کراچی کا کچرا ۔کیا رنگ لائے گا

کراچی میں روزآنہ کی بنیاد پر20ہزار ٹن کچرا جمع ہوتا ہے

’زرداری صاحب ہماری فکر چھوڑیں پہلے کراچی کا کچرا تواٹھائیں‘، یہ وہ جملہ ہے جو پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف صاحب نے سابق صدر قبلہ آصف علی زرداری صاحب کے اس حملے کے جواب میں کہا کہ وہ پنجاب کے عوام کو بہت جلد واپس اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور یہ کہ پنجاب میں کام نہیں بلکہ دکھاوا ہورہا ہے۔ بہ ظاہر میاں شہباز شریف کا یہ جملہ عام سے بات ہے ، وہ بہت سخت قسم کی زبان زرداری صاحب کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں لیکن چھوٹے میاں صاحب کے اس جملے میں بہت گہرائی ،معنویت اور معنی غیزی پائی جاتی ہے۔نظر یہ آرہا ہے کہ کراچی کا کچرا بڑا سیاسی مسئلہ بننے جارہا ہے۔ مسلم لیگ نون کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی کو یہ ایک اشارہ ہے کہ تم نے جو پنجاب پھر سے فتح کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جس کے لیے پہلے تمہاری بیٹے بلاول نے اب تم ڈیرے ڈالے بیٹھے ہو تم نون لیگ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ، تمہاری تمام تر باتوں کا جواب کراچی کا کچرا ہے۔ گویا نون لیگ اس جرم میں شریک ہے اور وہ محسوس کررہی تھی کہ کراچی کچرے کا ڈھیر بنتا جارہا ہے ، اس نے قصداً اسے کچرے کا ڈھیر بننے دیا تاکہ وہ سندھ کے حکمرانوں کے خلاف اسے ایک سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر سکے۔ نون لیگ ہی کیا اب تو سندھ کی سیاسی جماعتوں نے کراچی کے کچرے کو بنیاد بنا کر سیاسی سرگرمیوں میں ہل چل مچانا شروع کردیا ہے۔ جماعت اسلامی کے بعد اب پی ایس پی نے بھی دھرنا دے دیا ہے، ایم کیو ایم پاکستان بھی اپنے بیانات میں کراچی کے کچرے کا رونا روتی رہی ہے، تحریک انصاف کھل کر تو سامانے نہیں آئی لیکن کراچی کی جب بات ہوتی ہے تو اس کے لیڈر بھی کراچی کے کچرے کا ذکر بڑی شد و مد سے کرتے ہیں۔شکر اس بات کا ہے کہ اب کراچی کا درد سب کے دل میں پیدا ہونا شروع ہوگیا ہے۔ کچھ اور ہو یا نہ ہو ، سندھ حکومت کے کان ضرور کھڑے ہوچکے ہوں گے اور وہ سنجیدگی سے کراچی پر توجہ دینا شروع کریں گے۔ جب سندھ کے حکمراں خواب غفلت میں سوئے رہے ، انہوں نے اپنے تمام دور حکمرانی میں کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک رواں رکھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کراچی ماضی میں ان کے ساتھ کون سا اچھا سلوک کرتا رہا ہے ، بھلا یہ بھی کوئی بات تھی کہ پورے ملک میں جئے بھٹو جئے بھٹو کے سدائیں گونج رہی ہوں ، جہاں دیکھو بھٹو ہی بھٹو تھا ، لیکن یہ کراچی کے لوگ عجیب ہیں کہ نو ستاروں کے پیچھے دیوانے ہو رہے تھے۔لے دے کر لیاری کی ایک سیٹ بھٹو صاحب کے حصے میں آئی۔ باقی کراچی کی نمائندگی نو ستاروں والوں نے کی۔ اب کراچی کچرا نہ بنتا تو کیا یہاں دودھ کی نہریں بہتں، اور پیچھے چلے جائیں، فیلڈ مارشل محمد ایوب خان ، کیا شخصیت تھی، جس ٹرک کے پیچھے دیکھو ایوب خان اپنی وردی میں لشکرارے مارتے نظر آیا کرتے تھے، انتخابات ہوئے پورا ملک گلاب کا پھول اپنے سینے پر سجائے ہوئے تھا اُس وقت بھی یہ کراچی اوپھر کراچی کے عوام اس جدید دور میں ہاتھ میں لالٹین لیے سڑکوں پر ر قساں نظر آرہے تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کے پروانے بن کر مسلم لیگ کے پرچم تلے ثابت قدم رہے۔ ایوب خان کو فتح ہوئی جو ہونا ہی تھی، ایسی صورت میں کراچی کچرے کا ڈھیر نہ بنتا تو کیا ہوتا، ایوب خان کے صاحبزادے نے کراچی کے لوگوں کو صحیح راستہ دکھایا تھا کہ آگے سمندر ہے ، اب سمندر میں کون گیا کون نہیں ، یہ وقت نے ثابت کردیا، ایوب خان جس انداز سے اقتدار سے رخصت کیے گئے یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی نے کراچی کو اپنا بنانے کی کوششیں تو بہت کیں، بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری نے تو اپنی شادی کی تقریب کے لیے کراچی کا انتخاب کیا، کراچی کے ککری گراؤنڈ ، لیاری میں نکاح کی پروقار تقریب کا انعقاد ہوا۔پھر بھی یہ کراچی تھا کہ اپنی ڈگر سے ہٹنے کو تیار ہی نہیں۔اس کراچی کی سیاسی سوچ ہمیشہ مختلف سمت میں رہی ہے۔ اس کا خمیازہ بھگتا رہا اور کچرے کا ڈھیر بنتا رہا۔کراچی کچرے کا ڈھیر بنا لیکن اس کی ترقی تو ایک خود رو پودے کی مانند ہے جسے کوئی پانی دے یا نہ دے، اس کی آبیاری کرے یا نہ کرے، اس کی دیکھ بھال کرے یا نہ کرے ،یہ پھولے گا، پھلے گا، تناور درخت بنے گا، اس میں پھل بھی آئے گا، اس میں سبزیاں بھی اگیں گی، بلند و بالا عمارتیں بھی بنیں گی، روزگار کے لیے پورے پاکستان سے لوگ اسی شہر کو رخ کریں گے اور انہیں یہ شہر اپنائے گا انہیں روزی فراہم کرے گا ۔ کراچی کے ساتھ نہ انصافی کرنے والوں کو زمانہ از خود سبق سکھاتارہا ہے ، یہاں وہ دور بھی تھا جب بلدیہ اعظمیٰ کراچی جماعت اسلامی کے ا ختیار میں آگیا تھا، اہل کراچی نے انہیں بھی آزمایا، انہیں بھی موقع دیا اور پھر اہل کراچی نے تمام سیاسی جماعتوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے ایم کیو ایم کو اپنے ماتھے کا جھومر بنا لیا، خوب خوب نوازا، پورے ملک میں دھوم اسی لیڈر کی تھی، ہر کوئی اس کے پیچھے، قومی اسمبلی ہو، صوبائی اسمبلی ہو یا بلدیاتی اداروے ہوں ایک ہی جماعت کا طوطی بولتا رہا۔ اب کراچی کچرے کا ڈھیر نہ تھا، کچھ کام بھی ہوا، کراچی کے ناظم نے کمال کر دکھا یااور وہ کمال اب بھی دکھا رہا ہے۔ خوب خوب کام کیا، نہ کہیں کچرا، نہ کہیں غلاظت کے ڈھیر، پل بنے، سڑکیں تعمیر ہوئی، انڈر پاس بنے، بائی پاس بنے ، الغرض سب کچھ ہوا ۔ لیکن عزت ، نام و نمود کی قدر کھو دی جائے ، انسان بے شکرا ہوجائے تو قدرت ایسا انتقام لیتی ہے کہ ایسا کرنے والے کو عبرت کا نشان بنا دیاجاتا ہے۔ وہی ہوا پارٹی سربراہ عبرت کا نشان بن گیا، پارٹی بکھر گئی، حصے بکرے ہوگئے، یہی تو سب کی خواہش تھی جو پوری ہوئی۔ اب کراچی پھر سے کچرے کا ڈھیر بنتا گیا، کوئی اس کا والی وارث نہیں تھا، کوئی اسے اون کرنے والا نہیں۔ سندھ حکومت کو کیا پڑی کے کراچی کے معمالات میں ہاتھ ڈالے۔ رہا سوال کئی سالوں سے کراچی کی نمائندگی کرنے والوں کا تو انہیں تو سب نے مل کر کھڈے لائن لگا دیا، تابوت میں آخری کیل پاکستان کے خلاف نعرہ لگا کر ان کے اپنے سربراہ نے خود ہی ٹھونک دی۔اب وہ یہ کہہ کر بری الزماں ہوجاتے ہیں کہ ہم تو سالوں سے حزب اختلاف میں ہیں۔ کچرا اٹھانا تو حکومت کا کام ہے۔

