اباّ جان اکثر پوچھتا رہتا ہے کہ تم نے عافیہ کو کہاں تک
پہنچا دیا؟دل پر پتھر رکھ کرہنستے ہوئے ادب کیساتھ جواب دیتا ہوں کہ میں
کون ہوتا ہوں کسی کوکہاں سے کہاں تک پہنچانے والا‘پھر سوچتا ہوں ہمارے
پیارے ملک میں روز اتنے لوگ عافیہ کیلئے آواز اُٹھاتے ہیں لیکن کیوں انہیں
آج تک حکمرانوں کی طرف سے جواب نہیں ملا؟ پھر سوچتا ہوں کہ میں بھی کتنا
پاگل ہوں‘جب عافیہ صدیقی کو آج تک یہ جواب نہیں ملا کہ انہیں کس قانون کے
تحت سزا دی گئی ہے تو پھر ہم کیا اور ہماری اوقات کیا۔۔۔۔میرے پیارے دوست
نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ عافیہ کیلئے جو کر رہے ہو اُسکا ایک فائدہ بتاؤ‘
نہ تو آپکو پیسے ملتے ہیں اور نہ ہی شہرت ‘وہ غلط نہیں کہہ رہا تھا لیکن
میرے جواب نے انہیں لاجواب کردیا‘میں نے کہا کہ جب نمرودنے ابراہیم ؑ کو آگ
میں پھینکا تواُس وقت ایک چڑیااپنی چونچ میں پانی بھر کر آئی کہ وہ ابراہیم
ؑ کی آگ کو بجھا سکے ‘ اس وقت اہلِ دانش اور عقل نے یہ کہا کہ اے چڑیا!کیا
تمہاری چونچ کی پانی سے نمرود کی جلائی ہوئی آگ بجھ جائے گی؟چڑیا نے جواب
دیا کہ یہ تو مجھے بھی معلوم ہے کہ اس سے آگ نہیں بجھے گی لیکن اﷲ تعالیٰ
کے بارگاہ میں مجھے ضرورنمرود کی آگ بجھانے کی کوشش کرنے والوں میں شمار
کیا جائے گا۔۔۔۔۔
عافیہ صدیقی چودہ سال سے محمد بن قاسم کی منتظر امریکی جیل میں جرمِ بے
گناہ کی سزا کاٹ رہی ہے لیکن ہماری قومی غیرت اور حکمرانوں کی بے ہسی اب تک
غلامی کی نیند سے بیدار ہونے کو تیار نہیں‘غیرت سے ایک کہانی یاد آگئی جو
کچھ مہینے پہلے میرے ایک دوست نے بیان کی تھی‘مجھے اُس کہانی پر اس لئے
یقین نہیں آرہا تھا کہ میں نے ریسرچ کیا، تاریخ کے اوراق ٹٹولے لیکن کہی اس
واقعہ کا ذکر تک نہیں ملا‘پھر اُس دوست نے یقین دہائی کرائی کہ یہ صرف ایک
کہانی نہیں بلکہ سچائی ہے تب مجھے یقین ہوا اور یہاں بتانا لازمی سمجھا۔
کہتے ہیں کہ ایک دور ایسا بھی آیا تھا جب امریکہ کے آئیرپورٹس پر ایسی
تلاشی لی جاتی تھی جیسے پوری دنیا چور ہو اور صرف امریکن معزز ہو‘یہ سلسلہ
کافی حد تک چلتا رہا‘اسی دوران برازیل کا ایک تاجر ایک عرصے سے امریکہ آتا
جاتا رہتا تھا‘اس نے یہ حالت دیکھی تو بہت پریشان ہوا کہ ہر بندے کی ٹوپی،
ٹائی،جوتے اور یہاں تک کہ جرابیں بھی اُتار کرتلاشی لی جارہی ہے‘ وہ اس
صورتحال سے بہت پریشان ہوا‘ لمبی قطارلگی ہوئی تلاشی دینے والوں کاایسا
منظراس نے کبھی نہیں دیکھا تھا‘جب اسکی باری آئی اور امیگریشن والوں نے
اُسے بھی جوتے اُتارے کا حکم دیاتو اس نے اس حکم ماننے سے صاف انکار کر
دیا‘انکار کرنے پر امیگریشن آفیسر نے اسکا پاسپورٹ لیا اور اس پر ڈی پورٹ
کی مہر لگا دی‘وہ اگلی فلائیٹ سے واپس برازیل چلا گیا‘اس نے پریس کانفرنس
بلائی اور تمام ماجرا میڈیا والوں کے سامنے سُنا دیا‘اس کی اس پریس کانفرنس
نے برازیل میں طوفان کھڑا کر دیا‘برازیل کے حکومت نے امریکہ کے سفیر کو بلا
کر سب کچھ بتا دیا لیکن امریکہ نے اسے معمول کی کاروائی سمجھ لیا اور اس
معاملے پر کوئی ایکشن نہیں لیا‘معاملہ برازیل کے پارلیمینٹ میں چلا گیا
