تحریر : ڈاکٹر محمد صغیر خان
کہتے ہیں کہ ایک بار اشرف صبوحی کسی کام سے حفیظ جالندھری کے گھر گئے ۔وہاں
انہوں نے حفیظ جالندھری سے کوئی کتاب طلب کی جو کسی الماری میں تالا بند
تھی ۔ حفیظ جالندھری صاحب نے بیٹھے بیٹھے ہانک لگائی ۔۔بیگم ذراچابی دینا،
ایک کتاب نکالنی ہے۔اس پر صبوحی چہک کربولے "ہاں ہاں ضرورچابی دیجیے یہ بھی
اب جاپانی کھلونا بن گئے ہیں۔ چابی کے بغیر چل نہیں سکتے"
یہ تو گئے زمانوں کی بات ہے جب ٹیکنالوجی ذرا کم ترقی یافتہ تھی اور ان
دنوں مارکیٹ پر جاپان چھایا ہوا تھا۔ اب معاملہ ذرا اور آگے بڑھ گیا ہے۔
ایک طرف چین کا سایہ ہے تو دوسری طرف ریموٹ کا دوردورا۔ اسلئے اب ہمیں ہم
تم کمرے میں بند ہوں اور چابی کھو دیں جیسے گیت سننے کو نہیں ملتے۔ بلکہ سچ
تو یہ ہے کہ اب "ٹچ" سسٹم چل رہا ہے۔ سواب "ٹچ می ناٹ " بھی نہیں کیا
جاسکتا ۔ ہاں تو صبوحی کا ٹھٹھا اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ہے کہ اب عمومی
طورپر سوچ و عمل کے باب میں کچھ ایسے ہوگئے ہیں کہ صاف نظر آتا ہے کہ ریموٹ
کہیں اور ہے حرکت کہیں اور ۔۔اس بے حس و جامد کیفیت میں کچھ فرزانے بلکہ
دیوانے ایسے ہوتے ہیں جو" کھل جاسم سم " کا اسم اعظم الاپتے سناتے دوڑتے
بھاگتے پھرتے ہیں۔ کہ شاہد کہیں کوئی جنبش ہو اور کوئی روک بندش کھلے ۔ وہ
بھی ان ہی میں سے ایک ہے ۔ جو کہنے کو کئی سال بیوروکریسی میں گزار بلکہ
گنوا کر آیا ہے۔ لیکن ایسا کملا "نیانا" کہ برسوں پہلے دیکھے خواب سنبھالے
پھرتا ہے۔ اسے گمان ہے کہ اس کے خواب نئے اجالوں کے سفیرہیں۔ اس کا گمان
وقت کے ساتھ ساتھ ایقان میں بدلا سو وہ کہنے کے قابل ہوا۔
میں وہ جانتا ہوں حقیقتیں
جو اس ارضِ بے نوا کی ہیں
گر دل میں رکھ کے ہی سو گیا
تمہیں کون پھر یہ بتائے گا
اس نے اپنے خوابوں کا انتساب کچھ ایسا کیا کہ سب ظاہر باہر ہوگیا۔ مشہور
پہاڑی آخان ہے کہ " جمنیاں ناں بالا نیدری اے اینا" اس کی فکر و شاعری کے
باب میں یہ آخان مکمل طورپر صادق آتا ہے کہ اس کا حرف حرف لفظ لفظ اس کی
سوچ کا آئینہ دار ہے۔
وہ "حمد" لکھتا ہے تو کہتا ہے
کسی نے لو جو لگائی تو اس کو دار ملی
کہیں تو نوکِ سناں تن کے آر پار ملی
وہ تیرے نام کا صدقہ اتارنے کے لئے
دیا تھا دل تو چلے جان وارنے کے لئے
Iاور "نعت " کہے تو یوں گویا ہوتا ہے۔
قاطع عہدِ غلامی وہ بشیر اور نذیر
عہد ِ ظلمات میں وہ شمس الضحیٰ کی تنویر
ظلم کا ہاتھ جھٹک دینے کی توفیق ملی
بند سوچوں کو بھی پھر جرات تحقیق ملی
غالباً اسی متبرک سوتے سے تحقیق وتخلیق کی جرات پا کر جب وہ آگے بڑھتا ہے
تو اس کا اسمِ اعظم کام کرجاتا ہے۔ وہ کُھل جا سَم سَم کہتا ہے تو ملکی
حالات ، تاریخ ،تحریک اور سیاست کے بند در اس کے سامنے کچھ یوں واہوتے ہیں
کہ وہ سات پردوں میں ہونے والے معاملات کو بھی دیکھ سمجھ لیتا ہے۔اس کی
پرکھ کی یہ صلاحیت دیکھ کر کبھی کبھی وہ مجھے "حکایت" کے صابر راجپوت کی