جب کراچی ابتری کی انتہا کو پہنچ گیا، کچرے کے ڈھیر صرف کچرا کونڈیوں تک محدود نہ رہے بلکہ یہ کچرا، گلیوں، سڑکوں، فٹپاتوں، الغرض جہا نظر پڑتی کچرا ہی کچرا دکھائی دیتا ، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار، ابلتے ہوئے گڑ، دورے پانی کی کمی، بجلی کی لوڈ شیڈنگ، کے۔ الیکٹرک کی اور بلنگ، کون ساایسا مسئلہ تھا جو اہل کراچی کو در پیش نہ تھا۔ بلدیاتی نمائندوں نے اپنی کرسیا ں تو سنبھال لیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اختیار نہیں، بجٹ نہیں، میئر کراچی جیل سے رہا ہوکر حلف اٹھانے پہنچے، پھر جیل سے باہر بھی آگے ان کا بھی یہ کہنا تھا کہ کچرا اٹھاؤں تو کیسے، نہ اختیار ہے ، نہ مشینری اور نہ بجٹ۔ جس جماعت سے میئر کا تعلق وہ عتاب میں، اس کا منہ بند ، وہ روب دبدبا ،وہ کرو فر سب جاتا رہا تھا کہ حکومت کو مجبور کرتے ۔ کچرے کے ڈگیر، غلاظت ، گندگی کی صدائیں ،سڑکوں کی بد حالی، پورے شہر کے کھنڈر ہونے کی صدائیں ملک کے منتخب ایوانوں میں بھی جاپہنچی بلکہ بیرون ملک کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی اس کی باز گشت سنی جانے لگی، ہر کوئی حکومت سند ھ کراچی کو کراچی کی ابتر صورت حال پر آڑے ہاتھوں لے رہا تھا۔ آخر کار سندھ کے اقتدار کے ایوانوں میں برف پگلی، کراچی کے لیے 10 ارب کا بجٹ مختص ہوا، وزیر بلدیات کو خصوصی ٹاسک سونپا گیا، کچھ منصوبے شروع ہوئے، میئر کراچی نے سو (100 )دنوں میں کراچی کا کچرا صاف کرنے کا اعلان کیا لیکن وہ ایسا کرنے میں نا کام رہے، پوچھا گیا تو کہا کہ میں نے چند یو سیز سے کچرا صاف کرنے کی بات کی تھی وہ کردیا گیا۔ اپنی مدد آپ کے تحت ایم کیو ایم پاکستان نے صفائی مہم کا آغاز کیا جو فلاپ ہو ، وہ فوٹو سیشن سے زیادہ اور کچھ نہیں تھا۔ اب کچھ سڑکو ں کی تعمیر، ان کو اور زیادہ چوڑا کرنے، پائپ لائن ، برساتے نالوں کی تعمیر پر کام ہورہا ہے، اس کام کو کئی ماہ ہوچکے، کام کی نوعیت ہی کچھ اس قسم کی ہے کہ اس میں مہینوں ہی لگیں گے۔ ویسے تو پورے کراچی میں سڑکوں کی مرمت کا کام کسی نہ کسی حد تک ہورہا ہے لیکن کراچی یونیورسٹی روڈ سوک سینٹر سے صفورہ چورنگی اور ملیر کینٹ تک زیر تعمیر ہے، اس کے دونوں جانب کشادگی کا عمل جاری ہے، برساتی نالا سڑک کے دونوں جانب بنا یا جارہا ہے، سڑک کو کشادہ کرنے کی صورت میں بجلی کے کھمبے اور نئے تار ڈالے جارہے ہیں۔ سندھ حکومت کے حکام متعلقہ کو چاہیے کہ وہ کام کی سخت نگرانی کرتے ہوئے اسے جلد سے جلد پائے تکمیل تک پہنچانے کو یقینی بنائے دوسرے صورت میں کام اسی رفتار سے جاری رہا تو کام کی لاگت کے بڑھ جانے کی صورت میں کام کرنے والی کمپنیاں رکاوٹیں ڈالنا شروع کردیتی ہیں، بجٹ بار بار ملنا مشکل ہوتا ہے۔ اسی طرح شہر میں پھیلا ہوا کچرا رفتہ رفتہ کم سے کم ہوتا نظر آرہا ہے، اس کی مانیٹرنگ بہت ضروری ہے۔ بلدیاتی نمائندوں کے ذریعہ عوامی فلاح و بہود کے کاموں کی نگرانی کرائی جا سکتی ہے۔ ہر علاقے کے بلدیاتی نمائندہ کو اس کے علاقے میں ترقیاتی کام کی نگرانی کا ٹاسک دیا جاسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اگر کراچی کے کچرے اور دیگر ترقیاتی کاموں پر سنجیدگی مظاہرہ نہ کیا اور صورت حال بہتر نہ ہوئی تو نون لیگ اور دیگر ماعتیں اسے آئندہ انتخابات میں جو کے سر پر منڈلا رہے ہیں پریشانی میں مبتلا کردیں گی۔ پاناما کا فیصلہ جو کسی بھی وقت متوقع ہے ملک میں فوری انتخابات کا باعث بھی ہوسکتا ہے۔ ایسی صورت میں کراچی کا کچرا پی پی کے لیے زیادہ مشکلات پیدا کردے گا۔

