تعارف و تبصرہ : وصیل خان
نام کتاب : تشکیک سے تفہیم تک ( تنقیدی اور تحقیقی مضامین )
مصنف : ڈاکٹر محمد کلیم ضیاء
صفحات : 320 قیمت : 194
رابطہ : موبائل : 9892933626
عجیب بات ہےکہ ہمارے بیشتر ناقدین ادب ، تجزیہ کار اور محققین کا یہ وطیرہ
رہا ہے کہ انہوں نے زیادہ تر ان اہل علم و ہنر اور اہم شخصیات پر خامہ
فرسائی کی ہے جن کی شہرت چہار دانگ پھیلی ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ میر ،غالب
اور اقبال پر جتنے کام اب تک کئے جاچکے ہیں نسبتا ً دوسرے اور خاص طور سے
نئے صاحبان قلم اس سے یکسر محروم ہی رہے ہیں ۔بڑے شہروں اور علاقوں میں
بسنے والے اہل قلم تو اس قابل سمجھ لئے جاتے ہیں کہ ان پر اور ان کے فن پر
بسیط تبصرے کئے جائیں لیکن دورافتادہ گاؤ ں اور چھوٹے قصبات میں قیام پذیر
وہ شعرا ء و ادبا ء محض اس لئے محروم رہ جاتے ہیں کہ وہ دور افتادہ ہیں اور
شہرت ان تک نہیں پہنچ سکی ہے ، چاہے فن اور ہنر آفرینی میں وہ کتنے ہی
مشاق کیوں نہ ہوں ۔مشاہدے میں یہ بھی آرہاہے کہ اس میدان میں چاپلوسی اور
پی آراو شپ کا بھی عمل دخل بڑھتا جارہا ہے جس نے ’دودھ کا دودھ اور پانی
کا پانی ‘ والے محاورے کو غلط ثابت کردیا ہے ۔محترم تسنیم فاروقی نے شائد
اسی طرز فکر کی طرف اپنے شعر میں اشارہ کیا ہے ۔
فن مصلحت وقت کے قدموں میں پڑا ہے مخصوص اشاروں پہ قلم ٹوٹ رہے ہیں
ہمارے ناقدین کا یہ ایک ایسا غیر صحت مندانہ طریقہ ٔ کار رہا ہے جس کے سبب
نہ جانے کتنی معتبر اور معیاری شخصیات اپنے اہم ترین کارناموں سمیت پردہ ٔ
خفا میں چلی گئیں جس سے زبان و ادب کو ناقابل تلافی نقصانات کا سامنا کرنا
پڑا ’’ تشکیک سے تفہیم تک ‘‘ ڈاکٹر محمد کلیم ضیاء کی ایک ایسی ہی تنقیدی
تصنیف ہے جس میں زیادہ تر ان شعراء کا انتخاب کیا گیا ہے جن سے ناقدین ادب
نے عموماً اغماض کی روش اختیار کی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان اہل قلم نے
اپنے اپنے دائرہ ٔ کار میںرہ کر نہ صرف علو م و فنون کی آبیاری کی بلکہ
ایک روشن چراغ بن کر جہل کی تاریک راہوں کو منور کرتے رہے لیکن شومی ٔ
تقدیر کہ رفتہ رفتہ وہ ہماری یادداشتو ں سے اوجھل ہوتے جارہے ہیں ۔اس کتاب
کو اس لحاظ سے بھی بہ نظر استحسان دیکھنا چاہئے کہ اس کے ذریعے ماضی کے
اندھیروں میں گم ہوتی جارہی کئی اہم شخصیات کے خدو خال پھر سے واضح و تازہ
کردیئے گئے ۔جہاں تک تنقید و تحقیق کا سوال تو اس میں مصنف نے کامیابی ضرور
حاصل کی ہے لیکن جزوی ، کلی طور پر اس لئے نہیں کہ اس میں تنقیدی اور
تحقیقی عناصر کا فقدان ہے ، گہرائی و گیرائی کی معدومیت نے کتاب کو تذکرہ
نگاری کی کتاب بنادیا ہے ۔ڈاکٹر صاحب داغ دہلوی کے تعلق سے رقمطرا ز ہیں
۔’’ مغلیہ سلطنت کے زوال کے قریبی زمانے میں لال قلعہ میں داغ دہلوی کی
آمد ہوئی جہاں وہ پلے بڑھے اور پروان چڑھے ۔ان کی زندگی رنگینیوں میں گزری
، ان کی شاعری میں اس کی جھلکیاں ملتی ہیں ۔ داغ کی شاعری میں ہوس ناکی ،
لذت پرستی اور جنسیت کی فراوانی ہے اس کے باوجود بہت کم ایسے اشعار ہوں گے
جہاں وہ تہذیب کے دائرے سے باہر ہوئے ہوں ۔اپنے عہدکی اعلیٰ اقدار کا انہوں
نے پورا پورا لحاظ رکھا ۔‘‘
اس اقتباس میںبیانیہ دو الگ الگ سمتوں سے متصادم نظر آتا ہے ۔ایک طرف یہ
