جیسے ہی موبائل کی مخصوصRingtone بجنے کی آواز آئی نازیش
اپنی گاڑی کی رفتار دھیمی کرتے ہوئے سڑک کے کنارے Freehand ٹریک پر لے
آیااور اپنے موبائل جو کہ گاڑی کے Windscreen پر لگا ہوا تھا پر نظر ڈالی
تو بے ساختہ اس کے لبوں پر شرارت بھری مسکراہٹ نمودار ہوگئی ۔کیوں کہ
Smartphone کے بڑے اسکرین پر سمیر جیسے Handsome دوست کی تصویرنظر آئی اور
Micro mouth piece پر ہی نازیش نے سلام کے ساتھ گفتگو کا آغاز کیا،خیر
خیریت دریافت کرتے ہوئے کہا۔کیا بات ہے Hero آج آپ موبائل پر وہ بھی اتنی
صبح،سمیر نے بھی سلام کے جواب اور اپنا حال بتانے کے بعد جواب دیا۔ یاد ہے
آپکو آپ ہمیشہ ہی سے ہمیں بے وقوٖف سمجھتے آئے ہیں اور بار ہا اس بات کا
بلمشافہ اظہار بھی کر چکے ہیں۔خیر آپ ابھی اسی وقت سیدھے SBI لنگر حوض
برانچ چلے آئیے بس۔
کیوں کیا ہوا سمیر Any problem ؟
سمیر نے کہا اور کچھ ہونا باقی ہے کیا؟
نوٹ بندی سے بھی بڑھکر اور کوئی Problem ہو سکتی ہے کیا؟
نازیش تمہیں پتہ ہی ہے نا ملک کے کیا حالات چل رہے ہیں۔
ہاں ہاں یقینا علم ہے یار پھر بھی۔ہوا کیا ہے ؟
ہونا کیاہے نازیش ! آپ جیسے Plastic currency کی خواہش اور وکا لت کرنے
والوں کی ہی بدولت ۔میں اور میرے جیسے ملک کے بے شمار افراد پریشان ہے بلکہ
ملک کے 90 فیصد عوام پریشان اور بد حال ہوئی ہیں۔خیر یہ سب باتیں رہنے دو
جلدی چلے آؤ۔
ٹھیک ہے یار تم Tension کیوں لیتے ہو۔ میں۔۔میں آ رہا ہوں۔۔پھر بھی بتاؤ تو
صحیح ہوا کیا ہے؟
ہونا کیا ہے یار نازیش۔ آپ کہتے تھے کہ دو تین ہفتہ سے قبل ہمارے ہاتھ
دوہزار کی نئی نوٹ آئی ہی نہیں سکتی۔ کیو ں کہا تھا نا؟
نازیش نے فخریہ انداز میں کہا ہاں، ہاں کہا تھا ۔
نازیش تو آپ یہ سمجھ لو کہ آپ نے غلط کہا تھا۔ کیوں کہ ہمارے اور دوہزار کی
نئی نوٹ کے بیچ اب زیادہ فاصلہ نہیں رہا ،بس تم چلے آؤ یار۔
اپنے تمام Appointment کی پرواہ کئے بنا نازیش گاڑی کا رُخSBI لنگر حوض
برانچ کی طرف کیا اور من ہی من مسکراتے ہوئے گاڑی دوڑانے لگا۔جیسے ہی Bank
پہنچا یہاں لگی لمبی Recorded قطار دیکھ کر حیران ہوئے بنا نہیں رہ
سکا۔سوچنے لگا اور کچھ افراد اس میں لگ جائیں تو یقینا یہ 1 KMقطار
ہوجائے۔قطار میں ٹہرے ہوئے لوگوں کو دیکھ کر سوچنے لگا کاش ہماری عوام یہی
اتفاق اور اتحاد ملک کے حالات سدھارنے میں،ترقی کی راہ میں، گھپلے گھوٹالوں
میں ملوث Leaders کو سبق سکھانے میں دکھاتی تو شائد ہم بھی Developed ملکوں
کی فہرست میں آجاتے۔قطار میں کون نہیں سبھی لگے ہیں کیا پنڈت۔کیا مولانا۔
