خانہ جنگی کی طرف بڑھتا ہواکشمیر

 کشمیر معصوم انسانوں کے خون سے لالہ زار خطے کا نام ہے جہاں جان ومال اور عزت و آبرو نہ صرف غیر محفوظ ہیں بلکہ بسااوقات ان کے ساتھ کھلواڑ کرنے کو بھی جائز تصور کیا جاتا ہے ۔یہاں جوان ہی نہیں بچے ،بوڑھے اور عورتیں تک قتل کی جاتیں ہیں ۔یہ دنیا کا وہ خطہ ہے جہاں سڑکوں پر انسانوں کو کیمروں کے سامنے قتل کیا جاتا ہے اور ان کی آنکھیں چھین لی جاتی ہیں ۔یہاں نا بالغ لڑکوں کو سنگبازی کے جرم میں ’’ انتہائی مطلوب‘‘قرار دیکر گرفتار کر کے انسانیت کش کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت جموں کے تپتی ہوئی سرزمین کے آگ اگلتے کنکریٹ جیلوں میں بند کیا جاتا ہے ۔یہاں پاپاٹو سے لیکر جے ،آئی سیز اور تھانوں تک ہزاروں انسانوں کوذلیل و خوار کرنے میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑی جاتی ہے ۔ یہاں سرکاری عسکری تنظیم ’’اخوان‘‘کے ذریعے ہزاروں انسانوں کو ککہ پرے،پاپہ کشتواڑی ،پنہ جن ،نبہ آزاداور سیٹھا گوجر جیسے ہزاروں سفاک قاتلوں کے ہاتھوں قتل کراکے جمہوریت کااصلی چہرہ دکھا کر بھارت کے اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے ۔یہاں کنن پوشہ پورہ سے لیکر پونچھ اور راجوری تک ہزاروں ماؤں کی عزتیں اس لئے لوٹی گئیں کہ ان کے مرد ایک ایسی تحریک سے ہمدردی رکھتے ہیں جو آزادی کا مطالبہ کرتی ہے ۔یہاں دانشوروں ،علماء،صحافیوں ،وکلاء ،ڈاکٹروں،ائمہ،تاجروں اور مزدوروں کو صرف اس لئے مارا گیا کہ وہ قاتلوں کے من مزاج کے برعکس سوچنے کا حوصلہ کرتے تھے ۔

یہ جنگ سے پامال وہ وادی ہے جس کے حسن نے دنیا کے کروڑوں انسانوں کو چند اطمینان کی سانسیں عطا کیں مگر خود یہ اسی کے باسیوں کے لئے کسی جہنم سے کم نہیں ہے اس لئے کہ انہیں یہاں بسنے کے لئے اپنی شناخت کرانی پڑتی ہے ۔ کریک ڈاؤنوں ،چھاپوں اور محاصروں میں بیٹے کو والدین سے الگ کر کے تفتیش کی جاتی ہے اور بسااوقات ان میں کئی واپس برسہاربرس بعد تب آئے جب ان کی کالی داڑھی مکمل سفید ہو چکی تھی اور بعض ابھی تک لاپتہ ہیں اور ان کے زندہ وارثین اپنوں کے تلاش میں دہائیاں گذر جانے کے بعد اپنے آپ میں گمشدہ نظر آتے ہیں ۔اس قوم کے بچوں کی زبان سے ابا امی ،دادادادی اور بھائی بہن کے الفاظ کے برعکس اب کریک ڈاؤن،محاصرہ،چھاپہ،تلاشی،شناختی پریڈ، فائرنگ، بم، سرنگ، پیلٹ، پاوا، ساونڈشل،مارٹر،راکٹ اور گولی سنائی دیتے ہیں ۔اس کی مائیں جگر پاش صورتحال سے دوچار ہیں کہ کوئی بھروسہ نہیں اسکول گیا لعل واپس زندہ پہنچے گا بھی کہ نہیں !۔

