ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی اورشبلیات کی تعریب و توسیع

مدیرماہنامہ’’ترجمانِ جمعیۃ‘‘دہلی
شبلی -ایک شخص،ایک ادارہ:
علامہ شبلی نعمانی(1857-1914) انیسویں صدی کے ہندوستان کاایک ایسانام ہے،جس کی تاریخی علمیت،فکری بلندقامتی،ادبی و تنقیدی بصیرت، علمی برتری،تہذیبی آگاہی اور مطالعاتِ اقوام ومذاہب کے باب میں امتیازی شناخت تب سے لے کراب تک قائم ہے،اُنھوں نے بطورِخاص اردوکتب خانے کوایسی قیمتی تصنیفات سے مالامال کیا،جن کی نظیرنہیں ملتی،حقیقت یہ ہے کہ شبلی نعمانی اپنی بے پناہ خدمات اور حصولیابیوں کی بناپرتنِ تنہاایک عہد ہیں، ایک ادارہ ہیں،ایک انجمن ہیں اورایک اکیڈمی ہیں۔قدرت نے اُنھیں ایسے اساتذہ،پھررفقاے کاراورماحول سے نوازا،جنھوں نے مل کر ان کے علمی و فکری ذوق کی آبیاری کی اورعنفوانِ شباب سے ہی ان کی تصنیفی صلاحیت،فکری تعمق اور گیرائی کے نمونے سامنے آنے لگے۔انھوں نے علم و ادب ، نقدونظر، تاریخ وتہذیب اور فکروفلسفہ کے بیشتر موضوعات کواپنی قلم را نی کاموضوع بنایااوران میں سے ہرایک کاحق اداکیا۔
شبلیات کی توسیع-ایک اہم علمی ضرورت:
شبلی کی تمام تر تصانیف اپنی غیر معمولی علمی،ادبی،فکری و تحقیقی اہمیت کے پیش نظر اس بات کی متقاضی تھیں کہ ان کا مختلف زبانوں،بطورِ خاص عربی زبان میں ترجمہ کیاجاتا اور انھیں علمی دنیا میں پھیلانے کی کوشش کی جاتی۔دبستانِ شبلی سے وابستہ اہلِ علم و نظر افراد کی کمی نہیں ہے اور یہ ایک خوش آیند حقیقت ہے کہ شبلی نے اپنے پیچھے باکمال شاگردوں اور عقیدت مندوں کی جو کھیپ چھوڑی تھی،اس میں بعد کے زمانوں میں اضافہ ہوتا رہا اور سید سلیمان ندوی ، مولانامسعود علی ندوی، علامہ حمیدالدین فراہی،عبدالسلام ندوی، شاہ معین الدین ندوی ،مولاناعبدالباری ندوی،مولاناریاست علی ندوی،مولاناابوالحسنات ندوی،سیدصباح الدین عبدالرحمن اور دورِ حاضر میں مولاناضیاء الدین اصلاحی،ڈاکٹرمحمد الیاس اعظمی اور پروفیسراشتیاق احمدظلی سمیت دارالمصنفین کے دیگر ذمے داران ،رفقاومحققین نے ان کے علمی و تحقیقی مشن کو پوری تندہی سے رواں دواں رکھا۔البتہ شبلی کی تصانیف کے ترجمہ پر خاطر خواہ توجہ اب تک نہیں دی گئی ہے،یہ الگ بات ہے کہ ملک و بیرونِ ملک کے اربابِ علم و تحقیق اور شبلیات سے دلچسپی رکھنے والے متعددافراد نے اپنے طورپران کی تصانیف،رسائل اور مقالات کودسیوں زبانوں میں منتقل کیاہے؛چنانچہ اب تک ان کی تصانیف ومقالات کاایک معتدبہ حصہ انگریزی، بنگالی، پشتو، تاجک، ترکی، تمل، کنڑ، ملیالم، مراٹھی اورفارسی و عربی زبانوں میں منتقل کیا جاچکاہے۔
شبلیات کی توسیع واشاعت میں سرگرم کردارادا کرنے والے باتوفیق افراد میں سے ایک ہمارے استاذِگرامی قدر، خطۂ اعظم گڑھ کے ہی ایک باکمال فرداورعربی زبان وادب و تحقیق کے فاضل ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی (اسسٹنٹ پروفیسرشعبۂ عربی، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی) بھی ہیں،انھوں نے اب تک شبلی کی کئی اہم تصانیف،مقالات اور رسائل کا عربی ترجمہ کرنے کے ساتھ شبلیات پر لکھے گئے بعض اہم علمی، تحقیقی و تنقیدی مقالات کوعربی کے قالب میں ڈھال کر عام کیا ہے ۔
ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی-علمی سراپا،عملی سرگرمیاں:
ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی ہمارے عہد کے ان گنے چنے لوگوں کی صف میں نمایاں ہیں،جو پوری یکسوئی،دلجمعی اور دیدہ وری کے ساتھ علمی،ادبی و تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف ہیں،21؍اگست1977ء کوپیدا ہوئے،فضیلت تک کی تعلیم ہندوستان کی معروف دینی وعلمی دانش گاہ مدرسۃ الاصلاح سرائے میر سے حاصل کی،اس کے بعد عربی زبان و ادب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے جامعہ ملیہ اسلامیہ ،دہلی سے وابستہ ہوئے اور1999ء میں گریجویشن مکمل کیا،2001ء میں جواہرلال یونیورسٹی سے پوسٹ گریجویشن اور 2007ء میں وہیں سے ایک منفرداور اہم عنوان ’’ترجمات معاني القرآن الانجلیزیۃ:دراسۃ تحلیلیۃ ونقدیۃ‘‘پرگراں قدر مقالہ لکھ کرپی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی،یہ اعلیٰ ترین تحقیقی وتنقیدی مقالہ بعد میں مکتبہ توبہ سعودی عرب سے کتابی شکل میں بھی شائع ہوا اور ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، اس کا انگریزی ترجمہ بھی عن قریب مکمل ہونے والاہے۔ ڈاکٹراعظمی کی باقاعدہ عملی سرگرمیاں 2003ء سے شروع ہوئیں،تب سے 2008ء تک جواہر لال یونیورسٹی میں گیسٹ لیکچرر رہے، 2009ء میں وشوبھارتی یونیورسٹی مغربی بنگال میں عربی ، اردو،فارسی اور اسلامیات کے شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسرہوگئے اور وہاں مسلسل پانچ سال تک تدریسی خدمات انجام دیں،2014ء میں ان کا تقرر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ عربی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر ہوا اور تب سے اب تک یہاں درس و تدریس میں مشغول ہیں،2015ء میں عربی و اسلامی علوم میں نمایاں خدمات کے عوض صدرجمہوریہ ایوارڈ سے بھی نوازاجاچکاہے۔عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں سرگرم صحافتی رول بھی اداکررہے ہیں اور ان کے قیمتی ادبی وتحقیقی مقالات ملک و بیرونِ ملک کے مختلف اہم رسائل و مجلات میں شائع ہوتے رہتے ہیں،اس کے علاوہ ان کی ادارت میں 2009ء سے مولاناآزادآئیڈیل ایجوکیشنل ٹرسٹ، بولپور، مغربی بنگال سے ایک وقیع عربی میگزین ’’مجلۃ الہند‘‘شائع ہورہاہے،جس کا2014-15ء میں شبلی صدی کے موقع پر کم و بیش چودہ سو صفحات پر مشتمل دوضخیم جلدوں میں’’ شبلی نمبر‘‘ شائع ہوکر عالمی پیمانے پر مقبولیت حاصل کرچکاہے،ساتھ ہی جنوری2016ء سے ’’دی انڈین جرنل آف عربک اینڈاسلامک اسٹڈیز‘‘کے نام سے ایک سہ ماہی انگریزی مجلہ بھی نکال رہے ہیں اور یہ بھی اربابِ علم و نظر کے طبقے میں مقبول ومتداول ہے۔ڈاکٹراعظمی کی باضابطہ تصنیفی و تالیفی سرگرمیوں پر گوکہ بہت زیادہ مدت نہیں گزری ہے ،مگران کے سیال قلم سے اب تک پچاس سے بھی زائدقیمتی تصنیفات ،تالیفات،تراجم وغیرہ منظرِ عام پر آچکے ہیں،ان کی کئی کتابیں ہندوستان کے علاوہ سعودی عرب ،لبنان ،شام ، پاکستان اوربرطانیہ وغیرہ کے موقر اشاعتی اداروں سے شائع ہوئی ہیں،ان کے علاوہ دوسو سے زائد مختلف علمی،ادبی،تحقیقی و اسلامی موضوعات پر ان کے مقالات ہندوبیرونِ ہندکے عربی اخبارات و رسائل میں شائع ہوچکے ہیں،تعلیمی اداروں کی غیرعلمی سرگرمیوں سے مکمل انقطاع اور خلوت نشینی و یکسوئی کے ساتھ اپنی علمی و تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف رہنا ڈاکٹر اعظمی کی خاص شناخت ہے،مطالعہ وکتب بینی سے بے پناہ شغف ، علمی ذوق کاوفور، ادبی ہنرمندی اورتحقیقی انہماک کے حوالے سے ان کی ذات بلاشبہ قابلِ رشک ہے۔مختلف اکابراہلِ علم و فکر کی تصانیف اوران کے افکار و سوانح کو عربی زبان میں منتقل کرنا ان کا ایک خاص نصب العین ہے اوراس کے تحت وہ کئی اہم اہلِ علم و فضل مثلاًعلامہ محمد فاروق چریاکوٹی،مولانافیض الحسن سہارنپوری، مولاناغلام علی آزادبلگرامی،علامہ حمیدالدین فراہی،قاضی اطہر مبارکپوری، علامہ ابومحفوظ الکریم معصومی، مولاناصدرالدین اصلاحی، مولانا امین احسن اصلاحی،مولانا محمود حسن قیصر امروہوی، پروفیسر وزیر حسن، پروفیسر فیضان اﷲ فاروقی وغیرہ میں سے بعضوں کے سوانح اوربعضوں کی تصنیف کردہ مختلف کتابوں کاعربی ترجمہ کرچکے ہیں۔عربی شاعری کا بھی اعلیٰ ذوق رکھتے ہیں اور ان کے متعدددلچسپ عربی قصائداس پر شاہدِ عدل ہیں،ہندوستان کے عربی شعراپرانھوں نے ایک منفرداوروقیع کام کیاہے ،چھ سو صفحات پرمشتمل ہندوستان کے پانچ سوعربی شعراکی ڈائریکٹری’’الطلح المنضودفي شعراء العربیۃ الہنود‘‘ تیارکی ہے،ان میں مرحومین و موجودین سبھی شامل ہیں اور ڈاکٹراعظمی نے ان شاعروں کی محض فہرست مہیانہیں کی ہے؛بلکہ نام کے ساتھ ان کے کلام کے نمونے بھی درج کیے ہیں۔
ترجمہ کافن اور ڈاکٹراورنگ زیب کی ترجمہ نگاری:
کسی بھی زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مترجم دونوں زبانوں میں مہارت رکھتا ہو،دونوں زبانوں کے اسالیبِ بیان، استعارات ، کنایات،تشبیہات واشارات اور تعبیرات کی مختلف شکلوں سے نہ صرف آگاہ ہو؛بلکہ انھیں برتنے کے مواقع سے بھی کماحقہ واقف ہو،آج کے عہد میں ایک مترجم کے لیے یہ بھی ضروری سمجھاجاتا ہے کہ اصل متن کاایسا ترجمہ کیا جائے،جو نہ مکمل لفظی ہوکہ اس میں الجھاؤاور پیچیدگی پیدا ہوجائے اور نہ بالکل ہی آزاد ہوکہ متن کی روح بھی باقی نہ رہے،علمی،ادبی و لسانی دیانت داری کابھی ترجمہ نگاری میں خاصا حصہ ہے؛کیوں کہ بسااوقات مصنف کے لکھے گئے لفظ کااصل مفہوم کچھ ہوتااور مترجم کچھ اور لکھ دیتا ہے،اس سے صاحبِ تحریر کی مراد تومشتبہ ہوتی ہی ہے،اس کے ساتھ ساتھ معنی کے بگڑنے یاعلمی و ادبی سقم کے پیداہونے کاساراالزام بے چارے مصنف کوجھیلنا پڑتاہے؛لہذامترجم کے لیے صاحبِ علم ہونے کے ساتھ اس باب میں اس کا امین و دیانت دار ہونا بھی ضروری ہے۔ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی دونوں زبانوں میں نکتہ ورانہ صلاحیت کے حامل ہیں، اب تک کئی کتابوں اورپچاسوں علمی و ادبی مقالات کا عربی ترجمہ کیا ہے، جنھیں پڑھ کر اندازہ ہوتاہے کہ انھوں نے ترجمہ کے فن کوتمام تراصول وضوابط کالحاظ رکھتے ہوئے اور مکمل مہارت،دیانت اور علمی بصیرت کے ساتھ برتا ہے، ان کے ترجموں میں نہ تو پیچیدگی ہے،نہ ابہام ہے،نہ اصل عبارت اور صاحبِ تصنیف وتحریرکی مرادکوخلط ملط کیا ہے اور نہ اپنی طرف سے رنگ آمیزی کی ہے۔ان کے ترجمے کی خاص بات سلاست،شفافیت اور ادبی لطافت ہے۔جیساکہ مذکورہواانھوں نے دسیوں اہلِ علم کی تحریروں کوعربی کے قالب میں ڈھالا ہے،مگر انھیں شبلی اور شبلیات سے خاص شغف ہے ؛ چنانچہ ان کے ذریعے اب تک شبلیات کے قابلِ ذکر حصے کاعربی ترجمہ ہواہے ،ذیل کے صفحات میں ہم انہی تراجم اوران کے متون کا مختصرتعارف پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔
الحرکۃ العلمیۃ وکیف طورہا الإسلام:
اسلام کا آغازہی تعلیم و تعلم کے ربانی تصور سے ہواہے،سواسلام دنیا میں علوم و فنون کی ترویج و اشاعت کے سب سے بڑے داعی کے طورپر ابھرااوراس نے مختلف ادوار میں علوم و فنون کی بیش بہاخدمات انجام دی ہیں،نبی اکرمﷺکی سرپرستی و نگرانی میں مختلف علوم کی داغ بیل پڑی اور اس کے بعد مختلف اسلامی حکومتوں نے اپنے اپنے دور میں ان میں اضافے کیے،خلفاے بنوعباس کا عہد اس اعتبار سے بڑا ترقی یافتہ اور مشہور سمجھا جاتا ہے کہ اس عہد میں نہ صرف عربی واسلامی علوم و فنون کی شاخوں کو پہلے سے زیادہ ثمر بار کیاگیا؛بلکہ اس کاایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس عہد میں اُس وقت دنیا میں پائے جانے والے دیگر بے شمار علوم و فنون کو بھی اپنا نے،ان کا ترجمہ کرنے اور ان کو فروغ دینے کا مضبوط سلسلہ شروع ہوا،خود مسلم علما،ادبا،مفکرین و محققین اور سائنس دانوں کی ایک ایسی بڑی کھیپ سامنے آئی،جس نے نئے نئے موضوعاتِ علم و فکر و تحقیق کا اکتشاف کیا اور ان کی پرتوں کودنیا والوں کے سامنے کھولا۔کم و بیش ہزار سالہ عروج کے بعد جب مغربی تہذیب و اقوام کی ترقی و عروج کا دور شروع ہوا،تواس میں محض تعصب اور جانب داری کی وجہ سے دیگر خدمات کے ساتھ اسلام کی علمی خدمات پربھی خطِ نسخ پھیرنے کی کوشش کی جانے لگی،اسی احساس کے زیر اثراور سرسیداحمد خاں مرحوم کی تحریک پر علامہ شبلی نعمانی نے پچاسوں علمی،تاریخی اور سوانحی تصانیف سے رجوع کرکے’’مسلمانوں کی گزشتہ تعلیم‘‘پر نہایت عرق ریزی،دیدہ وری اورجاں فشانی کے ساتھ یہ قیمتی تحقیقی مقالہ تحریر کیا،جومسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے دوسرے اجلاس (منعقدہ 27؍دسمبر1887ء،لکھنؤ)میں پڑھاگیا،لوگوں نے اسے غیرمعمولی ستایش وتحسین کی نگاہ سے دیکھا اور انھیں محسوس ہوا کہ شبلی نے بر وقت مسلمانوں کی علمی تاریخ پرکیے جانے والے اشکالات و شبہات کا ازالہ کیا ہے ،پھر اس کی افادیت کو مزید عام و تام کرنے کی غرض سے اسے مستقل کتابچے کی شکل میں شائع کیا گیا ۔اب یہ مقالہ’’ مقالاتِ شبلی ‘‘کی تیسری جلد میں شامل ہے۔
اس مقالے میں علامہ نے قرآن و حدیث کے مقام و مرتبہ پر گفتگو کرنے کے ساتھ مسلمانوں کی علمی تاریخ میں ان کی اہمیت و عظمت پر پرمغزکلام کیا ہے، اس کے بعدعلمِ کلام،بیان و بلاغت،منطق و فلسفہ،طب،ادب و شعروغیرہ میں مسلمانوں کی گراں قدر خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے ،ان علوم و فنون کی نشان دہی کی گئی ہے،جنھیں خاص مسلمانوں نے ایجاد کیا،عباسی دور میں سائنس اور فلسفہ کے حوالے سے مسلمانوں کی گراں قدر خدمات اور یونانی و سنسکرت اور دیگر مختلف زبانوں کے علوم کوعربی میں منتقل کیے جانے کی تحریک پر روشنی ڈالی گئی ہے،ابتدائی صدیوں میں مملکتِ اسلامی کے مختلف خطوں میں قائم ہونے والے مدارس،دارالعلوموں کی خدمات کا تفصیلی تذکرہ کیا گیاہے،ان اداروں کے ذمے داروں،اساتذہ اور وہاں سے فارغ ہوکر نکلنے والے ان افراد کا ذکر کیاگیا ہے،جنھوں نے مستقبل میں علم و تحقیق اور فکر و تدقیق کے شعبے میں اپنی خدمات کے حوالے سے عالمی شہرت حاصل کی اور جن کے نام اور کام اب بھی معروف و مشہور ہیں،آپ نے ثبوتوں اور شواہد کی روشنی میں لکھا ہے کہ علوم و فنون کی ترویج و اشاعت میں اسلامی حکومتیں خاص دلچسپی کا مظاہرہ کرتی تھیں اوراربابِ علم کے لیے خصوصی وظائف کا انتظام کیا جاتا تھا؛تاکہ وہ مسائلِ معاش سے مستغنی ہوکر پوری دلجمعی کے ساتھ اپنے علمی مشاغل کو سرانجام دیں اور مسلمانوں کی علمی تربیت و تہذیب میں مصروف رہیں۔
ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی نے اس اہم ترین علمی ،تاریخی و تحقیقی مقالے کا عربی ترجمہ کرکے ایک اہم ضرورت کی تکمیل کی ہے،انھوں نے نہایت شستہ اور سلیس اسلوب میں ترجمہ کرنے کے ساتھ ضرورت کے مطابق ذیلی عناوین بھی لگائے ہیں،یہ ترجمہ’’الحرکۃ العلمیۃ وکیف طورہا الإسلام‘‘کے نام سے مستقبل کتابی صورت میں ’’دارالکتب العلمیہ‘‘بیروت سے زیرِطبع ہے ۔فاضل مترجم نے اصل کتاب سے پہلے اس کے اردومتن کے تعارف و تجزیہ پر مشتمل ڈاکٹرظفرالاسلام اصلاحی کے مقالے ’’علامہ شبلی کے ایامِ علی گڑھ کی اولین تصنیف ‘‘(ط:معارف ،شبلی نمبر،نومبر-دسمبر2014ء)کاترجمہ بھی شامل کردیا ہے ؛ تاکہ قارئین کتاب کے پس منظراوراس کے علمی قامت ومعنویت سے بخوبی طورپر واقف ہوسکیں۔ موضوع کی اہمیت اور مقالے کے مشمولات کی وقعت اس بات کی متقاضی ہے کہ طالب علم ہی نہیں،ہر محقق اور عالم کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے اور اسے اپنے پاس رکھنا چاہیے،اس سے تاریخی معلومات میں بھی اضافہ ہوگا اورماضی کے روشن کارناموں سے تحریک پاکر حال میں کچھ کرنے کا جذبہ بھی پیدا ہوگا۔
