پاکستانی قوم اگر اساتذہ کرام کی عزت کرنا نہیں جانتی ۔
پاک فوج سے محبت کااظہار تو ہر پاکستانی کرتا ہے ۔ فوج کاایک تقدس ہمارے
ذہنوں میں ہمیشہ سے محفوظ رہا ہے ۔ یہ تقدس اس لیے قائم ہے کہ فوج اپنی
جانوں پر کھیل کر وطن عزیز کی حفاظت کررہی ہے ۔ یہ کس قدر تکلیف دہ بات ہے
کہ سپریم کورٹ کے حکم پر حکومت نے مردم شماری کا آغاز تو کردیا لیکن لاہور
جیسے پرامن شہروں میں بھی فوج کے سپاہی بندوق ہاتھوں میں اٹھائے گلی گلی ٗمحلے
محلے اور گھر گھر خوار ہوتے پھر رہے ہیں ۔ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے
اگر سارے کا م فوج نے ہی کرنے ہیں تو پولیس کے لاکھوں افسر اور جوان کو
تنخواہیں دینے کا جواز کیا رہ جاتاہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح فوج اور
استاد کی عزت کو پامال کیاجارہا ہے ۔حکومت کایہ اقدام انتہائی ناپسندیدہ ہے
۔ یاد رہے کہ میں نے 15 اپریل مردم شماری کااعلان سنتے ہی اپنے گھر میں
تمام افراد کے کوائف ایک کاغذپر لکھ کر اس کے شناختی کارڈ کی نقلیں منسلک
کرکے محفوظ کررکھی تھی اور گھر والوں کو یہ ہدایت کی تھی کہ اگر میری عدم
موجودگی میں مردم شماری والے آئیں تو ان کونہ صرف یہ تفصیل فراہم کر دی
جائے بلکہ ان کو ٹھنڈا شربت پلائے بغیر رخصت نہ ہونے دیاجائے۔یہ ہدایت اس
لیے تھی کہ میرے دل میں پاک فوج کے ساتھ ساتھ اساتذہ کرام کا بھی احترام ہے۔
جو بے چارے مردم شماری کے لیے صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک گھر گھر گلی
گلی خوار ہوتے پھر رہے ہیں ۔ طویل انتظار کے بعد یکم اپریل کو دوپہر ایک
بجے گھر کے دروازے پر دستک ہوئی تو پتہ چلا کہ مردم شماری والے آئے ہیں۔
میں نے دو جو س کے پیکٹ خرید کر پہلے سے فریج میں محفوظ کررکھے تھے ۔اس لیے
تفصیلات کے ساتھ میں جوس کے ڈبے لیکر گھر سے باہر نکلا ۔ آرمی کے جوان اور
استاد کو سیلوٹ کیا اور وہ کاغذاور شناختی کارڈ کی کاپیوں ان کے سپرد کردیے
۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی کہ ان کو ایک ایک گھر کے باہر دھوپ میں
پندرہ پندرہ منٹ دروازہ کھلنے کاانتظار کرنا پڑرہا ہے ۔جب دروازہ کھلتا ہے
تو بچہ نکل کر جواب دیتا ہے کہ ابو گھر پر نہیں ہیں ٗوہ جب آئیں گے تو وہی
آپ کو بتائیں ٗخاتون خانہ پردہ دار ہے وہ کسی کے سامنے نہیں آسکتی اور نہ
وہ کچھ بتانے کی مجاز ہے۔کیا یہ فوج کے جوان اور استاد کی توہین اور تذلیل
نہیں ہے۔مشرف نے فوجی جوانوں کو ٹیکس اکٹھاکرنے کے لیے عوام کے پیچھے لگا
کر جو توہین کی تھی۔ مردم شماری اس کا دوسرا تسلسل ہے ۔اس کی وجہ شاید یہ
ہے کہ کسی اتھارٹی کی جانب سے عوام کو ذہنی طورپرتیار نہیں کیا گیا۔کسی کو
کوئی پتہ نہیں کہ اس کے گھر کب کسی نے مردم شمار ی کے لیے آنا ہے اور مردم
شماری کے عملے کو کیا کیا تفصیلات درکار ہیں ۔ چوبیس گھنٹے بریکنگ نیوز
