انسان کسی کو وقت سے زیادہ قیمتی تحفہ دے ہی نہیں
سکتاکیونکہ وہ اسے تحفے میں ایسی شئے پیش کررہاہے جو کبھی نہ واپس آسکتی ہے
اور نہ ہی اسے خریداجاسکتاہے۔مگر افسوس!! ہمیں وقت کی قدر و قیمت کااحساس
ہی نہیں ،سستی،کاہلی اور لاپرواہی کے ساتھ ساتھ فضول سرگرمیوں اور بے مقصد
مصروفیات میں وقت ضائع کرکے ہم اپنے آپ کوبربادکررہے ہیں۔لیکن افسوس کہ اس
بربادی کابھی ہمیں کوئی احساس نہیں۔صرف معاملات ہی میں نہیں بلکہ عبادات
میں بھی وقت کاخیال رکھناانتہائی ضروری ہے۔ شاہکار دست قدرت مصطفی جان رحمتﷺ
نے فرمایا:دو نعمتیں ایسی ہیں کہ جن کی ناقدری کرکے اکثر لوگ نقصان میں
رہتے ہیں،ایک صحت اور دوسری فرصت۔(بخاری وترمذی)ایک اور مقام پر
فرمایا:پانچ چیزوں کوپانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو (۱ ) بڑھاپے سے پہلے
جوانی کو(۲)بیماری سے پہلے صحت کو(۳)محتاجی سے پہلے تونگری کو(۴)مصروفیت سے
پہلے فراغت کواور(۵)موت سے پہلے زندگی کو۔اگر ہم اپنے اوقات کاجائزہ لینگے
تومعلوم ہوگاکہ ہم اپنی زندگی کے کتنے ہی قیمتی لمحات کوشوق کی نذر کردیتے
ہیں،بے جاسیروتفریح،گپ شپ،فلموں،ڈراموں ،ایک دوسرے پر الزام
تراشی،لڑائی،جھگڑے اور مسلمانوں کی غیبت کرنے میں صرف کردیتے ہیں ، دن بھر
موبائل پر لگے رہنا،کسی بھی طرح وقت نکال کر ٹی وی اور کمپیوٹر پر بیٹھ کر
فضول کاموں میں وقت برباد کرنا،یہ تمام باتیں عام ہیں۔آج ضرورت اس بات کی
ہے کہ ہر آدمی بذات خود وقت کاخیال کریں ، اگر ہر انسان خود اپنی ذمہ داری
کااحساس کریں تو بہت حد تک وقت کی ناقدری سے بچا جاسکتاہے۔ہمیں یہ بھی
جاننے کی ضرورت ہے کہ اﷲ کا دین ہم تک پہنچانے کے لیے رسول اکرم صلی اﷲ
علیہ وسلم نے کتنی قربانیاں پیش کیں،درد کی کتنی راہوں سے گذاریں گئے اور
ہماری مغفرت کے لیے آپ نے کتنی کوششیں کیں۔
تاریخ کائنات میں محبت کی کوئی ایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی جیسی محبت
شہنشاہِ کونین نے اپنی گنہگار امت سے کی ہے۔ نگار خانۂ قدرت کے عظیم شاہکار
غم خوارِ امت مصطفےٰ جانِ رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم نے انتہائی درد،کرب، زخموں
اور غموں کا بار سہہ لیا مگر ہماری بھیگی پلکوں، ڈبڈبائی آنکھوں کا بوجھ ان
سے برداشت نہ ہوسکا۔ امت کے غم میں آپ ہر وقت نڈھال اور بارگاہِ خداوندی
میں امت کی بخشش کے خواہاں نظر آتے ۔ کبھی غار حرا میں سجدہ ریز ہیں تو
کبھی غارِ ثور میں، کبھی ہجرۂ عائشہ میں امت کے غم میں محوِ گریہ ہیں تو
کبھی کعبۃ اﷲ ومسجد نبوی میں۔ غرضیکہ جب سارا زمانہ سوجاتا مصطفےٰ پیارے
ہمارے لیے جاگتے۔دیلمی مسند الفردوس میں امیر المؤمنین مولیٰ علی کرم اﷲ
تعالیٰ وجہہ الکریم سے راوی ہیں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:جب
اﷲ تعالیٰ مجھ کو راضی کردینے کا وعدہ فرماتا ہے، تو میں راضی نہ ہوں گا
اگر میرا ایک امتی بھی دوزخ میں رہا‘‘۔حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک
دو یا تین راتیں (باختلاف روایات) تراویح کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد صحابۂ
کرام علیہم الرضوان حجرۂ مقدس سے آپ کے باہر تشریف لانے کے منتظر رہے مگر
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کا شانۂ نبوت سے باہر تشریف نہیں لائے۔ آپ نے فرمایا:
اگر میں (تراویح کے لیے) باہر آجاتا تو میری امت پر تراویح فرض ہوجاتی۔ ام
المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ ماہِ رمضان کی وسط
رات میں ایک بار حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسجد میں نماز پڑھی لوگوں
نے بھی حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کی۔ دوسری رات
آدمیوں کی اتنی کثرت ہوئی کہ مسجد تنگ ہوگئی لیکن حضور صلی اﷲ علیہ وسلم
حجرۂ نبوی سے برآمد نہیں ہوئے۔ صبح کو فجر کی نماز کے لیے تشریف لائے فجر
کی نماز سے فارغ ہوکر لوگوں سے خطاب فرمایا: ’’تمہاری رات کی حالت مجھ سے