خیال کہ داغ کی شاعری میں ہوس ناکی ، لذت پرستی اور جنسیت کی فراوانی ہے ،
وہیں دوسری طرف یہ تصور کہ انہوں نے اپنے عہد کی اعلیٰ تہذیبی اقدار کا
پورا پورا لحاظ رکھا ہے ۔ کیا یہ دونوں تصورات باہم متصادم نہیں اور ایک
دوسرے کی نفی نہیں کرتے ۔اس کے باوجود کتاب کے متعدد مضامین ایسے ہیں جن پر
اہل علم کی نظریں ٹھہریں گی اور معانی و مفاہیم کے جو لعل و جواہر انہوں نے
تلاش کئے ہیں ان سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ۔ نقد و تحقیق پر آپ کی ایک
اور کتاب ’ ادراک و امکان کے درمیان ‘ ہمارے مطالعے سے گزرچکی ہے ۔ڈاکٹر
صاحب کا اشتراکیت پر مطالعہ وسیع ہے اس کتاب میں بھی انہوں نے ساحر
لدھیانوی کے حوالے سے نہایت معلومات افزا گفتگو کی ہے ۔ کتاب میں کل ۲۸؍
مضامین ہیں جس کے ذریعے مصنف نے ادب میں ایک طرح سے اضافہ کیا ہے کہ بہت سے
ایسے نام اور ان کے فن سے انہوں نے قارئین کو واقف کرایا ہے جو تقریباً
پردہ ٔ خفا میں چلے گئے تھے اور آج ان کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ایک اہم
بات یہ بھی کہ مصنف نے اپنی باتیں نہایت نرم ولطیف پیرایہ ٔ اظہار میں بیان
کی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ان کی زبان میں روانی اور شیرینی کے ساتھ ایک خاص
قسم کی برودت اور آسودگی کا احساس پایا جاتا ہے جو قاری کا دامن ہمہ وقت
تھامے رہتا ہے ۔ کتابت و کمپوزنگ کی بے تحاشا غلطیاں اب تو سر چڑھ کر بولنے
لگی ہیں آج کوئی کتاب اس صفت سے خالی نہیں نظر آتی ۔صفت اس معنی میں کہ
فی زمانہ یہی چلن شاید تسلیم کرلیا گیا ہے اور اب عیب بھی صفت کے ہم معنی
بنادیا گیا ہے ۔اس کتاب میں بھی یہ صفت نمایا ں طور پر اپنا حق حاصل کئے
ہوئے ہے ۔مثال کے طور پر صفحہ ۲۸۶کا یہ جملہ ہم درج کررہے ہیں جس میں کوزے
کو قوزے تحریر کیا گیا ہے ۔’ غزل کے شعر میں شاعر دریا کو قوزے میں بند
کردیتا ہے‘ ۔اسی قبیل کی بہت سی غلطیاں ہیں جو کتاب میں موجود ہیں جن کا
ذکر ہم موقوف کررہے ہیں ۔
اس کے باوجود مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کتاب معلومات افزامضامین ،
شعرا ء کے انتخاب اور ماضی و حال کے شعراء کے فنی تعارف اور ان کے فن پر
نقدو نظر کے لحاظ سےایک قابل مطالعہ کتاب ہے اسے آپ کے مطالعے کی میز پر
ضرور پہنچنا چاہئے ۔
سہ ماہی ہندوستانی زبان ( ممبئی )
سیدعلی عباس اور اطہر عزیز کی ادارت میں ہندوستانی پرچار سبھا کے زیراہتمام
شائع ہونے والایہ شمارہ اپنی متنوع تخلیقات کے اعتبار سے ایک منفرد رسالہ
بن چکا ہے ، صاف ستھری طباعت اور بڑی حد تک اغلاط پر گرفت اس مجلے کی ایک
اور اضافی خصوصیت ہے اس جانب اردو میں شائع ہونے بیشتر رسائل و کتب کے ذمہ
داران کم ہی دھیان دیتے ہیں ۔اس تعلق سے اطہر عزیز صاحب کی ستائش نہ کرنا
نا انصافی ہوگی جن کی باریک بیں نگاہیں ہمہ وقت شمارے کو بہر اعتبار معیاری
بنانے میں مستعد رہتی ہیں ۔ اردو زبان و ادب کے تئیں ہم اردو والوں کی بے
التفاتی اس کی ترویج و ترقی میںبڑی روکاوٹ بنی ہوئی ہے ہمیں اس کسل مندی سے
باہر آنے کی ضرورت ہے ورنہ حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔سید علی عباس نے
ادارتی صفحات میں انہی خدشات کا بڑے فکر مندانہ انداز میں تذکرہ کیا ہے ۔
