اردو زبان و ادب میں فن سیرت نگاری میں وقیع
کارنامے انجام دئے گئے ،اور خاص طور پر سیرت رسول اکرمﷺ سے بہت سی شخصیات
نے اپنے قلم کو پر وقار کیا ،اس کا مقام و مرتبہ دوبالا کیا ،اور دنیا و
آخرت میں بلند مقام کے حامل ٹھہرے، سیرتہ النبی ،نبیٔ رحمت ،سیرت المصطفیٰ
،سیرت حلبیہ سیرت کی وہ عظیم کتابیں ہیں ،جنہوں نے اردو نثر کا مستقبل
محفوظ اور روشن کردیا ،اور اس کے قد کو دیگر ترقی یافتہ زبانوں کے برابر
کردیا ، اور آج بھی اردو زبان و ادب اپنے دوش پر اس کی گراں باری کا احساس
کرتا ہے ،اور وہ ان عظیم مصنفین کا قرض دار ہے ،جو اس فن کے نوک و پلک
سنوار گئے ،اس پر خطر وادی میں انہوں پوری محنت جفاکشی ایمانداری سے قدم
بڑھائے ،اور منزل مقصود تک پہونچے ،سیرت نگاری دنیا کا سب سے عظیم اور مشکل
تر فن ہے ، بلکہ پل صراط پر چلنا کے مثل ہے ،جو محبت حوصلہ اور محنت کے
بغیر ممکن نہیں ہے،نبی اکرمﷺ کی تعریف اور آپ کی عظمت کا جو نقشہ قرآن نے
کھینچا ہے ،بزبان خدا ورفعنا لک ذکرک کے ذریعہ جو آپ کی تعریف ہو چکی ۔ اس
کے معیار کو بھی ملحوظ نظر رکھنا ،بندے اور خدا کے فرق کا بھی لحاظ کرنا ہے
،سرتاج الانبیاء کی قدر و منزلت بھی نگاہ میں رکھنی ہے ،اور حقائق بھی پیش
کرنے ہیں ،واقعات کی تحقیق کا مرحلہ بھی ہے ،آپﷺ کی شخصیت اور آپ کے
سراپا سے لوگوں کو روبرو کرانا ہے ،یہ صورت حال اس راہ کو مشکل تر بنادیتی
ہے ، اور ہر شخص اس راہ پر خطر پر چلنے اور منزل مقصود پر پہونچنے کا حوصلہ
نہیں جٹا پاتا ،اور اس عظیم دولت سے محروم ہوجاتا ہے ،مگر ارادے کے پٹے لگن
کے سچے، عشق و محبت میں ڈوبے ہوئے افراد ،اس گہرے دریا میں کود پڑتے ہیں
،تہوں میں جاتے ہیں ،اور حوصلوں کے بل پر قیمتی موتی تلاش کر لاتے ہیں ،اور
کائنات کی خوبصورتی میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں ،اور زبان کو معراج کراتے
ہیں ،نثر نگاری میں یہ کام اتنا مشکل ترین ہے ،زندگیاں کھپ جاتی ہیں ، جہان
قافیہ و ردیف کی پابندیاں نہیں ہیں ،قواعد و حدود کی زنجیریں نہیں ہیں ،جو
بھی حقائق ہیں ،تاریخ کے صفحات پر جو بھی نقش اور ثبت ہے ،اسے اردو زبان کا
چولا پہنا دینا ہے ،حقائق تلاش کرنے ہیں ،اور سپرد قرطاس کرنا ہے وہاں یہ
معاملہ اتنا مشکل تر ہوجاتا ہے ،تو تصور کیجئے ،ذہنوں و دماغ کے دریچوں کو
کھولئے اور سوچئے؛ کیا کیفیت ہوگی جب اس عظیم موضوع کو شعر میں پرویا جائے
،اور فن شاعری کے معیار کو برقرار رکھتے ہوئے اس اہم کارنامہ کو انجام دیا
جائے ۔ مضمون: تعارف و تبصرہ - ریکس طبّی میگزین فن عروض کی کسوٹی پر کھرا
اترا جائے ،اور سیرت النبی کا بھی حق ادا جائے ،دنیا کا ہر ذی شعور فرد اس
کام کی عظمت اور محنت کا اندازہ بآسانی لگا سکتا ہے ،اس کے معیار و وقار
کو سمجھ سکتا ہے ،اور اس کی اہمیت کا احساس کرسکتا ہے،اس لئے جب ہم اردو
شاعری کا جائزہ لیتے ہیں ،اور اس پر گہری نگاہ ڈالتے ہیں ،تو منظر نامے پر
بہت کم نام اس نوعیت کا کام کرنے والوں کے نظر آتے ہیں ،مسدس حالی اور شاہ