‘پارلیمینٹ نے فیصلہ کیا جو بھی امریکی شہری برازیل میں قدم رکھے اس کی
تفصیلی تلاشی لی جائے اور ان کے ساتھ ایسا سلوک کیا جائے جو ہماری قوم
کیساتھ وہاں کیا جاتا ہے‘اگلے دن اس قانون پر عملدرآمد شروع ہوگیا‘امریکی
حکومت نے اس پر شدید احتجاج کیا لیکن برازیل نے خوبصورت جواب دیا‘انہوں نے
کہا کہ یہ ہماری معمول کی کاروائی ہے‘تقریبا چار سال یہ سلسلہ چلتا
رہا‘برازیل دُنیا کا واحد ملک تھا جس کے آئیرپورٹس پر صرف ایک ملک کی
شہریوں کی تفصیلی تلاشی لی جاتی تھی اور وہ ملک تھا۔۔۔۔۔امریکہ۔۔۔۔امریکہ
نے بلا آخر معافی مانگی‘ آئیدہ آئیرپورٹس پر برازیلی شہریوں کے ساتھ تلاشی
لینے والی کاروائی نہیں کی‘ اسلئے یہ سلسلہ چار سال بعد ختم ہوا۔
جب برازیلی حکومت اپنی ایک شہری کیلئے پارلیمنٹ میں بات کرسکتی ہے‘امریکہ
کو معافی مانگنے پر مجبور کر سکتی ہے‘انہیں روز کی کاروائی تبدیل کرنے پر
دباؤ ڈال سکتی ہے تو پھر ہمارے پیارے حکمران اور سیاستدانان صاحب مظلوم
عافیہ کیلئے کیوں کچھ کرنے سے کتراتے ہیں؟کیوں انہیں وہ لوگ نظر نہیں آتے
جو اپنی مظلوم بہن اوربیٹی کیلئے قافلے کی شکل میں ساڑے چار سو کلو میٹر
پیدل مارچ کر تے ہیں اور حکمرانوں کو انکی غیرت یاد دلاتے ہیں ‘کیوں عافیہ
کی بوڑھی ماں کی فریاد، بہن فوزیہ صدیقی کی جہدِ مسلسل اور عافیہ کے بیٹے
اور بیٹی کی ملتجی نگاہیں نظر نہیں آتی‘ کیوں سب بار بار یہ اشارہ کرتے ہیں
کہ ہارن مت بجاؤ ہم سب سو رہے ہیں؟
ملتِ اسلامیہ کی غیرت، ملک وقوم کی غیرت اور آپ کی غیرت آپ لوگوں(حکمرانوں،
سیاستدانوں) سے استدعا کرتی ہے کہ اﷲ کیلئے میری حالت پر ترس کھاؤ، اپنے
گھر والوں سے ملاؤ،مجھے اپنی بیٹی اور بیٹے کا دیدار کراؤ لیکن حکمرانوں نے
اپنی کانوں میں روئی اور آ نکھوں پر پٹی لگائی ہے اور کہہ رہے ہیں کہ ہارن
مت بجاؤ ہم سب سو رہے ہیں‘ اگر کسی سیاستدان کی بیٹی چودہ سالوں سے اس طرح
کے حالات سے گزرتی تب ان کا ردِ عمل کچھ اور ہوتا لیکن افسوس کہ عافیہ
صدیقی کسی کی بہن اور بیٹی نہیں ہے‘افسوس کہ عافیہ صدیقی پاکستانی شہری
نہیں ہے‘افسوس کہ عافیہ صدیقی قوم کی ٖغیرت نہیں ہے اور افسوس۔۔۔۔۔۔۔
کاش عافیہ صدیقی سابق چیف جسٹس آف پاکستان کی بحالی کی تحریک ہوتی جسکو
چلانے کیلئے سارے وکلاء اور عوام سڑکوں پر نکل آتے،احتجاج اور نعرہ بازی
کرتے اورپوچھتے کہ ہماری بہن اور قوم کی غیرت کو اغیاروں کے پنجرے سے کب
آزاد ی ملے گی؟کاش عافیہ صدیقی طاہرالقادری کا نامعلوم ایشو ہوتا جس کی وجہ
سے اسلام آباد کی سڑکیں کئی دنوں تک بند رہتے‘ کاش عافیہ صدیقی خان صاحب کی
دھاندلی کی آواز ہوتی جس کو گھر گھر پہنچاننے کیلئے میڈیا کافی حد تک کردار
ادا کرتی ،ساری ملک سے لوگ ڈی چوک آتے اور اسلام آباد کو کنٹینر آباد بنا
دیتے‘کاش عافیہ صدیقی وزیر اعظم اور ان کے خاندان کا پانامہ کیس ہوتاجسکی
روز سُنوائی ہوتی اور کبھی ایک ملک سے خط آٹپکتا اور کبھی دوسرے ملک سے۔۔۔
اﷲ تعالیٰ عافیہ صدیقی کی ماں، بہن اور بچوں کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور
سوئی ہوئی حکمرانوں کو جگائے تاکہ وہ قوم کی غیرت کو امریکہ سے آزادی دلانے
میں مخلص ہوجائے۔آمین |