آسمان سے کوئی فرشتہ نہیں آئے گا

کون نہیں جانتا کہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں کسی دور میں بھی یہاں خالص جمہوری قدریں پنپ نہیں سکیں۔ اگر یہ المیہ زمینی حقیقت کی شکل میں واقعتا موجود نہ ہو تا تو کسی بھی غیر ملکی سفارت کو پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے حوالے سے اعلیٰ حکومتی شخصیات کو ڈکٹیشن دینے کی جرا ت نہ ہوتی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان غیر ملکی افراد کو وہ کون سے اسباب و علل اور عوامل و محرکات ہیں جو اس امر کا ’’مجاز‘‘ بناتے ہیں کہ وہ ہماری ہی دھرتی پر بیٹھ کر ہمیں جمہوری عمل کے فروغ کے حوالے سے ’’خصوصی ہدایت ناموں‘‘ کا اجرا کریں؟ دراصل ہمارے مروجہ جمہوری نظام میں اب بھی بعض ایسے اسقام و قبائح پائے جاتے ہیں جو انہیں اس امر کا مجاز بناتے ہیں کہ وہ مملکت پاکستان کی اعلیٰ حکومتی شخصیات سے ملاقات کے دوران انہیں یہ تلقین کریں کہ وہ پاکستانی عوام کو بھی شریک اقتدار بنائیں۔یہ ڈکٹیشنز ‘ ہدایت نامے اور تلقینیں اس جانب انگشت نمائی کرتی ہیں کہ امریکہ اور اس کے حکام پاکستان کی اعلیٰ حکومتی شخصیات کے ساتھ لائق رشک ذاتی تعلقات کے باوجود ان کے سیاسی و جمہوری کردار کو محل نظر تصور کرتے ہیں ۔ یہ بھی کڑوا سچ ہے کہ قیام پاکستان کے تقریباً 70 برسوں میں جمہوری عمل بار بار سیاستدانوں کی ناگہانی طاقتوں کی ہوس کاریوں کا شکار بنتا رہا۔ طالع آزما اور مہم جو مقتدر طبقات کی اوائل ہی سے کوشش رہی ہے کہ عام پاکستانی کو اقتدار میں شرکت کے مفید عمل سے دور رکھا جائے تاکہ وہ کھل کر کھیل سکیں کسی مملکت اور معاشرے میں جمہوری عمل کا تسلسل اور تواتر کے ساتھ برقرار و استوار نہ رہنا اس امر پر دل ہے کہ وہاں فیصلہ ساز ادارے اور قوتیں جمہوری عمل کے فروغ کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک عام طالب علم بھی جانتا ہے کہ مختلف ادوار میں طالع آزماؤں نے منتخب جمہوری حکومتوں کو رول بیک کرکے یہاں شخصی حکمرانی کی داغ بیل ڈالی۔شخصی حکمرانی کی روایت کو آگے بڑھانے میں اس بدقسمت ملک کی سول و ملٹری بیوروکریسی اور ان سیاسی حکمرانوں نے بھی منفی کردار ادا کیا۔ پاکستان میں آئین‘ اصولوں‘ جمہوریت کی بات کرنا ہر سیاستدان اپنا جمہوری اور آئینی حق سمجھتا ہے مگر اصل معاملہ کہی ہوئی باتوں پر عملدرآمد کا ہے۔ مشاہدہ اس امر کی توثیق کرتا ہے کہ حکمران طبقات کی جانب سے پاکستان میں آئینی اور جمہوری اصولوں کی بات صرف اس وقت کی جاتی ہے جب خود ان سے فائدہ لینا مقصود ہو لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری قوم اب یہ فیصلہ کرے کہ اصول و ضوابط پر سب نے عمل کرنا ہے۔ اس حوالے سے سیاستدانوں کو اپنے کردار میں استحکام پیدا کرنا ہوگا۔ جمہوریت کے استحکام‘ ملک کی یکجہتی اور پاکستان کی سالمیت کے لئے ضروری ہے کہ ہم سب اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں۔

ماضی اور موجودہ پارلیمانی ایوانوں کی کارکردگی غیر جانبدارانہ تجزیہ تحلیل کرتے ہوئے ایک غیر معتصب مبصر بلاتامل یہ رائے قائم کرسکتا ہے کہ وطن عزیز میں قومی اسمبلی اور پارلیمانی نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے میں جہاں دیگر عناصر نے منفی اور گھناؤنا کردار ادا کیا‘ وہاں اراکین قومی اسمبلی کا کردار بھی کوئی ایسا لائق رشک نہیں رہا۔ یہ درست ہے کہ کورم پورا کرنا حکومتی جماعت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ اس ذمہ داری کا اتنی ہی باراپوزیشن کے اراکین اسمبلی کے توانا کاندھوں پر بھی عائد ہوتا ہے۔