اس قوم کو کبھی سکھ کا سانس نصیب نہیں ہوا ! کبھی اس کومغلوں،پٹھانوں،سکھوں اورڈوگروں نے محکوم و مغلوب اور کبھی اس کو بھارت کے برہمن برادری نے پامال کر دیا ۔گذشتہ ستر برس کی غلامی نے اس کو اس سطح تک پہنچا دیا ہے کہ اب یہ حیران و پریشان یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ اس کو کب ،کیسے اور کس طرح کرنا چاہیے اور تو اور بھارت کی برہمن برادری نے اس کو اس حد تک بگاڑ کا شکار کردیا ہے کہ یہ بسااوقات خود آپس میں الجھ کر جنگ و جدال پر اتر آتا ہے ۔ آج ہی نہیں ہم کئی مرتبہ ایک دوسرے سے ہی الجھ گئے اور برہمن سامراج نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھا کر نہ صرف پوری ریاست کو اپنی لونڈی بنا لیا بلکہ خصوصی پوزیشن کو بھی کھوکھلا کر کے صرف لیز اور اسٹیٹ سبجکٹ والے آپشن کو باقی چھوڑاہے ۔1947ء سے لیکر اب تک ہم کو دلی نے ایک ایسے جھال میں پھنسا رکھا ہے کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے سے بھی ہم نہیں چوکے ۔1990ء میں ہم نے جہاد اور آزادی کی ولولہ انگیز تحریک کو بھی اپنی انا اور تنظیمی بالادستی کے نذر کردیا۔ہم نے خود ایک دوسرے کی گردنیں کاٹی اور اپنوں سے ہتھیار چھین کر دلی کی معاونت کی ۔ہم نے الحاقِ پاکستان یا خود مختار کشمیر کی جنگ ایک ایسے وقت میں چھیڑی جب دلی کچھ سننے کو تیار تھی پھر جب الحاق والوں کو غلبہ حاصل ہوا تو دلی نے ہمارے اندر سے اخوان کو جنم دیکر حزب المجاہدین اور جماعت اسلامی کا قتل عام کرا کے میدان اپنے لئے ہموار کردیا حتیٰ کہ بعض جہادی تنظیموں نے حزب سے اخوان کی آڑ میں حساب چکا دیا ۔گویا پھر ایک بار ہم ہی قتل ہوئے اور ہمارے ہی خون سے کشمیر لالہ زار ہوا مگر اس دفعہ یہ کام کسی غیر ریاستی باشندے یا تنظیم نے نہیں بلکہ خود کشمیریوں نے انجام دیا اور کئی سال گذر جانے کے بعد ہمیں اس بات کا احساس ہوا کہ ہمیں یہ نہیں کرنا چاہیے تھا ،یہ کرنا چاہیے تھا۔

1990ء سے لیکر 2017ء تک ہم نے باربار پرانی غلطیاں نئے انداز میں دہرا کر آپ اپنی بربادی کا سامان پیدا کیا اور آج ہم دوبارہ ایک دوسرے سے الجھ کر آپ اپنی تباہی کا آغاز کرنے جا رہے ہیں اور وہ ہے کشمیر کی نوجوان پود کا کشمیر پولیس کے تئیں شدت کے ساتھ بڑھتی ہوئی نفرت ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا آغاز کب کیسے اور کیوں ہوا؟ میں سمجھتا ہوں ہمیں نوے کے عشرے کو یاد کرنا چاہیے جب کشمیر پولیس قدم قدم پر اپنی قوم کے ساتھ کھڑی تھی حتیٰ کہ ایک موقعہ پر پولیس نے اعلانِ بغاوت کرتے ہو ئے دلی پر لرزہ طاری کردیا ۔حق یہ ہے کہ دلی کے پالیسی ساز اداروں نے اعلاناََاور میڈیا کے سامنے اعتراف کرتے ہو ئے ’’کونٹر انسرجنسی‘‘کا وہی فارمولہ کشمیر میں اپنایا جو اس نے اپنی بیشتر ریاستوں میں اپنا کر کامیابی حاصل کی تھی کہ کشمیری کو کشمیری کے خلاف کھڑا کردیا جائے ۔اور دو مہینہ قبل اس بات کا انکشاف ہوا کہ ڈوول ڈاکٹرائین کے تحت اب مرکزی وزارت داخلہ کشمیر میں اخوان اور’’ ایس ،او ،جی ‘‘کو دوبارہ کھڑا کر کے اس پروگرام کے حوالے سے سنجیدہ ہے تو دوسری جانب حالات اس رُخ پر پہلے سے اس سطح تک پہنچ چکے ہیں کہ بس پیٹرول کو ایک کمزور شعلے کی ہی ضرورت ہے کہ یہ آگ پھر سے بھڑک اٹھے گی اور ہم پھر خاک و خون میں فنا ہوکربھسم ہو جا ئیں گے ۔

