سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی جس نے بھی یہ کہا
ہے درست ہی کہا ہے ۔ گزشتہ چند دنوں سے پاکستان کی سیاست میں ہلچل مچاء ہوا
ہے ، کئی ڈیل ہورہے ہیں ، تو کہی ملاقاتیں ہورہی ہے ، حکومت اور اپوزیشن کے
درمیان مبینہ طور پر معائدے ہورہے ہیں ، ابتک جو حکومت کے ساتھ ساتھ
پاکستانی اداروں کو سب سے زیادہ مطلوب تھا جس پر دہشتگروں سے معاونت
کاالزام تھا اربوں روپے کے کرپشن میں جیل کے اندار تھا اچنک کیا ہوا کہ وہ
باہر آگیا ، اس کے علاوا آرمی چیف جنرل قمر باجوہ صاحب سے تحریک انصاف کے
سربرہ عمران خان کے ملاقات مختلف لوگ مختلف آراء کا اظہار کر رہے ہیں ۔
تاہم مجھ سمیت کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جس طرح دہشتگردی اور کرپشن کے
گٹھ جوڑسے متعلق کیسوں میں ملوث پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماوں کو یکے بعد
دیگر کو چھوڑا جارہا ہے ،اس سے فوج اور دیگر اداروں میں غم و غصہ پایا
جارہا ہے ، آرمی چیف اور عمران ملاقات سے فوج ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں
کو یہ پیغام دینے کی کوشش کررہی ہے کہ مک مکاکی سیاست کے ذریعے دہشگردوں کی
سہولات کاری اور کرپشن میں ملوث افراد کو ریلیف دیا جارہاہے ،اس سے عوام کے
ساتھ ساتھ سیکورٹی اداروں میں تشویش پایا جاتھا ہے ۔ کل تک جس شخص پر چار
سو ارب سے زائد رقم کے کرپشن کے الزام تھا جس ڈاکٹر عاصم پر دہشتگردوں سے
معاونت کے الزامات تھے وہ ضمانت پر رہا ہو گئے۔ کہاں گئی ایف آئی اے کہا ں
گئے نیب اور باقی اداروں کے الزامات، کہاں گئی ڈاکٹر عاصم کی اعترافی وڈیو،
کہاں گئی مسلم لیگی وزراء کی وہ بھڑکیں کہ کیس کو منطقی انجام تک پہنچائیں
گے۔ کیا عوام ڈاکٹر عاصم کی بے گناہی کا یقین کر لیں؟ چلو مان بھی لیتے ہیں
وہ بے قصور تھا تو کیا وہ اپنے پر لگے الزامات کو جھوٹا ثابت کرنے کے بعد
الزامات لگانے والوں کے خلاف ہتک عزت کا دعوا ء کرِیں گے؟
عام پاکستانی ہے کہ ضمانتوں اور رہائی کے اس گھناؤنے کھیل کہ پسِ منظر میں
ہونے والی ڈیل سمجھنے کی کوشش میں ہے۔ تو دوسری طرف سندھ کے ایک سینئر
سیاستدان کا یہ کہنا کہ ڈاکٹر عاصم کی ضمانت پہ رہائی انصاف کی فتح ہے سن
کر ہر باشعور پاکستانی سوچ میں ہے کہ اربوں کی کرپشن کے الزام میں ضمانت پہ
رہائی ملنا کون سے انصاف کی فتح ہے۔لیکن کیا کیا جائیے جناب جب تک اربوں کا
فراڈ اور عربوں کے آشیرواد حکمرانوں کے سروں پہ ہے یہ نظامِ عدل یونہی چلتا
رہے گا۔ اور بے انصافیوں کی سنہری تاریخ یونہی رقم ہوتی رہے گی۔اب آتے ہے
حامد سعید کاظمی صاحب کی طرف جس پر حج کرپشن کے الزامات تھے جس پرحاجیوں کے
ساتھ فراڈ کرنے کا چرچا تھا،آب وہ بھی رہا ہوگئے ہیں مان لیا کہ وہ بھی
بیگناہ تھے مگر کیا معلوم کہا جائے گا کہ حاجیوں سے اضافی رقوم لیکر ان کو
ذلیل وخوار کس نے کیا تھا؟ آخر حاجیوں کی شکایات تو ریکارڈ کا حصہ ہیں
کوِئی تو ذمہ دار ہوگا۔ کیا یہ معاملہ منطقی انجام تک پہنچے گا؟ خود ساختہ
جلاوطنی ختم کرکے پاکستان آنے والا پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک اور رہنما
شرجیل میمن پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں بہت اچھا ہے کہ وہ الزامات کو
کلیئر کروانے واپس آئے ہیں امید ے کہ وہ خود پر لگے الزامات جھوٹے ثابت
کرلیں گے ان سب باتوں کے علاوا وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اپنی چھ ماہ