انتخابی اصلاحات کمیٹی کی سفارش بارے بتایا گیا ہے کہ‘ نئے انتخابی قانون کے 12 باب ہوں گے‘ آئندہ ماہ پارلیمنٹ میں منظوری کے نتیجے میں یہ ایکٹ بن جائے گا‘ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتظامی اور مالیاتی طور پر مکمل طور پر بااختیار بنایا گیا ہے اور سرکاری مشینری کی انتخابی مداخلت پر متعلقہ سرکاری افسران کے خلاف فوری طور پر تادیبی کارروائی ہوسکے گی‘ نتائج کے حوالے سے نیا جدید طریق کار متعارف کرایا گیا جس کے تحت کسی بھی پولنگ سٹیشن کا نتیجہ موبائل فونز کے ذریعے بیک وقت پریذائیڈنگ افسر اور الیکشن کمیشن کے مرکزی ہیڈکوارٹر میں آجائے گا‘سپیشل موبائل ایپلی کیشن بنائی گئی ہے ‘ ہر دس سال کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہوں گی‘انتخابات کے لئے انتخابی عملے سے حلف لیا جائے گا اور ہر پولنگ سٹیشن ایک کلو میٹر کی حد میں ہوگا‘حساس پولنگ سٹیشنوں پر کیمرے لگائے جائیں گے‘ اگر کسی بھی حلقے میں شکست کا مارجن دس ہزار تک ہوگا تو کسی بھی اعتراض پر اسی حلقے کی دوبارہ گنتی ہوسکے گی اور کسی بھی امیدوار کو ایک ہی بار گنتی کی درخواست دینے کا اختیار ہوگا۔ یاد رہے کہ جون 2014ء میں انتخابی اصلاحات تجویز کرنے کے لئے 32 اراکین پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے اڑھائی برس بعد بعد از مساعی بسیار اپنا کام مکمل کیا ہے ۔ صرف 27 جولائی 2015ء تک اس کے 35 اجلاس منعقد ہوچکے تھے اور اس نے 80,70 فیصد کام مکمل کر لیا تھا۔

واضح رہے کہ 14مئی 2016ء کو سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے الیکشن کمیشن کو تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ اب وقت آگیا ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابی اخراجات کے متعلق حکمت عملی بنائے‘انتخابی ماحول ایسا ہو کہ عوام کے صحیح نمائندے پارلیمنٹ تک پہنچ سکیں‘ انتخابی مہم میں بہت زیادہ اخراجات کا نقصان عام آدمی کو ہورہا ہے جو سیاسی جماعت انتخابی عمل کے اخراجات کم کرنے کی مخالفت کرے گی وہ قوم کے سامنے آجائے گی۔ عدالت عظمیٰ نے قرار دیا تھا کہ ’’اگر الیکشن کمیشن کی خودمختاری کے لئے مزید قانون سازی یا آئینی ترمیم کی ضرورت ہے تو وہ حکومت تمام پارلیمانی جماعتوں کی مشاورت سے بھی کرلے تاکہ آئندہ انتخابات تک انتخابی فہرستیں ہرصورت درست کر لینی چاہئیں اور مقناطیسی سیاسی استعمال نہ کرنے کا اب کوئی عذر بھی پیش نہیں ہونا چاہیے‘ اسی طرح انتخابی اخراجات کنٹرول کرنے کے لئے بھی اب الیکشن کمیشن کو اپنی اتھارٹی تسلیم کرانا ہوگی جبکہ آئین کی دفعہ 63-62 کو امیدواروں پر لاگو کرکے ’’سٹیٹس کو‘‘ والے انتخابی نظام سے عوام کو خلاصی دلائی جاسکتی ہے ‘یاد رہے کہ 29مئی 2016ء کو سابق چیف جسٹس نے بھی باور کرایا تھا کہ ’’بیڈ گورنس‘کرپشن اور اقرباپروری کے خاتمے کے لئے آسمان سے کوئی فرشتہ نہیں آئے گا ‘ہم میں سے ہی کسی کو آگے آنا ہوگا‘ ہم اپنا قبلہ درست کر لیں تو اپنے مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائیں گے‘بدقسمتی سے وہ لیڈر شپ نہیں ملی جو قوموں کو ترقی کی منازل پر پہنچا دیتی ہے ‘اینٹی کرپشن ‘ ایف آئی اے ‘نیب کا قانون بنایا گیا ‘کوئی ایک ادارہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہوا‘ہمارے سیاستدان اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی کرتے ہیں‘ جس کے باعث ترقی کے راستے پر چلنا مشکل ہورہا ہے۔

Dr Murtaza Mughal
About the Author: Dr Murtaza Mughal Read More Articles by Dr Murtaza Mughal: 20 Articles with 14883 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.