کہانیوں کا "کھوجی " لگتا ہے جو کُھرا اُٹھاتا ہے، تو ملکی وسائل لوٹنے
والوں کے گھر تک پہنچتا ہے۔ وہ اس سمجھ بوجھ کو جب اپنی اہلیت اور فنی
ریاضت کے سہارے شاعری کا پیر ھن پہنا تا ہے تو وہ سنور نکھر کر یوں سامنے
آجاتی ہے کہ سیاہ اندھیرے میں چاندنی سی چٹک چمک بن جاتی ہے۔
وہ فکر ی طورپر راسخ ہے سو اُسے کر بلا حریت کا استعارہ لگتا ہے اور اسے یہ
جرات بھی حاصل ہے کہ وہ فیضؔ سے پوچھ پائے کہ "کب راج کرے کی خلقِ خدا "
حریت او رفیضؔ کا تذکرہ آیاتو یہ کہنا حق بنتا ہے کہ وہ ترقی پسند فکر کا
حامل شخص و شاعر ہے اسی لئے اس کی شاعری میں مزاحمت کا عنصر بہت واضح ہے
اوروہ جرآت وہمت کو رھبر کرکے خلق خدا کی حالت بدلنے کی آس رکھتا ہے۔ وہ
شہر کے قلم کاروں کو حرمت لفظ کا امین بتاتاہے اور ہمیں بتایا ہے کہ "جئی
روح اوہے جے فرشتے " یعنی جیسا تو ویسے حکمران بابا۔
! ابن انشاکا کہناہے کہ
حق اچھا پر ا س کے لئے کوئی اور مرے تو اور اچھا
سو ہم بحیثیت مجموعی وہ محتاط و منافق لوگ ہیں جو ہرسو ظلم کی پادشاہی دیکھ
کر اسے غلط تک کہنے سوچنے سے بھی گریزاں ہیں کہ مبادا یوں نہ ہوجائے مبادا
ووں نہ ہو جائے ۔ اس کی شاعری کا مطالعہ بتایا ہے کہ وہ اس" احتیاط "سے
ممکنہ طورپر بچا رہا ہے۔ اور اس کی یہ عادت اس کی فطرت ثانیہ بن گئی ہے۔
لہٰذا اس کا لکھا حرف حرف لفط لفظ ،شعر، نظم ، قطعہ، غزل سبھی کچھ ایک خاص
فکر کا غماز ہے۔وہ ادب برائے زندگی کا قائل بلکہ اس سے گھائل ہے۔ سو اس کے
سارے موضوعات زندگی بلکہ کرب انگیز زندگی سے کشید ہوئے ہیں۔ اسلئے اس کی
شاعری میں صداقت بھی ہے اور بغاوت بھی ۔ وہ جانتا ہے کہ "حکم شاہی "یوں ہی
ملتا ہے۔
حکمِ شاہی ہے مرا جشن منایا جائے
میرے ارمانوں کا ایک تخت بچھایا جائے
میرے احکام کی تعمیل مگر ہو ایسے
کسی تختی کسی کاغذ پہ نہ لایا جائے
ایسی بستی کہ جہاں لوگ ہوں گستاخ بہت
ایساگھر کوچہ و بازار جلایا جائے
* وہ بھی کچھ ایسا ہی" گستاخ" ہے مگر ا س نے ہر بات نہایت سجوڑ پنے سے کئی
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی فکر عمومی طورپر اس کے بیان کی راہ میں حائل نہیں
ہوتی ۔
یوں تو "نئے اجالے ہیں خواب میریــ" ۔دس حصوں پر مشتمل ہے اور اس کے تمام
حصے ایک دوسرے سے مربوط ہیں کہ اس کا موضوع مظلوم ملک و لوگ ہیں اور
مظلوموں کے درد سانجھے ہوتے ہیں اور ان کے درمیان فطری اتحاد ہونا بھی
لازمی امر ہے لیکن اس کے دو خصوصی حصے جو کشمیریات یعنی کشمیر کی تحریک ِ
آزادی اور یہاں کے قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ کا احوال بیان کرتے ہیں، خاصے
کی چیز ہیں۔
کہتے ہیں کہ افغانستان کے جہاد اور روس کے سقوط کا اصل سبب کسپین میں پایا
جانے والا سنہری سیال ہے۔ اس طرح ماہرین کہتے ہیں کہ دنیا میں آئندہ جنگیں
پانیوں پر ہوں گی۔ ان دو حوالوں کو ذہن میں رکھ کردیکھا جائے تو گزشتہ کئی
سالوں سے کشمیر کی ماہلوں اور نالوں پر قبضے کا ایک خاموش عمل آگے بڑھ رہا