المأمون:
تاریخ اور نامورانِ اسلام سیریزکی شبلی نعمانی کی یہ پہلی باقاعدہ تصنیف ہے ،جو علی گڑھ میں ملازت کے ابتدائی دنوں میں لکھی گئی ۔اردومیں بھی اس کانام ’’المامون‘‘ہے اور ڈاکٹر اورنگ زیب اعظمی کاعربی ترجمہ بھی ’’المامون‘‘ہی کے نام سے طبع ہواہے۔یہ کتاب دوحصوں میں منقسم ہے ،پہلے حصے میں انہی احوال وواقعات کاذکرہے ،جوعموماً اس قسم کی کتا بوں میں بیان کیے جاتے ہیں،مامون کی زندگی کے تمام ترسانحات کونہایت ہی حزم و احتیاط سے بیان کیاگیاہے اوراس سلسلے میں شبلی نے ابن جریرطبری،مسعودی،واقدی،ابن الاثیرجزری،ابن خلدون،ابوالفداء،ذہبی،ابن قتیبہ اور بلاذری وسیوطی وغیرہ عرب مؤرخین کی کتابوں کے ساتھ مغربی مصنفین میں گبن،کارلائل،بکل اورہیگل وغیرہ کی تصانیف کوبھی پوری باریک بینی سے پڑھا ہے،ہرتالیف میں ان کایہ طریقہ رہاہے،جس کی وجہ سے ان کی تحریروں میں مستندمعلومات اور جدیدطریقۂ استنتاج وطرزِنگارش کے بہترین نمونوں کے ساتھ مغربی مؤرخین کے سہووتعصبات پرمعقول گرفت بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔
اس حصے میں خلافتِ اسلامیہ پراجمالی روشنی ڈالنے کے بعدبنوامیہ و بنوہاشم کی باہمی آویزش اور پھربنوعباس کی سلطنت کے آغازکوبیان کیاگیاہے،اس کے بعدمامون رشیدکی پیدایش،تعلیم و تربیت،اس ضمن میں اس کی بے مثال ذہانت و فطانت اور حاضردماغی کے مختلف واقعات،ہارو ن رشیدکامامون پرحد درجہ اعتمادواعتبار،مامون کی ولی عہدی،مامون و امین کی جانب سے لکھے جانے والی دستاویزات،مامون و امین کے درمیان برپاہونے والے سیاسی اختلافات، نزاعات، معرکے،مامون کی افواج کے ذریعے بغدادکامحاصرہ،امین کاقتل اور مامون کاتختِ خلافت پربراجمان ہونا،مامون کے دورِحکومت میں رونما ہونے والی مختلف بغاوتوں کاذکراورمامون کاان سے بخوبی نمٹنا،مامون کے عہدکی فتوحات اور اس کی وفات کے احوال بیان کیے گئے ہیں۔
دوسرے حصے میں عہدِ مامونی کے سیاسی انتظامات،سماجی حالات،مامون کی نجی و سیاسی زندگی کے نشیب و فراز،اس کے خصائص و عادات،اس کی علمی حیثیت،فکری مبلغ،علم حدیث،تفسیر،فقہ،ایام العرب،ادب،انساب،فلسفہ،شعر وشاعری،ریاضی ،فنونِ لطیفہ وغیرہ میں مامون کی مہارت اوراس کے طرزِزندگی پرتفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے،چوں کہ مامون مصنف کاہیروہے؛اس لیے انھوں نے اس کی زندگی کے ہر واقعے اور ہر پہلو کونہایت وضاحت اوردلائل کے ساتھ پیش کیاہے اوربسااوقات توایسا معلوم ہوتاہے کہ وہ اس ہیروکی خامی کوبھی اپنے زورِبیان اور قوتِ استدلال سے خوبی بناکر پیش کررہے ہیں۔اس حصے کا آغاز بغداد -جوخلفاے بنوعباسیہ کادارالخلافہ تھا-کی سیاسی،سماجی،علمی و جغرافیائی حیثیت پر گفتگوکی گئی ہے،اس کے بعدمامون کے زمانے میں حکومت کے ذرائعِ آمدنی کی تفصیلات کابیان ہے،ملکی آبادی میں امن و امان کی فضاکاعام ہونا،مامون کی بیدارمغزی اور رعایاکے احوال و کوائف سے باخبری،عدل وانصاف کے قیام پر زوراور اقلیتوں کے حقوق کی رعایت وغیرہ کو بیان کیاگیاہے اوراس ضمن میں کئی ایسے واقعات ذکرکیے گئے ہیں،جن سے معلوم ہوتاہے کہ مامون نہایت ہی قابل اور عوامی مفادات کومدنظررکھنے والاحکمران تھا۔شبلی نے مامون کے مذہبی نظریات وافکار کابھی جائزہ لیاہے اوراس ضمن میں اس سے سرزدہونے والی بعض فاش غلطیوں کی نشان دہی کی ہے۔
دوسرے حصے میں مامون کے عہدکی یورپی سلطنتوں کابھی اجمالی جائزہ لیاگیاہے،اس کے علاوہ مختلف سرکاری عہدوں اور مناصب اوران پرمامورہونے والے افرادکی ذمے داریوں کی تفصیلات،مامون اوراس کے اہلِ دربارکے متعدددلچسپ لطائف اوراخیرمیں مامون کے عہدکے بہت سے اہلِ فضل وکمال کا ذکرِجمیل ہے۔ اس کتاب میں شبلی نے واقعات و جزئیات کے نقدوتحلیل کے بعدمختلف موقعوں پر جورائیں قائم کی ہیں،ان سے بعض دفعہ بعض قاری یامؤرخ کو اختلاف بھی ہوسکتاہے؛لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شبلی نے’’ المامون‘‘ کے ذریعے سے اسلامی تاریخِ حکومت وسیاست کی بہترین مرقع نگاری کی ، اردو زبان میں تاریخ نگاری کی انتہائی مہتم بالشان بنیاداٹھائی اور پھر بعدکے تصنیفی مرحلوں میں اسے قوی سے قوی تر کرتے گئے۔
ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی کے ذریعے کیاگیا’’المامون‘‘کاعربی ترجمہ حال ہی میں ’’دارالکتب العلمیہ‘‘بیروت سے شائع ہوا ہے،جسے عربی داں حلقوں میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔ ترجمہ نہایت شگفتہ،سلیس اور خوب صورت ہے،ترجمے کے الفاظ میں بھرپورروانی ہے ،تعبیرات وتراکیب کوبوجھل بنانے سے احترازکیاگیاہے ،جس کی وجہ سے ترجمے میں اصل کتاب کالطف پیداہوگیا ہے، مترجم نے مؤلف کے مقاصدومفاہیم کوفصیح اورواضح زبان میں منتقل کیاہے ،ترجمے کوپڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ فاضل مترجم نے نہایت ہی عرق ریزی سے اصل متن کوکئی بار پڑھااوراس کے بعداسے عربی کاجامہ پہنایاہے،علامہ شبلی نعمانی نے نہایت دقتِ نظری سے تاریخی مآخذتک رسائی حاصل کرکے ان کے حوالے درج کیے ہیں اور جگہ جگہ بعض واقعات یاجزئیات کی توضیح کے لیے حاشیے اورنوٹس بھی تحریرکیے ہیں، مترجم نے ان نوٹس اورحوالوں کومزیداستناداورتصحیح کے ساتھ درج کیاہے ۔کتاب کے شروع میں ’’المامون‘‘ کی تنقیدوتجزیہ پر مشتمل دبستانِ شبلی کے معروف محقق اور صاحبِ قلم سیدصباح الدین عبدالرحمن کے وقیع مقالے(علامہ شبلی کی المامون پر ایک نظر،ط:معارف،جنوری1985ء)کاترجمہ بھی شامل کردیا ہے؛ تاکہ قاری اصل کتاب کوپڑھنے سے پہلے اس کی اہمیت اور قدرومنزلت سے آگاہی کے ساتھ اس کے مشمولات سے بھی اجمالی واقفیت حاصل کرلے۔ مترجم لائقِ صد تبریک وتحسین ہیں کہ ان کے ذریعے ایک طویل عرصے کے بعدہی سہی،’’المامون‘‘کاوقیع ترجمہ ہوا ہے۔
التراث المنقول:
یہ شبلی کے علمی و تحقیقی شاہ کار’’تراجم‘‘کاعمدہ اور قابلِ قدر ترجمہ ہے،تقریباً 115؍صفحات پر مشتمل اپنی نوعیت کا یہ منفرد مقالہ اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنی ترقی اور عروج کے زمانے میں جہاں دنیا والوں پر سماجی و سیاسی شعبوں میں بے شمار احسانات کیے،وہیں علمی وفکری شعبے میں بھی مسلمانوں کے احسانات سے دنیاوالے مستغنی نہیں ہو سکتے۔جب دنیا کی تقریباً تمام اقوام اور تہذیبیں خمول و گمنامی کے دور سے گزر رہی تھیں، مغرب ابھی دورِ تاریکی میں تھا،یونان و روم اسلامی شوکت کے آگے پست ہوچکے تھے اور دوسری اقوام ابھی ترقی کی روشنیوں سے صدیوں دور تھی، تب مسلمانوں نے ماضی میں معرضِ وجود میں آنے والے علمی و فکری وسائنسی ذخائر،تصانیف،تالیفات کو عربی زبان میں منتقل کرکے امر کردیا،اگر ان کتابوں کو عربی زبان میں منتقل نہ کیا جاتا،تویونان کے فلسفہ وحکمت اورعبرانی،سریانی،فارسی،قبطی و سنسکرت زبانوں میں لکھی گئی قیمتی کتابوں کے نام تک محفوظ نہ رہ پاتے۔علامہ شبلی نعمانی نے اپنے اس مقالے میں مغرب کے اس عمومی اشکال کا منہ توڑ جواب دیاہے کہ مسلمان شروع سے علم دشمن رہے اور جہاں بھی ان کے قدم پڑے، وہاں کے علمی آثار کو انھوں نے مٹایاہے،علامہ نے تاریخ کے ناقابلِ انکار دلائل کا سہارا لیتے ہوئے باقاعدہ ان علوم ،زبانوں،تصانیف،مصنفین کی فہرست پیش کی ہے،جن کے آثاراور کارناموں کو مسلمانوں نے مختلف ادوار میں اپنی زبان میں منتقل کرکے محفوظ کیا اورانھیں فروغ بخشا۔
شبلی نے اس مقالے میں عہدِ نبوی سے لے کرمختلف اسلامی حکومتوں میں انجام پانے والے علوم و فنون کے ترجموں کالگ بھگ تشفی بخش جائزہ لیا ہے، ساتھ ہی ہندوستان کی علمی تاریخ اورمعروف مؤرخ و مصنف ابوریحان البیرونی کے ذریعے سنسکرت کی اہم کتابوں کے عربی ترجموں اور ہندوستانی عقائد و فلسفے پران کی متعدد تصانیف کا ذکر کرنے کے ساتھ اکبرکے زمانے میں مہابھارت اور ہندومذہب وفلسفہ کی دیگر اہم کتابوں کے فارسی ترجموں اور فارسی و عربی کتابوں کے سنسکرت ترجموں کی بھی نشان دہی ہے۔ شبلی نے طولِ زمانہ کے سبب زبان اور لہجوں میں تبدیلی کی وجہ سے مختلف عربی تصانیف میں مذکور ہندوستانی اربابِ علم و فضل کے درست ناموں کی شناخت میں دشواری کاحوالہ دیتے ہوئے ان پر تفصیل سے نہیں لکھاہے،البتہ البیرونی کے مختلف تراجم کے علاوہ الفہرست،عیون الانباء اورتاریخ الیعقوبی کے حوالے سے بعض اُن کتابوں کی فہرست درج کردی ہے،جواصلاً سنسکرت میں تھیں اور عربی میں ان کا ترجمہ کیاگیا،ان میں سے زیادہ تر کتابیں طب اور علاج کے مختلف طریقوں پر مشتمل ہیں،کچھ علمِ نجوم وغیرہ پر بھی ہیں۔چوں کہ خاص ہندوستانی تصانیف کے ترجموں کے تعلق سے شبلی نے اختصار سے کام لیاہے؛اس لیے ڈاکٹر اعظمی نے ’’التراث المنقول‘‘ کے شروع میں بطورمقدمہ مولانا ضیاء الدین اصلاحی کے ایک مضمون کا ترجمہ شامل کیا ہے ،یہ ترجمہ بھی انہی کا کیاہواہے ۔ مضمون نہایت علم ریزاور متعلقہ موضوع پر قیمتی تاریخی حقائق سے آگاہی بخشتا ہے،اس مضمون میں خاص طورپر پانچویں،چھٹی صدی ہجری میں ہندوستان اور ہندوستانیوں کی علمی تاریخ،منطق و فلسفہ ، حکمت و اخلاقیات، ریاضیات، طب، ادب، بلاغت،موسیقی اور علمِ نجوم و فلکیات کے باب میں ان کی مہارت اوران تمام فنون کے مختلف ماہرین کے تحقیقی تذکرے کے ساتھ ان کی بعض مشہور تصانیف کی بھی نشان دہی کی گئی ہے،جنھیں عربی زبان میں منتقل کیا گیا ہے۔اسی طرح شبلی نے اپنے مقالے میں اکبر کے ز مانے میں انجام پانے والے ترجمے کے کاموں کی طرف محض اشارہ کیا تھا؛چنانچہ ڈاکٹر اعظمی نے اس تعلق سے بھی ایک قیمتی مقالے(اکبرکادارالترجمہ،مقالہ نگار: ڈاکٹر سید اطہر عباس رضوی) کا ترجمہ اخیرمیں ضمیمے کے طورپرشامل کردیاہے،اس مقالے میں اکبربادشاہ کے’’دارالترجمہ‘‘کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے اس کے زیراہتمام انجام پانے والے مہابھارت، راماین،نیل دمن،راج ترنگنی،کتھاسرت ساگر،کلیلہ دمنہ،لیلاوتی اورمعجم البلدان وغیرہ کے فارسی ترجموں کاتذکرہ کیاگیاہے۔الغرض ڈاکٹر اورنگ زیب اعظمی کے قابلِ قدرعلمی وتحقیقی ذوق و شوق کی وجہ سے متنوع ضروری اضافوں کے بعد علامہ شبلی نعمانی کا یہ مقالہ اپنے موضوع پرپہلے سے زیادہ بھرپور اور جامع تر ہوگیا ہے اور160صفحات کی ضخامت کے ساتھ’’دارالکتب العلمیہ‘‘ بیروت سے جنوری 2017ء میں شائع ہواہے،ترجمے کے ساتھ طباعت کے اعتبار سے بھی کتاب خوب صورت،دیدہ زیب اور نفیس ہے۔
الحجاب في الإسلام:
یہ پندرہ بیس صفحات پر مشتمل علامہ شبلی نعمانی کے ایک تحقیقی مضمون ’’پردہ اوراسلام ‘‘(مشمولہ :مقالاتِ شبلی جلددوم)کا ترجمہ ہے اورپہلی بار’’مجلۃ الہند‘‘کے شبلی نمبرمیں شائع ہواہے۔یہ مضمون فی الحقیقت مولوی امیر علی کے ایک مضمون کے جواب یا اس سے پیداہونے والے شبہات کودور کرنے کے لیے لکھاگیا تھا،اس میں شبلی نے تاریخی حوالوں سے پردہ کی تاریخی حیثیت پر بڑی علم ریز گفتگو کی ہے اورجاہلی و مخضرمی شعرا ربیع بن زیاد عبسی،عمروبن معدیکرب،سبرہ بن عمر فقعسی،نابغہ ذبیانی،عوف،خنساوغیرہ کے مختلف اشعاراور زمانۂ جاہلیت کی عربوں کی تاریخ سے یہ ثابت کیا ہے کہ پردے کا تصور عربوں میں اسلام سے پہلے بھی تھا؛بلکہ بعض زمانی مراحل میں تو عورت ہی نہیں،مرد بھی چہرے پر نقاب ڈالا کرتے تھے۔اس کے بعد اسلام میں اس کے تصور پر بحث کرتے ہوئے قرآن کریم کی پردے کے سلسلے میں نازل ہونے والی آیتوں پرحضرت ابن عباسؓ،ابوعبیدہؓ،ابن کعب قرظیؓ،ابن کثیرؒ، بغویؒ، زمخشریؒ وغیرہ کی تفسیروں اوراقوال و تشریحات سے استدلال کرتے ہوئے اپنے اس دعویٰ کو مبرہن کیاہے کہ پردے کا تصور اسلام سے بہت پہلے بھی عربوں میں پایا جاتا تھا،البتہ اسلام نے اپنی آمد کے بعد اس میں مختلف احوال و اسباب کی بناپرمزید اصلاحات کیں۔ترجمہ سادہ اور واضح ہے،علامہ کے مفہوم و مرادات اور ان کے الفاظ کو کماحقہ عربی الفاظ میں منتقل کیاگیا ہے۔ویسے تو مختلف زمانوں میں اسلام کے تصورِ پردہ پر منفی باتیں ہوتی رہی ہیں،مگر فی زمانہ یہ سلسلہ مزید تیز و تند ہوگیاہے،جس سے اہلِ نظر واقف ہیں،ایسے میں علامہ کا یہ مضمون خاص طورپر پڑھنے کے لائق ہے،دیارِعجم کے عربی داں حضرات اور عرب برادران کے لیے یہ ترجمہ ایک قیمتی علمی تحفہ ہے۔
زیب النساء أشعرشاعرات الہند وأجودکاتباتہا:
یہ بھی بارہ پندرہ صفحات پر مشتمل ایک تحقیقی و تاریخی مضمون کا ترجمہ ہے،اصل مضمون ’’زیب النسابیگم ‘‘کے زیرِ عنوان مقالاتِ شبلی جلدپنجم میں شامل ہے۔ زیب النسامعروف مغل حکمراں اورنگ زیب عالمگیر کی پہلی اولاد تھی،اس کی علمی شہرت،ادبی صلاحیت اور دیانت داری و حسنِ اخلاق کے قصے تو تاریخ میں پائے ہی جاتے ہیں،مگر بدقسمتی سے جس طرح اورنگ زیب کے ساتھ مؤرخین نے نہایت گھناؤنا برتاؤ کرتے ہوئے ان کی زندگی،اخلاق و عادات اور طرزِ حکومت کو مشتبہ کرنے کی کوشش کی اوران پر بے جاالزامات لگائے،اسی طرح ان کی بیٹی زیب النسا سے منسوب بھی کچھ ایسے واقعات مشہورہوکردیے گئے ، جن کا حقیقت سے دورکابھی واسطہ نہیں ہے۔علامہ شبلی نعمانی کوممبئی میں ان کے کسی عزیزنے’’انڈین میگزین اینڈریویو‘‘کاایک مضمون دکھایا،جس میں زیب النساکی زندگی اور سوانح کے بارے میں اسی قسم کی ہفوات لکھی ہوئی تھیں،اس کو پڑھ کر علامہ کو دلی تکلیف ہوئی اور سوچا کہ اس تعلق سے تاریخ کے معتبرحوالوں سے استفادہ کرکے مستند معلومات پر مبنی ایک مضمون تحریر کیا جائے ،اسی فکر کے زیر اثریہ تحریر معرضِ وجود میں آئی۔آپ نے اس مضمون میں زیب النسا کی ولادت ، ابتدائی حالات، تعلیم و تربیت پر روشنی ڈالنے کے ساتھ اس کی علمی و ادبی لیاقت پرٹھوس شہادتوں کی روشنی میں قیمتی معلومات مہیا کی ہیں،علامہ نے لکھا ہے کہ زیب النساکوعلم پروری کا بے پناہ ذوق تھا؛چنانچہ اس کا دربار باقاعدہ ایک اکیڈمی کی شکل اختیار کرچکا تھا،جس میں ہرفن کے علما و فضلابرسرِ کار تھے اور وہ شب وروز تصنیف و تالیف اور تحقیق وترجمے میں مشغول رہتے تھے۔