کشمیر پولیس کے اندر بھی بعض’’ افسران‘‘ پر حملے کے بعدبے چینی اور اضطراب بڑھتا جا رہا کہ آخر وہ اسی سماج کا حصہ ہیں انہیں یہی مرنا ہے اور انھوں نے یہی جنم لیا ہے ۔مگر سوال پیدا ہوتا کہ کیا کشمیر پولیس ایک صحت مندبا ضمیر فورس کی طرح آپ اپنا محاسبہ کرنے کی ہمت کر ے گی؟کیا وہ آپ اپنا چہرہ آئینے میں دیکھ کر دوسروں کو کوسنے اور تنقید کا نشانہ بنانے سے پہلے اپنا احتساب کرنا گوارا کرے گی ؟کبھی نہیں ۔۔۔اس لئے کہ قادر گاندربلی سے لیکر 2017ء تک اس نے کبھی بھی کشمیری قوم کو یہ کامیاب تاثر دینے کی کوشش نہیں کی کہ آپ ہمارے ہو ۔1990ء لیکر 2017ء تک جب بھی کشمیر کا بوڑھا یا نوجوان تھانے پر کسی بھی مسئلے کو لیکر گیا واپسی پر اس نے دوبارہ تھانے کا رخ نہ کرنے کی قسم کھا لی آخر کیوں؟ عسکریت اور تحریک کو چند لمحات کے لئے ایک طرف رکھ کر کیا ہم بحیثیت قوم یہ پوچھنے کا حق نہیں رکھتے ہیں کہ کشمیر پولیس اگر ایک قومی ادارہ ہے تو اس کو مین اسٹریم نے ہمیشہ اپنے مخالفین کے لئے استعمال کیوں کیا ؟بقولِ سید علی شاہ گیلانی کیا اس فورس کو نیشنل کانفرنس نے اپنی عسکری ونگ کے طور پر اپنے دورِ اقتدار میں استعمال نہیں کیا؟مسلم متحدہ محاذ کو ہرانے اور ممبران کو جیلوں میں ٹھونسنے کے لئے کشمیر پولیس استعمال نہیں ہوئی ؟آخر پبلک سیفٹی ایکٹ کے بے مہابا استعمال کا سہرا کس کے سر باندھا جائے ؟عرصہ دراز تک کشمیری قوم یہ سمجھتی رہی کہ کشمیر پولیس اور ایس او جی دو الگ الگ فورسز ہیں وہ باریک سا فرق کیوں ختم ہوا ؟ ایس ،او،جی نے جے آئی سیز سے لیکر اپنے مخصوص کیمپوں تک سب ’’بے گناہوں اورباگناہوں ‘‘کوجس طرح خوار کیا اس پر کشمیر پولیس کس کس کو مطمئن کر پائے گی حتیٰ کہ اب ریاست کے مقبول ترین سیاسی رہنما سید علی گیلانی ،میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک تک عرصہ دراز سے جموں و کشمیر کو ایک پولیس اسٹیٹ قرار دے رہے ہیں ۔

