آ ج کی تحریر بڑے دکھی دل کے ساتھ لکھ رہا ہوں اور یہ دکھ
مجھے سیاستدانوں پرنہیں عوام پر ہو رہا ہے مگر شاید عوام کے پاس بھی اور
کوئی راستہ نہ ہو یا وہ اختیار نہیں کرنا چاہتے،قیام پاکستان،سقوط ڈھاکہ تک
نہیں جاتے،سابق صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کے دور حکومت کے بعد سے ’’کہانی‘‘کا
آغاز کرتے ہیں۔جب محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی بر سر
اقتدار آئی اور صدارت کا منصب جناب آصف علی زرداری نے سنبھالااور وزیراعظم
کی کرسی پر یوسف رضا گیلانی براجمان ہوگئے۔ن لیگ کچھ عرصہ حکومتی اتحادی
ضرور رہی مگر پھر حکومت سے باہر آنے کا فیصلہ کر لیا،پیپلز پارٹی کے پانچ
سالہ دور اقتدار پر مختصر بات کی جائے تو ملکی وسائل کو بے دردی سے لوٹا
گیا،عوام کو روٹی،کپڑا،مکان ملنا تو دور لوڈشیڈنگ کے اندھیرے دیئے گئے جس
سے عوام کا سانس لینا بھی محال ہو چکا تھا،زرداری صاحب نے صرف اقتدار کو
بچانے کیلئے سیاسی قربانیاں دیں جس میں وزیراعظم کی قربانی نمایاں تھی،دہشت
گردی کیخلاف اگرچہ چند اقدامات ضرور کئے گئے مگر دہشت گردی عروج پر
تھی،لوڈشیڈنگ کا بھی راج تھا،عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے تھے،کوئی بھی
کام میرٹ پر نہیں ہو رہا تھا مگر جو عوام آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کو
گھروں،بازاروں،دفاتر،گلیوں میں بیٹھ کر گالیاں دیتے تھے وہی بعد میں مختلف
جلسوں،تقریبات میں دیکھے پائے گئے اور ان کا رویہ ایسا تھا جیسے ان کو پانچ
سال تک حکمرانوں سے کوئی شکایت تک نہ رہی ہو۔
اور زندہ ہے، بھٹو زندہ ہے بی بی ،جئے زرداری ،جئے بلاول کے نعرے لگاتے
نہیں تھکتے تھے
2013کے الیکشن میں نواز شریف الیکشن جیت کر وزیراعظم بنے ،الیکشن کمپین میں
عوام کو ’’لالی پاپ ‘‘دیئے گئے۔6ماہ سے 2سال کے دوران لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے
وعدے4سال بعد بھی وفا نہ ہوسکے،لوڈشیڈنگ کا حال آپ کے سامنے ہی ہے،دہشت
گردی کے واقعات کا بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کب کہاں دھماکہ ہوجائے،گوشت کو
تو چھوڑیں ،سبزیاں اور دالیں بھی غریب کی پہنچ سے باہر ہیں،غریب غریب تر
ہوتا جارہا ہے،تعلیم،صحت،روزگار اور دیگر سہولیات نہ ملنے پر حکمرانوں کو
گالیاں دینے والے عوام کو ضمنی انتخابات میں بھی دیکھا گیا ہے کہ بچوں
کیلئے فیس تک نہیں مگر ٹھپے پھر بھی شیر پر لگائے ،2013کے بعد جتنے بھی
ضمنی الیکشن ہوئے ہیں چند کو چھوڑ کر سب ن لیگ نے ہی جیتے ہیں اور’’ ہم‘‘نے
گالیاں بھی انہی حکمرانوں کو دیں ۔اب آئندہ الیکشن میں بھی
لوڈشیڈنگ،مہنگائی کا رونا رونے والے عوام صرف ایک ہی نعرہ لگائیں گے
دیکھو دیکھو کون آیا...........................شیر آیا شرآیا
2013کے الیکشن میں کے پی کے میں ضرور تبدیلی آئی تھی،عوام نے نئی قیادت کو
منتخب کیا تھا،عمران خان الیکشن سے چند روز قبل تک تو وزیراعظم بنتے نظر آ
رہے تھے مگر اسے دھاندلی کہا جائے یا کچھ اور جیت شیر کے حصہ میں آئی،عوام
کو کے پی کے حکومت سے بہت امیدیں تھیں،پنجاب،سندھ،بلوچستان بھی عمران خان
کو دیکھ رہا تھا کہ یہ بندہ کیا کرتا ہے،اس نے پاکستان کیلئے بہت کام کیا ،ورلڈ
کپ جیتا،شوکت خانم بنایا،نمل یونیورسٹی بنائی وغیرہ وغیرہ۔خان صاحب نے
90روز میں تبدیلی کا اعلان کیا،کرپشن کے خاتمے کا دعوی کیا،کے پی کے کو
مثالی صوبہ بنانے کا عزم کیا مگر کے پی کے کی صورتحال میں بہتری نہ آئی
اگرچہ اے این پی کی حکومت سے کارکردگی بہتر رہی مگر کہنے والے کہتے ہیں اے
این پی کو تو دہشت گردوں نے کام کرنے ہی نہیں دیا ،آئے روز دھماکے ہوتے تھے
مگر حقیقت بھی یہی ہے کہ زرداری صاحب کے دور حکومت میں جب اے این پی کے پاس
کے پی کے(سرحد)کی حکومت تھی ،دہشت گردی کا راج تھا۔خیر عمران خان بھی عوام
کی امیدوں پر پورا نہیں اترے مگر جب بھی تحریک انصاف کا کوئی جلسہ،جلوس
ہوتا ہے تو عوام یہی کہتے نظر آتے ہیں
جب تو آئے گا عمران بنے گا نیا پاکستان
حبیب جالب مرحوم یاد آگئے جنہوں نے ایوب خان کیخلاف دستور کے نام سے ایک
نظم لکھی ،جس کا ایک بند کچھ یوں ہے کہ
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا
آخر میں اتنا عرض کرنا چاہونگا کہ میں نے صرف تین پارٹیوں کا ذکر کرنا اس
لئے مناسب سمجھا کہ موجودہ حالات میں یہی بڑی اور نمایاں پارٹیاں ہیں جو
چاروں صوبوں میں ہیں ۔اور ہم 25کروڑ عوام صرف ان تین پارٹیوں سے تنگ ہیں جو
ہم پر حکمرانی کر رہے ہیں ہم میں اتنی بھی طاقت نہیں کہ ان کو سبق سکھا دیں
یا الیکشن جیت کر ایوانوں میں نہ آنے دیں تاکہ یہ ہماری طرح ہمارے بچوں کا
بھی استحصال نہ کریں،ہمارا ضمیر مر چکا ہے ،اگر ہم یہ عزم کر لیں کہ کوئی
بھی کرپٹ سیاستدان اسمبلی میں نہیں جانا چاہئے تو نہیں جائے گا۔شاید ہمیں
علم ہی نہیں کہ ووٹ کی طاقت سے بڑھ کر اور کوئی طاقت نہیں،ووٹ سے ہی ہم ان
پارٹیوں کو چھٹی کا دودھ یاددلا سکتے ہیں جو ہمیں کیڑے مکوڑے سمجھتے
ہیں،سوچئے گا ضرور25کروڑ عوام ملکر کرپٹ حکمرانوں کا راستہ ضرور روک سکتے
ہیں اور یہ ممکن بھی ہے اگر ہم چاہیں،ہمیں صرف اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے
تبدیلی خود آجائے گی۔
بقول اقبال
خونِ دل دے کے نکھاریں گے رْخِ برگِ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے
|