نامہ اسلام ،چند ہی ایسی عظیم الشان اور بے مثال کتابیں ہیں ،جو اس زمرے
میں شامل ہیں ،اور یہ تخلیق کار اس خدمت جلیلہ کے باعث محترم ہیں ،اس صف
میں ایک ایسے شخص کا بھی نام ہے ،جس نے اپنی پوری زندگی دعوت و تبلیغ کے
لئے وقف کردی ،جو ضروریات پیش ان کی تکمیل کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا،
جو مشکلات آئیں ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا ،اور راہ رکاوٹوں اور مسائل
کو وسائل میں تبدیل کرتے آگے بڑھے ،اور آپﷺ کی سیرت کو بہت ہی خوبی کے
ساتھ شعر کے پیکر میں ڈھال دیا ۔ آپ کی زندگی کے تمام واقعات کو بہت ہی
نرالے انداز میں بیان کیا ،سادگی بھرا لہجہ ،مختصر بہریں ،جاذب اور دل کش
پیرایہ آپ کی آمد سے قبل کا پس منظر عرب کے حالات و واقعات ماحول اور
سماجی کیفیت بہت ہی خوبصورت طرز پر پیش کی گئی،اس صورت حال کے باوجود یہ
کوئی حقیقت سے پرے قصیدہ نہیں ہے ،بلکہ تاریخ و تحقیق کے تمام اصول و ضوابط
کا اہتمام کیا گیا ،جو شاعر کی فنی مہارت ،اور تقویت ایمان کی دلیل ہے
،مثال ملاحظہ کیجئے ،اور ان کے قدروں کا اندازہ کیجئے۔ سنو! اب یہ تاریخ کا
ہے بیاں پڑا آکے اک بار وقت گراں کچھ ایسی ہوئی گردش روزگار بڑھا جس سے
ابلیس کا اقتدار رہا دل میں باقی نہ ایماں ذرا بنا آدمی آدمی کا خدا اور
عرب کی حالت کے متعلق دیکھئے: عرب کی تھی کچھ اور حالت ادھر سے ادھر تک تھا
دارالعذاب مسلط خیالوں پہ تھی خودسری تھی پھیلی ہوئی ہر طرف تیرگی ان اشعار
سے ان کی فنی پختگی کا اندازہ ہوتا ہے ،اور اسلامی سے وابستگی محبت اور
لگاو کا احساس ہوجاتا ہے ،آپﷺ کی پوری زندگی کو فانوس حرم میں جس طرح نظم
کیا گیا ہے ،اس نظیر بہت کم ملے گی ،الفاظ عشق نبی کا پتہ دیتے ہیں ،اور
متین طارق باغپتی کے عاشق نبی ہونے کا یقین قلب میں راسخ کردیتے ہیں ،اور
ان کی اسلام سے وابستگی ،اور تاریخ و احادیث پر بھی ان کی دسترس کا اس کتا
ب سے اندازہ لگانا ناممکن نہیں ہے ،فانوس ہر کا ہر شعر ان کی سیرت سے
وابستگی کا مظہر ہے ،بڑی بات یہ ہےکہ حقائق کے ساتھ ساتھ ادبی چاشنی کو بھی
برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ مضمون: آہ! ڈاکٹر ملک زادہ منظورنہ رہے مثال
ملاحظہ کیجئے ،آپ بھی ان باتوں کے معترف ہوں گے ،غزوہ احد کا منظر پیش
کرتے ہوئے ،کچھ اس گویا ہیں : مچی ان میں بھگدڑ بصد اضطراب بہر سو مجاہد
ہوئے کامیاب یہ نظارہ دیکھا جو ہنگام کار بٹھائے تھے گھاٹی پہ جو پہرے دار
وہ سمجھے لڑائی ہوئی بس تمام مسلماں ہوئے فتح سے شاد کام ان اشعار میں متین
طارق باغپتی کے فن کامظاہرہ کرتے ہیں ،پوری کتاب کامطالعہ کیجئے اندازہ
ہوجائیگا ،چھوٹی بہریں ،سادہ اور پر شکوہ الفاظ ان کی اس کتاب کی خوبصورتی
کو دوبالا کرتے ہیں ،کتاب کا معیار ناقدین کی نگاہ میں جو بھی ہو ،مگر یہ
عظیم خدمت ہے ،اللہ تعالیٰ شاعر کو اس کمال کے بدلے آخرت میں اجر دے ،اور
اس کتاب کو ان کیلئے ذخیرہ آخرت بنائے۔ |