کشمیر پولیس افسران کے گھروں پر حملوں کے بعد اس بات کا اندیشہ جنم لے چکا ہے کہ کہیں یہ صورتحال گمبھیررُخ اختیار نہ کرکے ’’سول وار یا خانہ جنگی‘‘ جیسی صورتحال کو جنم دینے کا باعث نہ بنے اس لئے کہ کشمیر پولیس کا ماضی اور حال نہ صرف یہ کہ حکومتوں کے لئے آلہ کاروں کے طور پر کام کرتا رہا بلکہ اس نے حکمرانوں کے اشاروں پر ہمیشہ ان کے مخالفین کو نشانہ بنایا ہے ۔نام ظاہر نہ کرنے کے شرط پر افسران کا کہنا ہے کہ ہم خود ایک طرح سے بے بس ہیں نہ نوکری چھوڑنے کی پوزیشن میں ہیں اور نا ہی حکام بالا کے احکام کی خلاف ورزی کرنے کا ’’فورس‘‘میں کوئی آپشن موجود ہوتا ہے ایسے میں ہم کریں تو کیا کریں؟بلکہ عام سپاہی کی پوزیشن اور بھی قابل رحم ہوتی ہے ۔پولیس میں کشمیر ی مسلمانوں کی تعداد اتنی کم نہیں ہے کہ ان کے مسائل کو سطحی طور پر نظر انداز کردیا جائے اگر معاملات اسی طرح آگے بڑھتے رہے تو مستقبل میں نہ صرف یہ کہ’’ مجاہدین‘‘اور پولیس کے درمیان تناؤ اور اختلافات بڑھتے رہیں گے بلکہ اس کے تباہ کن اثرات کشمیر کے سماج پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں ان حالات کا مشاہدہ ہم نے 2016ء میں اس وقت بھی اچھی طرح کیا ہے جب عوامی سیلاب میں عسکری نوجوانوں کے ساتھ بعض آزادی پسند لیڈران نے پولیس کو نوکری چھوڑنے کا مشورہ دیدیا حتیٰ کہ بعض مقامات پر بعض مقررین نے اساتذہ اور ڈاکٹروں تک کو اجتماعی استعفوں کا مطالبہ کرتے ہو ئے سراسیمگی پیدا کردی ۔

ڈر اس بات کا ہے کہ اگر حالات مستقبل میں کبھی بھی2016ء کی طرح خراب ہو گئے تو پولیس کے لئے اور زیادہ مشکلات پیدا ہو سکتے ہیں اس لئے کہ اِس وقت سماجی سطح پر جو غصہ پولیس کے خلاف پیدا ہو چکا ہے وہ کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتا جا رہا ہے ۔پولیس کے افسرانِ بالا میں بہت سارے غیر ریاستی ہیں انہیں نہ ہی مقامی حالات کا اندازہ ہے اور نہ ہی وہ کشمیری افسر یا عام سپاہی کے گمبھیر مسائل سے واقف ہیں ۔ دلی والوں کی خود غرضی کا عالم یہ ہے کہ انھیں ’’کشمیری بکروں‘‘سے زیادہ کسی بھی بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے انھوں نے کشمیری پولیس کو کشمیری عسکریت پسند کے سامنے کھڑا کر کے گویا بھارت کی بہت بڑی خد مت انجام دی ہے انہیں یہاں رواں تحریک کو دبانے کے سوا کسی بھی اشو سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ان کی عقل ،ذہانت،سیاست،تعلیم ،صحت،میڈیا اور وزارت داخلہ سے لیکر خارجہ تک صرف اور صرف ’’کشمیر کے اٹوٹ انگ ‘‘کے فارمولے کے ارد گرد ہی گھومتی نظر آتی ہے ۔ایسے میں گھوم پھیر کے’’ مسئلہ‘‘ کشمیریوں ہی کی طرف پلٹ کر واپس آتا ہے ۔کشمیریوں کے بیچ پہلے سے موجود شدید اختلافات میں خلیج اتنی زیادہ پیدا ہو چکی ہے کہ اس کو بیانات اور مضامین سے پاٹا نہیں جا سکتا ہے بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جانبین اس مسئلے کے نتائج پرگہرے غور و فکرکے بعد ممکنہ طور پر ایک ایسا فضا پیدا کریں جن میں دشمنی کا موجودہ درجہ حرارت ختم نہ صحیح بلکہ کم ہو جائے ورنہ وہ دن دور نہیں ہے جب کشمیر میں یہ صورت حال قتل عام کے لئے میدان ہموار کردے گی ۔