ہے۔ یہ عمل وہ ہے جسے اِس نے "واٹر لانڈرنگ " کا نام دیا ہے۔ اس نے پہلی
بار اس اہم اور بے حد حساس معاملے کو دیکھا اس پر سوچا اور پھرپوری جرآت سے
لکھا۔ یوں مجھے اس کی شاعری کشمیر کی عصری تاریخ معلوم ہوتی ہے۔ اس عصری
تاریخ کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو مجھے شعوری طورپر یہ عمل ایک
نئے کشمیر کی دریافت لگتا ہے۔
اکرم سہیل کی شاعری میں نظم و قطعے کا پلا ذرا بھاری ہے۔ اس کی نظم ہنگامی
و موضوعاتی نوعیت کی ہے۔ یوں وہ مولانا ظفرعلی خان کی راہ کا راہی کہلا
سکتا ہے۔ لیکن بلند آھنگی اور پر شکوہ انداز کے باعث اور غالباً فطری میلان
میں یکسانیت کے سبب وہ غیر محسوس انداز میں جوش کی پیروی کرتا نظر آتا ہے۔
اس کی نظم و قطعے کا باہم مطالعہ گزشتہ دو تین دہائیوں کی تاریخ کے وہ در
وا کرتا ہے جو عمومی طورپر ڈاہڈے باٹے کرکے بند کردئیے جاتے ہیں۔
اپنی طبیعت اور شخصیت میں وہ حلیم و متوازن شخص فیض اور احمد ندیم قاسمی کا
مقلدلگتا ہے۔فیض جو ادب برائے زندگی کے قافلے کا سر خیل تھے کہ متعلق
کتابوں میں پڑھا اور لوگوں سے سنا ہے کہ وہ علم ،حلم اور نظم کا آمیزہ تھے
تو اسی طرح ربّ کی مہربانی سے کھلی آنکھوں سے ندیم کو بار بار دیکھا تو یہ
جانا کہ فنی ہنر مندی اور سلیقہ شعاری کیا ہوتا ہے ۔اکرم سہیل شخصی حوالوں
سے ان سے متاثر لگتے ہیں لیکن مزاحمتی شاعری میں ان پر جالب ذرا زیادہ غالب
نظرآتے ہیں۔ شاہد حالات کی سختی اور تلخی نے ان کے لہجے کو ذرا تند کردیا
ہے، ورنہ یوں تو وہ رسیلے میٹھے شخص ہیں۔
اکرم سہیل جب کشمیر کہانی کہتے ہیں تو وہ یہاں کے بہتے پانی کو نہیں بھول
پاتے جو ہائیڈرل جنریشن کی نجکاری کی صورت میں دے دیا گیا،اسی لئے ان کا
کہنا ہے
نالہ صدیوں سے ہے دلگیر میرا
جسم بھی پابہء زنجیر میرا
جس کے پانی پہ میرا حق ہی نہیں
کیسے کشمیر و ہ کشمیر میرا
مسئلہ کشمیرپر اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں
کیا رخ بھی یہ دیکھا ہے
کشمیر کہانی کا
باقی ہیں یہ سب نعرے
مسئلہ ہے یہ پانی کا
یا پھر
میری دھرتی کی ایک ہی دولت
ہوسِ زر کا وہی شکار ہوئی
کیسے قبضے میں غیر کے آئی
یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی
اکرم سہیل نے کشمیر کے قدرتی وسائل کی لوٹ مار کو پہلی بار موضوع شاعری
بنایا ۔سووہ کہتے ہیں۔
میرے دریاؤں کی باتیں ، میرے اشجار کی باتیں
میرے یاقوت کی باتیں، میرے مرجان کی باتیں
جو ہو قومی وسائل لوٹنا مقصد ہی جب ان کا
کہاں بھاتی ہیں ا ن کو قاعدہ قانون کی باتیں
اکرم سہیل کی شاعری یقینا کشمیر کے مزاحمتی ادب میں ایک بامعنی اضافہ ہے
۔جس کی گونج نہیں جلترنگ دور اور دیر تک سنائی دے گی ۔ کہ اس میں کشمیر کے
بہتے جھرنوں اور گنگناتی ندیوں کاترنم و الم ہے اور اس کی تاثیر یقینا گہری
اور ڈاہڈی ہے۔ کہ یہ دھرتی کے سینے پر رقم وہ تحریر ہے جسے محسوس کئے بنا
آگے نہیں بڑھا جاسکتا ۔ |