پوشیدہ نہ تھی لیکن اندیشہ یہ تھا کہ نماز تروایح تم پر فرض ہوجائے اور تم
اس کے ادا کرنے سے عاجز ہوجاؤ۔‘‘ (غنیۃ الطالبین ص: ۳۶۶)طبرانی باسناد حسن
حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے راوی ہیں کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے
فرمایا:’’ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میری امت پر شاق ہوگا تو میں ان کو ہر وضو
کے ساتھ مسواک کرنے کا امر فرمادیتا ۔‘‘یعنی فرض کردیتا اور بعض روایتوں
میں لفظ فرض بھی آیا ہے۔ (بہار شریعت: جلد اول، حصہ دوم، ص: ۱۰)کیازمانے نے
ایساکوئی قائد ورہبر دیکھاہے جس نے اپنے ماننے والوں سے اتنی محبت کی ہو؟
مصطفےٰ پیارے ہماری کمزوریوں سے بخوبی واقف تھے۔ ہم پر بار نہ گزرے ترک فرض
کے عوض کہیں ہم ِ جہنم کے مستحق نہ ہوجائیں اس غرض سے مصطفےٰ پیارے کتنی
احتیاط فرماتے۔
مصطفےٰ جانِ رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم معراج کے لیے تشریف لے جارہے تھے ،تب آپ
کی نظر براق پر پڑی، فکر مند ہوکر سر جھکا لیا۔حضرت جبرئیل علیہ السلام کو
خطاب الٰہی ہوا کہ:’’ اے جبرئیل! میرے محبوب سے پوچھو کہ کیا پریشانی لاحق
ہے اور کس وجہ سے توقف ہے؟ ‘‘آقا علیہ السلام نے فرمایاـ: میں گھر سے نکلا
ہوں مجھے خلعت واعزاز حاصل ہواہے، میرے اعزاز واکرام کے لیے تمام ملائکہ
مقربین حاضر ہوئے ہیں اور برق رفتار براق میرے لیے لائے ہیں۔ مجھے اندیشہ
ہوا کہ کل قیامت کو جب میری امت قبروں سے اٹھے گی، برہنہ، خالی پیٹ، بھوکی،
پیاسی، گناہوں کا بوجھ گردن پر رکھے،بے شمار مظلوموں کے ہاتھ ان کے دامن
میں ہوں گے، پچاس ہزار سالہ راہ ان کے سامنے ہوگی، تیس ہزار سالہ باریک اور
تاریک راہِ دوزخ پر سے گزرنا ہوگا وہ بے بضاعت فقرا اس مسافت کو کس طرح اور
کن پیروں سے طے کرسکیں گے؟ فرمان آیا: ’’اے میرے حبیب! غم نہ کیجیے میں نے
جس طرح آج رات عزت وبزرگی کا براق آپ کے دروازے پر بھیجا ہے اسی طرح آپ کی
بلند ہمت امت کی ہر قبر پر ایک براق بھیجوں گا اور تمام کو سوار کرکے
سلامتی کے ساتھ ہنستے کھیلتے پل صراط سے گزار دوں گا، قیامت کا پچاس سالہ
راستہ پلک جھپکنے میں طے کروا کر بہشت عنبریں میں پہنچادوں گا۔ (معارج
النبوہ ، ص: ۴۵۴)
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ’’نفی الفی عمن
استنار بنورہ کل شئی‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’جان برادر! تو نے کبھی
سنا کہ تیرا محب تجھے منانے کی فکر میں رہے اور پھر محبوب بھی کیسا! جانِ
ایمان وکانِ احسان جسے اس کے مالک نے تمام جہان کے لیے رحمت بھیجا اور اس
نے تمام عالم کا بارتنِ نازک پر اٹھالیا۔ تمہارے غم میں دن کا کھانا رات کا
سونا ترک کردیا تم رات دن لہو ولعب اور ان کی نافرمانیوں میں مشغول اور وہ
شب وروز تمہاری بخشش کے لیے گریاں وملول ۔جب وہ جانِ رحمت وکانِ رأفت پیدا
ہوا بارگاہِ الٰہی میں سجدہ کیا اور رب ہب لی امتی (یا اﷲ! میری اُمت کو
بخش دے) (صحیح مسلم )جب قبر شریف میں اُترا لب جاں بخشش کو جنبش تھی بعض
صحابہ نے کان لگا کر سنا، آہستہ آہستہ ’’امتی،امتی‘‘(میری امت،میری امت)
فرماتے تھے۔(صحیح مسلم شریف) قیامت میں بھی انہیں کے دامن میں پناہ ملے گی
تمام انبیا علیہم السلام سے نفسی، نفسی اذہبوا الیٰ غیری(صحیح مسلم شریف) (آج
مجھے اپنی فکر ہے کسی اور کے پاس چلے جاؤ) سنوگے اور اس غم خوار اُمت کے لب
پر یارب امتی (اے رب میری امت کو بخش دے) کا شور ہوگا۔بعض روایات میں ہے کہ
حضور ارشاد فرماتے ہیں: جب انتقال کروں گا صور پھونکنے تک قبر میں ’’امتی
امتی‘‘ پکاروں گا۔ کان بجنے کا یہی سبب ہے کہ آواز جاں گداز اس معصوم، عاصی
نواز کی جوہر وقت بلند ہے، گاہے ہم سے کسی غافل ومدہوش کے گوش تک پہنچتی ہے۔
روح اسے ادراک کرتی ہے اسی باعث اس وقت درود پڑھنا مستحب ہوا کہ جو محبوب
ہر آن ہماری یاد میں ہے کچھ دیر ہم ہجراں نصیب بھی اس کی یاد میں صرف کریں۔‘‘(نفی
الفی عمن استنار بنورہ کل شئی ص:۲۲)
٭٭٭ |