میں ذاتی طور پر جغرافیائی تنگنایوں کا قائل نہیں ہوں مگر سچائی یہ ہے کہ انکار کے باوجود پوری دنیا لفاظی کی حد تک میرے ساتھ کھڑی تو ہے پر گلوبلائزیشن کے تمام تر دعوؤں کے برعکس وہ سرحدوں ،ملکوں ،ریاستوں ،صوبوں اور اپنے اپنے علاقوں میں مقید ہے اور ہر ایک پہلے اپنی ذات ،اپنے وطن اور ملک کا مفاد مقدم رکھتا ہے حتیٰ کہ وہ امت مسلمہ بھی جس کو ’’الارض ﷲ والحکم ﷲ‘‘کی تعلیم دی گئی تھی ٹکڑوں میں بٹ کر اپنے وطن کو اپنی کائنات قراردیکر قناعت کی چادر اوڑھے شاکر نظر آتی ہے ۔ مقامی پولیس کو بھی یہ سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح مہاراشٹری ،کرناٹکی ،ہریانوی،پنجابی اور ہماچلی اپنی ریاست کے مفاد کو عزیز اور مقدم رکھتا ہے کشمیر پولیس کا آفیسر اور سپاہی کیوں نہیں؟کیا مرکزکی خوشنودی کے لئے ہم ہر صورت میں اپنی ہی قوم کی قربان کردیں گے ؟قربان کرتے کرتے اب ستر برس گزر چکے مگر’’ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘‘ کے مصداق کشمیری ہر دربار میں بے بھروسہ ہی ثابت ہوا ۔’’کام لو اور پھینکو ‘‘کی ایک نہیں ہزاروں مثالیں ہمارے گردوپیش میں ہمارا منہ چڑارہی ہیں ،مگر ہم ہیں کہ کبھی بھی حالات وواقعات سے نصیحت حاصل نہیں کرتے ہیں ۔آخر ہم نے ہی اپنے وطن،قوم اور ملت کو ذلیل اورحقیر کرنے کا ٹھیکہ کیوں لیا ہے آخر ہم نے ،یہی جنم لیا ہے یہی پلے بڑے اور یہی دفن ہونا ہے اور اسی سرزمین سے دوبارہ زندہ ہو کر اﷲ کے دربار میں حاضر ہو کر اپنے کئے کرائے کا جواب دینا ہے تو ہمارے ہاں وطن پہلی ترجیح کیوں نہیں ہے؟ آخر اس سرزمین کا بھی ہمارے اوپر حق ہے اور اس مظلوم قوم کو بھی ہم سے امیدیں وابستہ ہیں جب آج آپ اور میں اس کے لئے اور آنے والی نسلوں کی فلاح و بہبود کے لئے غور و فکر سے کام نہیں لیں گے تو کیا یہ کام بھی دلی اور اسلام آباد ،نیویارک یا لندن کے باسی انجام دیں گے نہیں اور یقیناََ نہیں تو آخر کب؟کیا تب ؟جب سر سے پانی گزر کرپوری قوم ڈوب جائے گی !یا تب جب ہماری لاشیں اٹھانے والا روتا بلکتا آپ کا اور میرا بیٹا ہماری عقل و دانش پر ماتم کرتے ہو ئے ہمارے لئے بد دعا کرے گا ۔آخر ہم ہر کام آنے والی نسلوں کے لئے ایک ناسور کی طرح کیوں ترکے میں چھوڑ رہے ہیں ؟ہم اپنی ذمہ داریوں سے کیوں بھاگتے ہیں ؟ ذمہ داریوں سے بھاگنا نکمے لوگوں کا کام ہوتا ہے بہادر، غیور اور عقل و دانش والی قوم کا نہیں ۔ہمیں اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم نہ نکمے ہیں نا ہی ذمہ داریوں سے بھاگنے والی قوم۔لہذا ابھی وقت ہے کہ قوم کا استاد،عالم ،وکیل ڈاکٹر ،صحافی ،قلمکار، تاجر، مزدور،سیاستدان،لیڈر،بیروکریٹ اور پولیس آفیسر آپ اپنا محاسبہ کرتے ہو ئے قوم کی ڈوبتی کشتی کو ساحل مراد تک پہنچانے کے لئے مثبت انداز میں سوچنے اور کام کرنے کا آغاز کرے ایسا نا ہو کہ دیر ہوجائے اور سول وار کی جانب تیزی کے ساتھ بڑھتے حالات کے نتیجے میں قتل عام کا دروازہ کھل جائے ۔

altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 93774 views writer
journalist
political analyst
.. View More