کاطوفان اٹھانے والے الیکٹرونکس میڈیا نے بھی اس بارے میں اپنی ذمہ داریاں
پوری نہیں کیں اور نہ ہی محکمہ شماریات نے اس مقصد کے لیے کوئی پلاننگ کی
ہے ۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جس علاقے میں مردم شماری کی ٹیمیں اپنے فرائض
کی انجام دہی کے لیے جائیں۔ محکمہ شماریات چند د ن پہلے اس علاقے کے متعلقہ
تھانے کو تحریری طور پر مطلع کرے کہ اپنے ماتحت علاقے میں رہائش پذیر ہر
گھر اور ہر شخص کو ایک دن پہلے پولیس اہلکار گھر گھرجاکر تحریری طور پر
آگاہ کرے کہ کل اس علاقے میں مردم شماری کا عملہ آرہاہے ۔ جن کو یہ تفصیلات
درکار ہیں درکار ہوں گی ۔یہ کوائف ایک کاغذ پر لکھ کر دستیاب شناختی کارڈز
کی فوٹو کاپیاں بھی تیار رکھیں تاکہ کوائف درج کرنے میں آسانی رہے ۔اور یہ
بھی تاکید کی جائے کہ اس دن ذمہ دار مرد گھرپر موجود رہے تاکہ مردم شماری
کے حوالے سے ذمہ داری کو احسن طریق پر پایہ تکمیل تک پہنچایاجائے۔ عملے کو
بروقت اور صحیح طریقے ے تمام تفصیلات کا میسر آنابہت ضروری ہے۔ میری نظر
میں فوج صرف ایسے علاقے میں مردم شماری عملے کے ساتھ ہو جہاں لوگوں کی
مزاحمت کا خطرہ ہو۔شہروں میں فوج کی بجائے پولیس سے یہ کام لینا چاہیئے ۔جن
سے دہشت گرد اور ڈاکو تو پکڑے نہیں جاتے کم ازکم مردم شماری ہی کروادیں ۔
مجھے جان کر افسوس ہوا کہ فوج کے جوانوں کو تو آرمی میس سے کھانا مل جاتا
لیکن قوم کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والے اساتذہ بھوکے اور پیاسے ہی صبح
آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک گھر گھر ذلیل اور خوار ہوتے پھر رہے ہیں۔ کیا
پاکستانی معاشرے میں اساتذہ کا یہی مقام ہے ۔ مردم شماری اگر ایک اہم قومی
فریضہ ہے تو قوم کو اس مقصد کے لیے پہلے ذہنی طورپر تیار کرنا بہت ضروری ہے
یہ بات انتہائی تکلیف د ہ ہے کہ اخبار میں مردم شماری کا اشتہار دے دیا اور
اساتذہ اور فوجی جوانوں کو دربدر ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیا ۔ تمام لوگ
خرید کر اخبار نہیں پڑھتے پھر پاکستان میں 70 فیصد لوگ ان پڑھ ہیں جو پڑھنے
لکھنے کے قابل نہیں ہیں ۔ سچی با ت تو یہ ہے کہ یہ مردم شماری نہیں مردم
خواری ہے ۔ جب گھر وں سے کوائف ہی پورے نہیں ملیں گے تو نتائج کہاں حوصلہ
افزا ء ہوں گے ۔ بدقسمتی سے ہم ہر کام غلط انداز سے کرنے کے عادی ہوچکے ہیں
اور ہر غلط کام کابوجھ ہم فوج اور اساتذہ پر ڈال کر اپنی جان چھڑا لیتے ہیں
۔ میری نظر میں یہ فوج اور استاد دونوں کی توہین کے مترادف ہے اس مقصد کے
لیے ہر علاقے میں جب تھانے موجود ہیں تو ہر تھانے کا عملہ مردم شماری کے
لیے کام کیوں انجام نہیں دے سکتا ۔ کیا ان کا کام صرف تھانوں میں بیٹھ کر
سودے بازی کرنااور رشوت لے کر جرائم کی افرائش کرنا ہی رہ گیا ہے ۔ |