو ہزار تیرا کیلئے جو الیکشن کمیشن تشکیل دیا گیا ہے وہ غیر آئینی ہے۔ اور یہ کبھی صاف شفاف انتخابات یقینی نہیں بنا سکتا ۔ اُس وقت اُن کا مذاق اُڑایا گیا، اُنہیں کنٹینر کے طعنے دیے گئے،اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ کہا گیا، لیکن انتخابات کے بعد اُن کی ایک ایک بات سچ ثابت ہوئی ۔ انتخابات میں شریک 21 جماعتوں نے دھاندلی کی شکایت کی، خود حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن نے کہا کہ سندھ، بلوچستان اور کے پی میں دھاندلی ہوئی ہے، سوائے پنجاب کے، جہاں سے وہ خود جیتے ہیں۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پارلیمنٹ کے فلور پر اپنی غلطی تسلیم کی، اور کہا طاہرالقادری ٹھیک کہتے تھے۔ جس کے بعد چارحلقے کھولنے کا مطالبہ، لانگ مارچ، سانحہ اے پی ایس اور جوڈیشل کمیشن کی تشکیل ۔ پوری ایک تاریخ ہے، جو یقینا قوم کے ذہنوں سے اوجھل نہیں ہوئی ہوگی۔
اب زیادہ وقت نہیں بچا، 2018 سر پر ہے، انتخابی صف بندیاں شروع ہوچکی ہیں، کل تک جن پر کروڑوں اور اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات تھے اب وہ پاک پوتر ہوکر میدان سیاست میں کود چکے ہیں، کوئی ملک سے باہر جاچکا تو کوئی واپس لوٹ رہا ہے۔ اب کرپشن کا یہی دھن انتخابات میں استعمال ہوگا، ٹکٹ فروخت ہوں گے، وفاداریاں خریدی جائیں گی اور وہی ہوگا جو گزشتہ ستر برس سے ہماری انتخابی تاریخ ہے۔ حال ہی میں بھارت میں قومی اور ریاستی انتخابات ہوئے۔ ایک ارب کی آبادی میں کسی نے یہ نہیں کہا کہ دھاندلی ہوئی۔ جو ہارا اُسے نے کھلے دل سے شکست تسلیم کی۔ برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلاء ہو یا اسکاٹ لینڈ کا ریفرنڈم، ہر جگہ صاف شفاف انتخابی عمل ہے، جس کے ذریعے عوام اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر انتشار جنم لیتا ہے، آپ عوام سے زیادہ دیر تک جھوٹ نہیں بول سکتے، اور وہ بھی ایسے دور میں جب میڈیا آزاد ہو، اخبارات، رسائل اور سوشل میڈیا کا دور دورا ہو۔

2013 کے انتخابات کے بعد چار حلقے کھولنے کا مطالبہ تسلیم نہ ہوا تو عمران خان لانگ مارچ کے لیے نکل پڑے۔ سانحہ ماڈل ٹاون کی تحقیقات نہ ہوئیں تو عوامی تحریک بھی ان کی ہمنوا بن گئی، جس کے بعد 137 دن کا طویل دھرنا ہوا۔ پانامہ لیکس کے معاملے میں یہی کچھ دیکھنے میں آیا۔ چھ مہینے تک ٹی او آرز کا کھیل کھیلا جاتا رہا بالاخر عمران خان کو اسلام آباد لاک ڈاون کی کال دینا پڑی جس کے بعد معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا-

اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ دوہزار تیرا میں اُسے جو مینڈیٹ ملا وہ درست تھا اور اُنہوں نے گزشتہ چار برسوں کے دوران عوام کی ٹھیک خدمت کی ہے تو پھر اُنہیں گھبرانا نہیں چاہیے۔ انتخابی اصلاحات کیلئے بنائی گئی کمیٹی دن رات ایک کر دے، 2013 کے انتخابات میں جن بے ضابطگیوں کی نشاندہی جوڈیشل کمیشن کی جانب سے کی گئی ، اُن پر قابو پایا جائے اور جو ان بے ضابطگیوں کے مرتکب ہوئے ہیں اُنہیں قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ انتخابات کی شفافیت پر کوئی انگلی نہ اُٹھا سکے
 

Zubair Niazi
About the Author: Zubair Niazi Read More Articles by Zubair Niazi: 41 Articles with 48725 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.