کیا سیتا۔کیا مریم۔پتہ ہی نہیں چلتا کے ہندو کہاں ہے ؟ مسلماں کون ہے؟ سکھ
کیسے ہیں؟ عیسائی کیسے ہوتے ہیں؟ یہان تو صرف اور صرف ہندوستانی نظر آرہے
ہیں بس۔
بہت ہی مشکل سے اُسے اپنی گاڑی پارک کرنے کی جگہ نظر آئی فوراً اُسنے اپنی
گاڑی Park کی اور یہ سوچتے ہوئے گاڑی سے باہر آیا کہ اب سمیر کو کیسے تلاش
کیا جائے؟اگر وہ اسی قطار میں ہے تو بہت ہی مشکل ہوجائیگی کیونکہ یہاں ہر
مذہب۔ہر ذات،ہر برادری،ہر رنگ،ہر روپ،ہر نسل کے افراد کا اتنا حسین اجتماع
کم سے کم میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا!ہمارے بزرگوں نے دیکھا ہوگا اور
تب اُس دور میں اتنی مفاد پرستی بھی تو نہیں تھی۔اسی دوران سمیر نے بڑی جد
و جہد کے بعد دو ہزار کے دو نئے نوٹ حاصل کر لیے تھے اور جیسے ہی سمیر کی
نظر نازیش پر پڑی اُسنے فوراً وہ نوٹ اپنی پینٹ کے دونوں جیبوں میں رکھ لئے
در اصل وہ چاہتا تھا کہ نازیش کو بتائیں کے وہ بے وقوف نہیں!ادھر نازیش اس
کشمکش میں ہے کہ سمیر کو کیسے ڈھونڈا جائے۔خیر وہ اپنی سی کوشش میں لگا
اِدھر سے اُدھر نظریں دوڑاتا ہوا آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا ہوا قطار میں
سمیر کو تلاش رہا تھا کہ اچانک اسکے کانوں سے سمیر کی آواز ٹکرائی اور وہ
آواز کی سمت گھوم کر دیکھنے لگا۔یہ آواز اور تیز ہو گئی تھی سمیر بلند آواز
میں نازیش۔۔ نازیش۔۔ آواز لگا رہا تھاسمیر کی آواز میں ایک کھنک تھی جو کسی
فاتح کی آواز میں ہوتی ہے اور یہ کھنک بڑھتی ہی جارہی تھی۔جیسے جیسے سمیر
کی آواز بلند ہوتی گئی اور کھنک بڑھتی گئی نازیش اب نہ صرف آواز سُن رہا
تھا بلکہ سمیر کو دیکھ بھی رہا تھا،سمیر لمبی قطار میں سے، اتفاق و اتحاد
کے اجتماع سے ،بہت ہی مشکل سے اپنے آپکو نکالتا ہوا نظر آیا،نازیش نے دیکھا
کہ سمیر سامنے کی جانب سے آواز لگاتا ہوا اسی کی سمت آرہا ہے۔
نازیش اور سمیر کے بیچ اب بہت ہی کم فاصلہ رہ گیا تھا اور سمیر کسی غازی جو
کسی معرکہ سے کامیاب ہوکر آتا ہے ۔اُس انداز میں نازیش کے سامنے آگیا تھا۔
اپنی پینٹ کی جیبوں میں دونوں ہاتھ ڈالے یوں محسوس ہوتاتھاکہ کوئی
جانبازسپاہی جنگ جیت کر اپنی تلوار میان میں رکھ رہا ہو!اس سے قبل کہ نازیش
کوئی سوال کرتا یا کوئی وضاحات طلب کرتاسمیر بڑے ہی پُر جوش انداز میں کسی
شاہ کی طرح مخصوص لہجے میں کہا۔
نازیش یہ دیکھو۔۔۔۔۔۔
کہتے ہوئے بڑی تیزی سے اپنے دونوں ہاتھ اپنی پینٹ سے نکالے اور نازیش کے
چہرے کے آگے لہراتارہا۔
نازیش حیرت سے کبھی سمیر کے چہرے کو تو کبھی سمیر کے لہراتے ہوئے ہاتھوں کو
دیکھتا رہا!۔ |