انسان کی فطرت ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروںکی کمیوں
پرنظررکھتاہے،اسے اپناعیب نظرنہیں آتا۔ہمارے مسلم معاشرے میں یہ مرض کچھ
زیادہ ہی سرایت کرگیاہے اس لیے ہم دوسروں کے ردعمل پرچیخ پڑتے ہیں
اوراحتجاج اورمظاہرے کرکے پورے دنیاکویہ بتادیتے ہیں کہ مسلمان واقعی بڑابے
صبرا،کمزوراوربے شعورہے۔اترپردیش میں سلاٹرہائوس پرپابندیو ںکاسلسلہ
اورپھردیکھتے ہی دیکھتے دیگر ریاستوں کےسلاٹرہائوسوں پرپابندی کےمطالبات
پرمسلمانوں کی تشویش ناکی اس کاواضح ثبوت ہے ۔ سمجھ میں نہیں آتاکہ
اگرمسلمان گوشت نہیں کھائے گاتوکیامرجائے گا،کیاوہ خوش حال زندگی جی نہیں
سکے گا؟ اگرحکومت پابندی لگاتی ہے تولگ جانے دیجیے ،کیافرق پڑتاہے ۔مسلمانوں
کے لیڈران بھی عام طورپرایسے بیانات دیتے ہیں جوصرف مشتعل کرتے ہیں حقیقت
پسندی پرمبنی بیانات اس ذیل میں صرف اب تک صرف دولیڈروں کے آئے ہیں ان میں
سے ایک اعظم خان ہیں اوردوسرے مولانامحمودمدنی ۔ان دونوں لیڈروں نے
ضرورمسلمانوں سے اپیل کی کہ گوشت کھاناچھوڑدو۔ان کے علاوہ خودکولیڈرسمجھنے
والوں میں سے کسی کابھی کوئی بیان نہیں آیا ۔مسلمانوں کوشایدمعلوم نہیں کہ
ہندوئوں کی پوری تاریخ گوشت خوری سے بھری ہوئی ہے ۔آرین کے دورسے لے کرآج
تک ہندوگوشت خوری کرتے آرہے ہیں مگر مسلمانوں کی بے سمجھی ،کم ہمتی
اوربزدلی کی وجہ سے یہ معاملہ آرایس ایس نے مسلمانوں کے سرمنڈھ دیاہے
اورحیرت ہے کہ مسلمان دفاع پردفاع کرتے جارہے ہیں ،آج اکیسویں صدی کی
سترہویں دہائی میں جب کہ دنیا میں اتھل پتھل مچ چکی ہے ،مسلمان ردعمل کے
لیے اپنے آپ کوتیارنہ کرسکے ۔یہ بےچارے خودکوتیاربھی کیسے کرتے جب کہ ان
کے زیادہ ترلیڈران بکائواورضمیرفروش ہیں ،یہ بے چارے خود احساس کمتری کے
شکارہیں تواپنے عوام کواحساس کمتری سے کیسے نکال سکیں گے ۔بدقسمتی سے
مسلمانوں میں کوئی سیاسی سمجھ بوجھ والالیڈرنہیں ہے اوراگرہیں بھی یاہوئے
بھی توہم سے ان کی قدرنہ ہوسکی ورنہ آرایس ایس کی چالیں کب کی دم توڑدیتیں
۔
مسلمانوں کواس وقت صرف دوکام کرنے ہیں ۔پہلایہ کہ انہیں اجتماعی طورپرفی
الحال گوشت خوری ترک کردینی ہے ۔آپ کایہ فیصلہ خودحکومت کی کمرتوڑدے
گااورآرایس ایس جس طرح یہ مسئلہ مسلمانوں سے جوڑکراورفرقہ وارنہ ماحول
پیداکرکے بےوقوف برادرانِ وطن کوخوش کرتی ہے ،اس کی ہوادھیرے دھیرے نکلنے
لگے گی ۔اس سلسلے میں مسلمانوں کے مقامی ،ضلعی ،ریاستی اورملکی سطح کے
لیڈروں کو ایسے بیانات دینے ہوں گے اورمسلمانو ںکوتنبیہ کرنی ہوگی کہ کچھ
وقت کے لیے تھوڑاپیچھے کھسک آئیں ۔اس معاملے میں بڑی مشکل یہ ہے کہ مسلمان
صرف اپنے پیروں کی سنتے ہیںاس لیے اگرمشائخین طریقت اپنے اپنے مریدوں کوحکم