خوش کن اطلاع انہوں نے یہ بھی دی ہے کہ پرچارسبھا کے دفتر میں اردو کلاسیز
کے شروع ہوتےہی اردو کے شائقین کی ایک بھیڑ امنڈ پڑتی ہے جس میں غیر مسلموں
کی بھی ایک خاطر خواہ تعداد ہوتی ہے یہ زبان کے تئیں ایک خوشگوارمستقبل کی
بشارت ہے ۔ اس شمارے میں ماہر تعلیم اور محب قوم سرسید احمد خان پر ایک
گوشہ شامل ہے جس میں سیدمحمد اشرف ، مظفر حسین سید اور شمع افروز زیدی نے
ان کے مقاصد اور تحریکات کا بارآور جائزہ لیا ہے ۔م ۔ناگ ( مرحوم ) کی
افسانہ نگاری پر اسیم کاویانی کا بے لاگ تجزیہ فن اور فنکار کی روح کو
چھوتا ہو ا محسوس ہوتا ہے ۔’لٹکی ہوئی عورت ‘ م ۔ناگ کا مشہوراور چشم کشا
افسانہ ہے جس میں موجودہ حالات کی سختی اور اس میں ڈوبتی ابھرتی زندگیوں کی
مدبرانہ انداز میں تفہیم کی گئی ہے ۔ شمارے کے دیگر مشمولات بھی توجہ مبذول
کرتے ہیں ۔عقیل ہاشمی ، خالد محمود ، ارتضیٰ نشاط ، شعور اعظمی ، شاہد ندیم
،ارمان نجمی ، ذکی طارق ، رتن سنگھ اور دیپک بدکی وغیرہم کی تخلیقات اس
شمارے میں پڑھی جاسکتی ہیں ۔ ۱۰۰؍روپئے کے سالانہ صرفے سے آپ بھی اس شمارے
سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں ۔مدیر سے رابطے کا نمبر: 022-22812871
ماہنامہ خضر راہ ( الہ آباد )
مادیت کے اس دور میں جہاںسب کچھ دستیاب ہے لیکن دل کا سکون عنقا ہوتا جارہا
ہے ۔اس کی بازیافت کیلئے ہم ہزار جتن کرتے ہیں لیکن اس کا حصول نہ صرف مشکل
ہوتا جارہا ہے بلکہ رنج و الم کا اندھیرا مزید گہرا ہوتا جارہا ہے ۔المیہ
یہ بھی کہ اس کی تلاش میں ہم پھر اسی مادیت کے جال میں الجھ جاتے ہیں ۔خضر
راہ سکون و عافیت کی اسی جستجو میں آپ کی معاونت کرتا ہے ،خالص اور بے
آمیز تصوف سے وابستگی ، اللہ اور اس کے رسول ؐکی تابعداری میں ہی وہ سکون
مضمر ہے جسے ہم کہیں اور تلاش کررہے ہیں ۔ ا س رسالے میں گھر کے ہر فرد
کیلئے فکری رہنمائی اور روحانی تسکین کا سامان موجود ہے ۔فطرت کے تقاضے کیا
ہیں اسے سمجھنے کیلئے ہمیں قرآن اور احادیث مبارکہ سے رہنمائی ملتی ہے اور
یہی رہنمائی دنیا و آخرت کیلئے باعث سکون و نجات ہے ، ادارتی صفحے میں
مدیر نے اسی فلسفے کی تفہیم آسان اسلوب میں کی ہے ۔دنیا میں کیسے رہا جائے
کہ ہماری زندگیاں سکون و عافیت سے معمور ہوجائیں اور ہمارا وجود دوسروں
کیلئے سرتا پا رحمت بن جائے اس کیلئے اولیائے کرام کے حالات سے مکمل مددمل
سکتی ہے ۔نور اسلاف ، حکایات مشائخ ، نورشخصیت ، نور سیرت ، عرفانی مجالس
جیسے مضامین مشعل راہ بنے ہوئے ہیں ۔اس کے علاوہ مجلے کے دیگر مشمولات کسی
نہ کسی پیمانے پر آپ کے معاون و مددگار ہوں گے ۔قلم کاروں میں ذیشان احمد
مصباحی ، ڈاکٹر جہاں گیر حسن مصباحی ، اصغر علی مصباحی ، ضیاءالرحمان علیمی
، ارشاد عالم نعمانی ، اختر تابش سعیدی اور رفعت رضا نوری شامل ہیں ۔ساتھ
ہی سلف صالحین کی تحریریں انتہائی دلکشی کے ساتھ جلوہ افروز ہیں ۔ مجموعی
طور پر یہ مجلہ اپنے دامن میں حیات بخش مضامین کا ایسا ذخیرہ لئے ہوئے ہے
جس کی رہنمائی میں مادیت کے شکنجے سے بہ آسانی نکلا جاسکتا ہے ، بشرطیکہ
۰۰۰ مدیر سے رابطہ : 9312922953۔
(مبصرسے رابطہ : الثنا بلڈنگ M/39 احمدزکریا نگر باندرہ ( ایسٹ ) ممبئی
51موبائل :9004538929)
|