پہلے کی ہوئی یہ بات کہ ایک بہت ہی معتبر شخص پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی ڈیل
کے لیے آیا تھا اور ساتھ میں ایان علی کی رہائی اور ڈاکٹر عاصم کی ضمانت
کردی جائے کی بات کی تھی،یا یہ معاملہ بھی یہی ٹھپ ہو جائے گا؟نواز لیگ
پانامہ لیکس میں اور آیندہ 2018 کے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کی
حمایت چاہتی ہے تب ہی تو ڈاکٹر عاصم ، ایان علی اور حامد سعید کاظمی کو ڈیل
کے ذریعے رہائی ملی ،سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی ،کچھ د نوں قبل
تک جس شہباز شریف صاحب نے زرداری صاحب کے سوئیس اکاونٹس لوٹی ہوئی رقم ملک
میں لانے کی بات کر رہے تھے آج وہ خاموش ہے اور آج مثاق جمہوریت کی بات کر
رہے ہیں ۔ کسی کو یاد ہو ناہو اس قسم کی باتیں شہباز شریف صاحب پانچ سال
پہلے بھی کر چکے ہیں کہ قوم کی دولت لوٹنے والوں کو سڑکوں پر گھسٹیں گے
وغیرہ وغیرہ مگر اقتدار میں آنے کے بعد تو آپ نے ان الزامات پر آصف زرداری
سے معافی مانگ لی تھی آج انہی الزامات کو دوبارہ دہرانا شروع کر دیا ہے۔ آپ
کی معافی کو سچ مانا جائے یا الزامات کو؟ محترم آصف زرداری صاحب کو ہی
چاہیے کہ وہ انکو انکی معافی یاد کروائیں اور پوچھیں کہ کب تک الیکشن مہم
کے لیے ایسے ہتھکنڈے آزمائیں گے اور اگر زرداری صاحب بھی ایسا کچھ نہیں
کرتے تو دال میں کچھ کالا تو محسوس ہوگا۔ وزیر اعظم نواز شریف بھی آج کل
قوم کی دولت لوٹنے والوں کا بڑا ذکر کر ہے ہیں۔ انھوں نے بھی گذشتہ الیکشن
مہم کو دوران قومی دولت لوٹنے والوں کو الٹا لٹکانے کی بات کی تھی مگر
اقتدار میں آنے کے بعد نہ صرف الٹا لٹکانا بھول گئے بلکہ وزیر اعظم ہاوس
میں آصف زرداری صاحب کو الوداعی ظہرانہ دیتے ہوئے ان کی تعریفوں کے پل
باندھ دیئے تھے اور آنے والے صدر یعنی ممنون حسین کو مشورہ بھی دیا تھا کہ
آپ بھی ملک کی ویسے ہی خدمت کرِیں گے جیسے آصف زرداری صاحب نے کی۔ نواز
شریف صاحب کی کونسی بات کو سچ مانا جائے؟ سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں
ہے ۔ ایک طرف ن لیگ اور پیپلز پارٹی ڈیل پر ڈیل کر رہی ہے ،۔ تو دوسری طرف
سابق صدر آصف زرداری صاحب نے طاہرالقادری صاحب کو فون کیا اورکہاکہ آپ ٹھیک
ہو جائیں پھر پنجاب میں ہلا گلہ کریں گے۔ لیکن جب چار سال قبل یہی زرداری
صاحب اور ان کے وزیراعظم اور وزراء انہیں قادری کے دھرنوں سے اپنی حکومت کو
بچانے کے لیے نواز شریف سے مدد مانگنے رائیونڈ تشریف لے گئے تھے۔ آج نواز
شریف کے خلاف قادری صاحب سے رابطے کیے جا رہے ہیں۔ یاد آیا اسی الوداعی
ظہرانے میں آصف زرداری صاحب نے میاں نواز شریف کو نوید سنائی تھی کہ آپ
حکومت کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ سیاست ہم آخری سال میں یعنی الیکشن کے نزدیک
کریں گے۔ آج محسوس ہو رہا ہے زرداری صاحب کی بات میں وزن تھا اور عمران خان
کی بات میں بھی وزن لگتا ہے کہ نورا کشتی شروع ہے۔ آخر زرداری صاحب خود
نواز شریف کی کہی بات دہراتے رہے ہیں کہ پہلے آپ کی باری پھر ہماری۔ان تمام
باتوں کے بعد اب عوام کو بھی سوچ نا ہوگا کہ اس نورا کشتی سے نجات کے لئے
ہمیں اسے لوگوں کو آگے لانا ہوگا جو اس ملک سے مخلص ہو اور اﷲ تعالیٰ اور
اس کے رسول ﷺ کے تابع ہو تب ہی اس ملک سے کرپشن لوٹ پاٹ دہشتگردی ختم
ہوسکتی ہیں ، تب ہی یہ ملک ایک خوشحال ملک بن سکتا ہے ۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے ؛ کہ یا اﷲ اس ملک پاکستان پر رحم فرما اور نیک صالح
حکمران نصیب فرما: ( آمین ) |