اس ضمن میں ایک قابلِ ذکر بات علامہ نے یہ لکھی ہے کہ اس اکیڈمی سے جوبھی کتابیں شائع ہوتی تھیں ،ان کے مرتب و مصنف جوبھی رہیں،ان کانام زیب سے شروع ہوتا تھا،اس کی وجہ سے بہت سے مؤرخین کو شبہ ہوا اورانھوں نے بعض ان کتابوں کو بھی زیب النساسے منسوب کردیا،جو گرچہ اس کی نگرانی میں لکھی گئی تھیں،مگر وہ ان کی مصنفہ نہیں تھی۔ انہی کتابوں میں سے ایک’’ تفسیرکبیر‘‘ کا فارسی ترجمہ’’ زیب التفاسیر‘‘ بھی ہے ،جوزیب النساکے حکم سے ملا صفی الدین آردبیلی نے کیا تھا اور بعد کے بعض مؤرخوں نے اس کی نسبت زیب النساکی طرف کردی ۔زیب النساکا شعری ذوق بھی بڑا شستہ اور ستھرا تھا اور وہ باقاعدہ شاعری کرتی تھی ،اس کی شاعری کی ایک بیاض بھی تھی،جو بدقسمتی سے اس کے خادم ارادت فہم کے ہاتھوں حوض میں گر گئی اوراس کے اشعار ضائع ہوگئے۔زیب النساکے درباری شاعر عاقل خان سے عشق کے حوالے سے ایک بہت مشہور قصہ ہے، تاریخی روایات میں مذکورہے کہ عاقل خان چھپ چھپ کر زیب النساسے ملنے آتاتھا،ایک باروہ محل میں تھا کہ عالمگیرکوپتاچل گیا،زیب النسا نے اسے حمام کی دیگ میں چھپادیا،بادشاہ کواس کی بھی بھنک لگ گئی اوراس نے اسی دیگ میں پانی گرم کرنے کاحکم دے دیا؛چنانچہ اس میں پانی گرم کیاگیااورعاقل خان نے اخفاے راز کی خاطر دم نہ مارا اوراس طرح جل کر مرگیا،اسی صدمے کے زیراثرزیب النسانے تاعمرشادی نہیں کی۔علامہ نے لکھا ہے کہ تذکرہ مآثرالامرامیں عاقل خان کے تفصیلی حالات لکھے گئے ہیں؛لیکن اس میں کہیں یہ واقعہ مذکورنہیں ہے،اس کے علاوہ عہدِ عالمگیری کی مستندتاریخی کتابوں عالمگیرنامہ،مآثرِ عالمگیری،تذکرۂ سرخوش،خزانۂ عامرہ، سروآزاداور یدِ بیضاوغیرہ میں اس حوالے سے ایک لفظ نہیں لکھاگیاہے۔شبلی اس واقعے کوجھوٹ قراردیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مغربی مصنفین نے اسے مزید آب ورنگ دے کر مشہور کرنے کی کوشش کی ہے۔اردووالے تو براہِ راست شبلی کی تحریر سے استفادہ کرسکتے ہیں،مگر عربی دانوں کے لیے ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی کا یہ ترجمہ نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے،تاریخ اور تاریخی شخصیات سے درست آگاہی حاصل کرنے کے خواہاں افراد کواس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
رحالۃ ہندي في بلادالشرق العربي:دراسۃ نقدیۃ:
یہ ایک تنقیدی مقالہ ہے،’’مجلۃ الہند‘‘کے شبلی نمبرکا حصہ ہے،اس میں ڈاکٹراعظمی نے علامہ شبلی نعمانی کی مشہور کتاب ’’سفرنامۂ روم و مصروشام‘‘کے عربی ترجمہ کا تنقیدی جائزہ لیاہے۔اس کتاب کا عربی ترجمہ معروف عربی اہلِ قلم اور ترجمہ نگار ڈاکٹرجلال الدین حفناوی نے کیاہے،ہندوستان کے علمی و ادبی حلقے میں ان کانام خاصا جانا پہچاناہے اور انھوں نے حالی کے’’مقدمۂ شعر و شاعری‘‘کے علاوہ متعدد ہندوستانی اہلِ علم و ادب کی تصانیف کا عربی ترجمہ کیاہے۔شبلی کے سفرنامے کا عربی ترجمہ’’رحالۃ ہندي في بلادالشرق العربي‘‘کے نام سے2002ء میں شائع ہواہے،ڈاکٹرحفناوی گواردوزبان سے واقفیت رکھتے ہیں،مگر ان کی واقفیت اس درجے کی نہیں ہے کہ وہ اہلِ زبان میں شامل کیے جائیں؛چنانچہ ’’سفرنامہ روم و مصروشام‘‘ کے ترجمے میں ان سے بہت سارے مقامات پرسخت چوک ہوئی ہے اور بعض الفاظ کے ایسے ترجمے ہوئے ہیں ،جن کا اصل متن سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے،مثلاً انھوں نے ’’دقت ‘‘ جواردومیں مشکل کے معنی میں استعمال ہوتاہے ،اس کا ترجمہ’’وقت‘‘سے کیاہے ،’’موزوں طبع آدمی‘‘کاترجمہ ’’الإنسان الشاعري‘‘سے کیا ہے ، ’’متصل ‘‘جوشبلی نے لگاتا ر کے معنیٰ میں استعمال کیا ہے، اس کا ترجمہ ’’متصل‘‘سے ہی کیا ہے ؛حالاں کہ عربی میں اس کے لیے ’’متتالیۃ‘‘یااس کے مترادف دوسرے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔یہ توچندمثالیں ہیں، ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی نے اپنے مقالے میں نہایت دیدہ ریزی کے ساتھ ڈاکٹرحفناوی کے اس ترجمے کا مطالعہ کرنے کے بعدمذکورہ بالاقسم کی سیکڑوں غلطیوں کی نشان دہی کی ہے۔یہ غلطیاں ایسی ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے عربی ترجمے کا شائع ہوجاناحیرت انگیزہے،کتاب کے ناشرکواگلے ایڈیشن میں نظرِ ثانی و تصحیح کا اہتمام کرنا چاہیے۔
شبلیات پرلکھے گئے مقالات کے تراجم:
ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی نے علامہ شبلی نعمانی کی تحریروں اور تصانیف کے علاوہ ان کی خدمات کے مختلف پہلووں پر لکھے گئے تجزیاتی وتنقیدی مقالوں کا بھی عربی ترجمہ کیا ہے،یہ تمام ترجمہ شدہ مقالے ’’مجلۃ الہند‘‘کے شبلی نمبر2014-15ء میں شائع ہوئے ہیں،البتہ جیساکہ اوپر مذکورہوا’’ المامون‘‘ کے تجزیہ وتنقید پرمشتمل سیدصباح الدین عبدالرحمن اور’’مسلمانوں کی گزشتہ تعلیم ‘‘کے جائزے پر مشتمل مولاناضیاء الدین اصلاحی کے مقالوں کے ترجمے کتابی شکل میں شائع ہونے والے ان کے عربی ترجموں میں بھی بطورمقدمہ شامل ہیں،شبلیات پرلکھنے والے دیگر حضرات-جن کے مقالات کاڈاکٹراعظمی نے عربی ترجمہ کیا ہے- میں ڈاکٹرریاض الرحمن خان شیروانی(علامہ شبلی نعمانی:حیات و خدمات،عربی ترجمہ:العلامہ شبلي النعماني:حیاتہ و خدماتہ)پروفیسر یسین مظہر صدیقی (مصادرومآخذکے پارکھ شبلی،ط:معارف ،شبلی نمبر، نومبر-دسمبر2014،عربی ترجمہ:العلامۃ شبلي النعماني خبیرابالمصادر)خلیق احمد نظامی (ادب اور مشرقی تاریخ کا مخزن،ط:صحیفہ،لاہور،شبلی نمبرجولائی-دسمبر2014ء،عربی ترجمہ:شبلي مورداً للأدب والتاریخ) مولاناکلیم صفات اصلاحی(علامہ شبلی کے بعض قرآنی افکار،ط:عرفانِ شبلی ،دارالمصنفین2014ء، عربی ترجمہ:العلامۃشبلي یتدبرالقرآن) مولاناضیاء الدین اصلاحی (علامہ شبلی اور علم حدیث،ط:دوماہی الشارق،اعظم گڑھ ،جولائی 2007ء،عربی ترجمہ:العلامۃ شبلي وعلم الحدیث) ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی (شبلی اور علم کلام،ط:سہ ماہی فکرونظر،علی گڑھ،شبلی نمبر،جون1996ء، عربی ترجمہ:العلامۃ شبلي النعماني ومساہمتہ في نشرعلم الکلام) پروفیسر الطاف احمد اعظمی(علامہ شبلی نعمانی اور مستشرقین،ط:معارف،جولائی 2005ء،عربی ترجمہ:الاستشراق والمستشرقون عندالعلامۃ شبلي النعماني) ڈاکٹرمحمد الیاس اعظمی(اسکات المعتدی علی انصات المقتدی کا مطالعہ،تاریخ بدأالاسلام کاتجزیاتی مطالعہ،ط:آثارِ شبلی،دارالمصنفین،اعظم گڑھ 2013ء، عربی ترجمہ:إسکات المعتدي علی إنصات المقتدي:دراسۃ تحلیلیۃ،تاریخ بدأالإسلام:دراسۃ تحلیلیۃ )مولانامحمد عارف عمری (الانتقادعلی تاریخ التمدن الاسلامی،ط:معارف،جون-جولائی1999،عربی ترجمہ:الانتقادعلی تاریخ التمدن الإسلامي:دراسۃ تحلیلیۃ ونقدیۃ) مولانا سعیدانصاری (شبلی اور عربی انشاء،ط:البصیر،چنیوٹ،شبلی نمبر1957ء ،عربی ترجمہ:عربیۃ العلامۃ شبلي النعماني) شامل ہیں۔اس کے علاوہ انھوں نے ’’مقالاتِ شبلی‘‘جلدششم کے مقالات(کتب خانہ اسکندریہ،اسلامی کتب خانے، اسلامی حکومتیں اورشفاخانے،مکینکس اورمسلمان) کا عربی ترجمہ (مترجمہ: ڈاکٹرہیفاشاکری، اسسٹنٹ پروفیسرشعبۂ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ)روزورڈ بکس،دہلی کے زیرِ اہتمام شائع کیاہے۔ ان عظیم الشان خدمات کے لیے پورے دبستانِ شبلی اورہندوستان کے علم دوست طبقے کی جانب سے ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی شکریے کے مستحق ہیں،کہ انھوں نے ہندوستان کے ایک جلیل القدر مصنف، سوانح نگار،مفکراوریگانۂ روزگارفاضل کے افکارکے دائرے کووسعت بخشی ہے ۔ افکاروتصانیفِ شبلی کی تعریب وتوسیع کے کئی اہم منصوبے فی الحال ان کے پیشِ نظرہیں،دعاہے کہ ان کایہ علمی،ادبی وتحقیقی سفریوں ہی جاری وساری رہے اور علامہ شبلی نعمانی کی دقتِ نظر اورتاریخ وتحقیق نگاری کے بیش بہانمونے بتدریج عالمِ عرب کے سامنے آتے رہیں۔(ان شاء اﷲ)
مراجع:
کتابیں:
سیدہ فاطمہ زہرا،الدکتوراورنک زیب الأعظمي :حیاتہ وخدماتہ،ط:الألوکۃwww.alukah.net،تاریخ الإصدار:7/1/2015
علامہ شبلی نعمانی،المامون(اردو)ط:دارالمصنفین،اعظم گڑھ
ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی،المامون(عربی)ط:دارالکتب العلمیہ،بیروت-لبنان2017ء
ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی،التراث المنقول،ط:دارالکتب العلمیہ،بیروت-لبنان2017ء
علامہ شبلی نعمانی،مقالاتِ شبلی،جلددوم،سوم،پنجم،ششم،ط:دارالمصنفین اعظم گڑھ
ڈاکٹرمحمدالیاس اعظمی،آثارِ شبلی،ط:دارالمصنفین اعظم گڑھ2013ء
ڈاکٹرمحمد الیاس اعظمی ،کتابیاتِ شبلی،ط:دارالمصنفین ،اعظم گڑھ2011ء
مولاناکلیم صفات اصلاحی،عرفانِ شبلی،ط:دارالمصنفین اعظم گڑھ 2014ء
ڈاکٹرہیفاشاکری،مقالات شبلي:في الإسلام والمستشرقین(ترجمہ وترتیب)،ط:روزورڈبکس دہلی2015ء
رسائل:
مجلۃ الہند(عربی)شبلی نمبر،شمارہ: جنوری-دسمبر2014ء،جولائی-دسمبر2015ء ،ط:مولاناآزادآئیڈیل ایجوکیشنل ٹرسٹ،بولپور،مغربی بنگال
معارف،دارالمصنفین اعظم گڑھ،شمارے:جنوری1985ء،جون-جولائی 1999،جولائی 2005ء،شبلی نمبر،نومبر-دسمبر2014ء
دوماہی الشارق،اعظم گڑھ،جولائی-ستمبر2007ء
سہ ماہی فکرونظر،علی گڑھ،شبلی نمبر،جون1996ء
صحیفہ،لاہور،شبلی نمبرجولائی-دسمبر2014ء
(مراجع تک رسائی میں براہِ راست ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی اورrekhta.orgسے بھی استفادہ کیاگیاہے)
 

Nayab Hasan
About the Author: Nayab Hasan Read More Articles by Nayab Hasan: 28 Articles with 21986 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.