آئے اب کچھ بات کچرے سے متعلق ہوجائے۔ کراچی میں روزآنا کی بنیاد پر کچرے کو شہر سے باہر پہنچانے اور اسے تلف کرنے کی ذمہ داری ایک اداے کے سپرد کی گئی اس ادارے کا نام ہے’ سندھ سالڈ مینجمنٹ بورڈ‘ ۔ اس کے اس سر براہ انتظامی امور کا طویل تجربہ رکھنے والے ڈاکٹر اے ڈی سنجنانی ہیں ۔ ایک ٹی ٹاک میں انہوں نے اپنے طویل تجربے ذکر کرتے ہوئے بتا یا کہ اِس وقت پورے سندھ میں ان سے زیادہ تجربہ کار انتظامی امور کا ماہر کوئی اور کوئی نہیں۔اس تجربہ کار ماہر نے جس کا کام کراچی کے کچرے کو شہر سے باہر پہنچانا اور اسے تلف کرنا تھا ، کس قدر کیا، اس کا اندازہ تو آجکل کراچی میں کچرے کے ڈھروں کی باز گست سے لگا یا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر سنجنانی کا کہنا تھا کہ اس وقت سات ہزار ٹن کچرا روزآنہ کی بنیاد پر اٹھایا جارہا ہے، یہ کچرا کس ذریعہ سے اٹھایا جارہا ہے، کچرے کے ٹرک عرصہ دراز سے سڑکوں پر کچرا بکھیرتے ہوئے جاتے نظر نہیں آئے۔ شاید گوئی غیبی قوت ڈاکٹر سنجنانی کے حکم پر یہ کام کررہی تھی۔ان کے بیان کے مطابق ڈھائی ہزار ٹن کچرا بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ اتھاتی ہے۔ عبدا لرحمن عاجز کا ایک سروے جو نیٹ پر دستیاب ہے اس کے مطابق اس وقت کراچی میں روزآنہ کی بنیاد پر 20ہزار ٹن کچرا جمع ہوتا ہے۔ اس 20ہزار میں سے 8ٹن کچرا کراچی کے ندی، نالوں، سڑکوں کے کناروں، گلیوں میں پڑا رہتا ہے۔10ہزار ٹن کچرا، کچرا کنڈیوں ، خالی پلاٹوں ، ٹوٹے پھوٹے گھروں میں اور چھوٹے موتے کھڑوں میں ڈھیر رہتا ہے، جو کچرا ندی نالوں، سڑک کے کنارے، گلیوں، فٹپاتوں، کچرا کنڈیوں اور خالی پلاٹوں میں پڑا رہتا ہے ان میں سے 80فیصدکچرا جس میں کاغذ، شیشہ(کانچ کی ٹوٹی پھوٹی بوتلیں)، پلاسٹک ، لوہا اور اسی طرح کی کام کی اشیاء ہوتی ہے وہ کوڑاچننے والے جمع کر کے لے جاتے ہیں اور انہیں آگے بیچ کر اپنی روزی کا سامان کرتے ہیں۔ کچرے میں سے بچ جانے والا کچرا پلاسٹک کی تھیلیاں ہوتی ہے یا کچن کا بچا کچا کھانا ہوتا ہے جو جانوروں کی خوراک بن جاتا ہے ، یہ کھانا سوکھ جانے کی صورت میں مٹی بن کر وہی پڑا رہتا ہے۔ ڈاکٹر اے ڈی سنجنانی کا یہ دعویٰ کہ ان کی جانب سے ساڑے سات ہزار ٹن کچرامختلف علاقوں سے جام ساکھرو پہنچایا جاتا ہے اور پھر اسے تلف کردیا جاتا ہے۔نہیں معلوم وہ اور ان کا ادارا جب کہ ان کی گاڑیاں بیکار اور ناکارہ پڑی ہوئی ہیں ۔ اتنا کچرا کب اور کہا ں سے اٹھاتے ہیں۔ کراچی میں اس قدر بڑی تعداد میں کچرے کا جمع ہوجانے کا ذمہ دار سندھ سالڈ مینجمنٹ بورڈ بھی ہے جو خواب غفلت میں سویا رہا اور کراچی کچرے کا ڈھیر بنتا گیا۔ حکومتوں کو کچرے کے مثبت استعمال کی جانب بھی توجہ دینی چاہیے۔ کچرے سے بجلی بنائی جاسکتی ہے۔ کراچی سے جس قدر کچرا روزآنہ کی بنیاد پر جمع ہوتا ہے اس سے ایک ہزارمیگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس جانب توجہ کون دے، حکومتوں کو اقتدار میں آنے کے بعداپنی کرسی کو قائم رکھنے کے داؤپیچ کھیلنے سے ہی فرصت نہیں ہوتی وہ کچرے سے بجلی پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کیا کریں گیں۔ (7اپریل2017)

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437821 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More