دے دیں تویقیناًصورت حال بدل جائے گی۔دوسراکام گوشت کے کاروبارسے جڑے
مسلمانوں سے متعلق ہے ،انہیں اپنی تجارت شروع کرنے سے قبل یاجن کے کاروبار
اس کارروائی میں بندکردیے گئے ہیں انہیں جلدازجلدقانونی کارروائی پوری کرنی
ہوگی اوراس کاروبارکوچلانے کے لیے جتنے بھی دستاویزات ضروری ہیں انہیں مکمل
کرناہوگا۔ایک اندازے کے مطابق یوپی میں۱۴۰سلاٹرہائوس اورپچاس ہزارسے
زائدگوشت کی دوکانوں کے پاس لائسنس نہیں ہیں۔یہ بات ذہن میں رکھیے کہ سپریم
کورٹ کے ۲۰۱۲کے حکم کے مطابق تمام سلاٹرہائوسوں کاقانونی ہونا،نیزاچھے مال
کی سپلائی اورآلودگی سے بچناضروری ہے۔سلاٹرہائوسوں کے مالکان کی ذمے داری
ہے کہ اپنے تمام دستاویزات یعنی لائسنس ،اسٹیٹ پولوشن کنٹرول بورڈکی جانب
سے ’’نوآبجیکشن ،کلیرینس سرٹی فیکٹ حاصل کریں اوراس کے علاوہ اپنی میونسپل
اتھارٹی سے بھی اجازت حاصل کریں۔یوپی حکومت ایسے ہی سلاٹرہائوسوں
پرکارروائی کررہی ہے جن کے پاس یہ سب دستاویزات نہیں ہیں۔جن کے پاس لائسنس
تھے انہیں ردکرنے یاپھرنیالائسنس جاری نہ کیے جانے کی کئی وجوہات ہوسکتی
ہیں۔مثلاً سلاٹرہائوسوں سے جوگوشت باہرسپلائی ہوتاہے وہ اچھے معیارکانہیں
ہوتااورforeign trade policyکے مطابق پورانہیں اترتا،اس کے علاوہ پولوشن
کنٹرول بورڈاورفوڈمنسٹری کی ہدایات پرپورانہیں اترتا اس لیے ان پرکارروئی
کی گئی ۔یوپی میں جن ۲۶قانونی سلاٹرہائوسوں کوبندکردیاگیاہے اس کی وجوہات
یہی ہیں۔اترپردیش کے چیف سکریٹری راہل بھٹناگرنے کہاہے کہ یہ پابندی عارضی
ہے ،اگریہ تمام قانونی کارروائیاں پوری کرلیں گے توانہیں پھرسے کھول
دیاجائے گا۔
سلاٹرہائوس اورگوشت خوری کے حوالے سے کیاگیاتجزیہ بتاتاہے کہ اگرملک میں
گوشت پرپابندی لگی تواس کاخمیازہ مسلمانوں سے زیادہ حکومت کوبھگتنا پڑے
گاکیو ںکہ اس کوسالانہ ہزاروں کروڑ روپے کی خطیررقم کانقصان برداشت
کرناہوگا۔اس وقت پورے ملک میں ۷۲سلاٹرہائوس حکومت سے منظورشدہ ہیں وران
میں۳۸صرف یوپی میں ہیں۔ان سلاٹرہائوسوں سے گوشت ایکسپورٹ ہوتاہے ۔ خاص
طورپرعرب ممالک میں ان سلاٹرہائوسوں کے گوشت کی بہت مانگ ہے ۔سروے رپورٹ کے
مطابق یوپی کے سلاٹرہائوس پندرہ ہزارکروڑروپے کی انڈسٹری ہے جس میں ۲۵لاکھ
لوگ ملازمت سے وابستہ ہیں۔ان سلاٹرہائوسوں میں روزانہ ۳۰۰سے لے کر۳۰۰۰تک
جانورذبح کیے جاتے ہیں۔سلاٹرچاہے بھینس کے ہوں یابکری یابھیڑکے ان کے
مالکان زیادہ ترہندوہیں ۔اترپردیش ملک میں گوشت ایکسپورٹ کرنے والی سب سے
بڑی ریاست ہے۔یہا ںغیرقانونی مذابح کتنے ہیں اس کاکوئی ریکارڈنہیں
ہے۔اندازے کے مطابق گوشت ایکسپورٹ کرنے والے سالانہ ۲۶ہزار ۶۸۵کروڑروپے
کماتے ہیں،اوراگراس پرپابندی لگی توریاست کو۱۱ہزار۳۵۰کروڑکاسالانہ نقصان
ہوگااوراگریوگی حکومت نے یوں ہی پابندی جاری رکھی توان کی پانچ سال کی
حکومت میں ۵۶ہزار کروڑ روپے کانقصان یوپی کوہوگا۔یہ صرف یوپی کے
اعدادوشمارہیں دیگرریاستوں کے اعداوشمارکابھی احاطہ کرلیاجائے توکئی اربوں
کروڑکانقصان حکومت کو اس فیصلے سے برداشت کرناہوگی جوحکومت کبھی نہیں
کرسکتی ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ میٹ کی اتنی بڑی انڈسٹری کومرکزی حکومت ہی
فروغ دیتی ہے ۔فوڈپروسیسنگ منسٹری میٹ انڈسٹری کاایک یونٹ ڈالنے کے لیے
پچاس فیصدتک امدادفراہم کرتی ہے۔
مسلم مررکے ۱۹؍اکتوبر۲۰۱۵کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیامیں چھ سب سے بڑی
کمپنیاں جوبیرون ممالک گوشت سپلائی کرتی ہیں اورہرسال حکومت کوکروڑوں
کاٹیکس دیتی ہیں ۔ان میں سے چارکمپنیاںہندوئوں کی ہیں۔(۱)الکبیرایکسپورٹ
پرائیویٹ لمیٹیڈاس کے مالکان کانام ستیش اوراتل سبھروال ہے ۔یہ ۹۲؍جولی
میکرس ،چمبورممبئی میںواقع ہے۔ (۲)عربین ایکسپورٹ پرائیویٹ لمیٹیڈکے مالک
کانام سنیل کپورہے اس کاپتہ یہ ہے :رشین مینشن ،اوورسیز،ممبئی (۳)ایم کے
آرفروزین فوڈایکسپورٹ پرائیویٹ لمیٹیڈکے مالک کانام مدن ابوٹ ہے ،یہ کمپنی
ایم جی روڈ،جن پتھ نئی دہلی میں واقع ہے۔(۴)پی ایم ایل انڈسٹریزپرائیویٹ
لمیٹیڈکے مالک کانام اے ایس بندراہے ،یہ کمپنی سی او۶۲۔۶۳،سیکٹرنمبر۳۴؍اے
،چنڈی گڑھ پنجاب میں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ حکومت ان پرپابندی عائدکیوں نہیں کرتی ؟کیوں کہ وہ قانونی
کارروائی کوپوراکرتے ہیں جب کہ ہم مسلمان بڑے جذباتی ہیں ،اللہ پر’’توکل‘‘
کرتے ہیں۔مسلمانوں میں سے بیشتر لوگ توکل کامطلب ہی نہیں سمجھ پارہے ہیں
۔زیادہ ترمسلم تاجروں کے پاس مصدقہ دستاویزات نہیں اورنہ ہی حکومت کے مختلف
محکموں سے منظوریاں اس لیے جب حکومت کارروائی کرتی ہے تومسلمان واویلا شروع
کر دیتے ہیں ۔حالاں کہ واویلاکرنے کےبجائے انہیں اپنااحتساب کرناچاہیے
۔مسلم لیڈران بھی چوں کہ عوام کے ’’نمائندے ‘‘ہیں اس لیے وہ بھی عوام کے
جذبات کے ترجمان بن جاتے ہیں ۔
ملک کےمعروف ترین تاریخ نویس اوردہلی یونیورسٹی کے پروفیسرڈی این جھانے ایک
بڑی تحقیقاتی کتاب لکھی -Holy Cow: Beef in Indian Dietary Traditionsاس
کتاب میں انہوںنے کئی حیرت انگیزانکشافات کیے ہیں ۔اس کتاب پراشاعت
پرہندتواکارکنان کی جانب سے انہیں جان سے مارنے کی دھمکیا ںبھی دی گئیں
۔کتاب میں مستندذرائع سے بتایاگیاہے کہ کیرلاکی ۷۲ہندو کمیونٹی کے لوگ شوق
سے گائے کاگوشت کھاتے ہیں ۔کتاب میں ا س الزام کی تردیدکی گئی ہے کہ
ہندوستان میں مسلم حکمرانوں نے گوشت کھانے کورواج دیاہے ۔ہندوستان میں
اسلام آنے سے بہت قبل یہاں کے لوگوں کی غذازیادہ ترگوشت ہی رہی ہے بلکہ
گوشت خوری ان کی شناخت تھی ۔کتاب میں ویدوں اورہندوستان کی قدیم تاریخ
کاتجزیے ثابت کیاگیاہے کہ ہندوستان میں جب آریہ آئےتووہ اپنے کھانے کے
لیے جانورہی ذبح کرتے تھے اوریہ وقت چلتارہا جب تک کھیتی باڑی کارواج نہیں
ہوگیا۔کھیتی باڑی آنے کے بعدگوشت خوری ان میں پہلے کی بنسبت کم ہونے
لگی۔ہندوئوں کے قدیم ترین دیوتااندرا پربیل کاگوشت چڑھایاجاتاتھا اوراگنی
دیوتاپرگائے کاگوشت چڑھایاجاتاتھا۔اس کے علاوہ ماروت اوراسون نامی دیوتائوں
کوبھی گائے کاگوشت چڑھایاجاتاتھا۔ویدوں کے مطابق ۲۵۰قسم کے جانورایسے تھے
جن کے گوشت دیوی دیوتائوں کے چڑھاوے کے لیے بہت اچھے سمجھے جاتے
تھے۔ہندوئوں کی مقدس کتاب منواسمرتی میں بھی گوشت کھانے پرپابندی عائدنہیں
کی گئی ہے ۔قدیم برہمنوں کی کتابوں میں بھی ایساکچھ نہیں ملتا۔آرایس ایس
کایہ کہناغلط ہے کہ اگرپابندی نہ لگائی گئی تودودھ دینے والے جانورکم
ہوجائیں گے ۔سروے کے مطابق ہزاروں جانورروزانہ ذبح ہوتے ہیں مگرپھربھی ان
کی تعدادبڑھ ہی رہی ہے ۔ ۱۹۹۷میں بھینسوں کی تعداد۱۸۹لاکھ ۹۶ہزارتھی
جو۲۰۱۲میں بڑھ کر۳۰۶لاکھ ۲۵ہزارہوگئی ۔اسی طرح گائے پہلے ۱۴۱لاکھ ۹ہزارتھیں
لیکن بعدمیں ۲۵۷لاکھ ۱۱ہزارہوگئیں - ہماچل پردیش کے بہت سارے مندروں میں
آج بھی گائے کوظالمانہ طریقے سے ذبح کیاجاتاہے۔انڈیامیں پہلاباقاعدہ
سلاٹرہائوس کسی مسلمان نے نہیں بلکہ بنگال کے گورنر روبرٹ کلائیونے ۱۷۶۰میں
کلکتہ میں بنوایاتھا۔یہاں ۳۰ہزارجانورروزانہ ذبح ہوتے تھے ۔ا س کے بعدمدراس
اورممبئی نیزملک کے دیگرعلاقوں میں ۱۹۱۰میں سلاٹرہائوس بنائے
گئے۔رجسٹرارجنرل آف انڈیاکی جانب سے جاری ایک رپورٹ کے مطابق گوشت خوری
میں تلنگانہ کاپہلانمبرہے یہا ں98.8 گوشت کھانے والے لوگ ہیں۔ا س کے
بعدمغربی بنگال،آندھراپردیش ،اڑیسہ ،کیرلہ ،سکم اورمیزوریم وہ ریاستیں ہیں
جہاں لوگ سب سے زیادہ گوشت کھاتے ہیں۔
ان سب حقائق کوسامنے رکھیے اوراپناجائزہ لیجیے کہ آخرآ پ
خودکوکیوںموردالزام ٹھہرارہے ہیں اورکیوں دفاع پردفاع کرتے جارہےہیں،ردعمل
پرآمادہ کیوں نہیں ہوتے ۔حکومت اگرپابندی لگانا چاہتی ہے توشوق سے لگادے ۔
مسلمانوں کانقصان اس میں قطعی نہیں ہوگاہاں ان سلاٹرہائوسو ںمیں زیادہ
ترمسلمان ملازم ہیں وہ ضرورکچھ دن کے لیے بےروزگارہوجائیں گے مگرکچھ دن
بعدان کے لیے راستہ نکل آئے گا۔گوشت کے تاجرمسلمانوں کے لیے ضروری یہ ہے
کہ وہ اپنی قانونی کارروائی پوری کریں بصورت دیگران پراسی طرح کے حملے ہوتے
رہیں گے ۔ہمیں جب معلوم ہے کہ ہمارے سرپر’’دشمن‘‘مسلط ہے وہ کوئی بھی بہانہ
بناکرہم پرحملہ آورہوسکتاہے توہم کیوں اپنے گھرکومضبوط نہیں بناتے ،دشمن
پرلعنت کیوں بھیجتے ہیں ؟
|