بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی مقبوضہ کشمیر آمد پر ساری
ریاست میں ایسی زبردست ہڑتال ہوئی کہ جس نے ماضی کے تمام احتجاج اور
ہڑتالیں جو اپنی مثال اپنی رہیں کے ریکارڈ بھی توڑ دیئے ریاست کے شہر وں
دیہاتوں ،گلی کوچوں میں ایک دکان ،کھوکا بھی نہ کھلا ۔ ہر طرف سناٹا چھایا
رہا باوجود اس کہ کے سید علی گیلانی ،میر واعظ عمر فاروق ،یاسین ملک ،شبیر
شاہ سمیت تمام قیادت اور کارکنان کو قید کر دیا گیا تھا۔مگر عوام نے زبردست
ہڑتال کر کے ثابت کیا کہ ان کا بھارت سرکار سے ذرا بھر تعلق ہے نہ دلچسپی
ہے ۔مودی نے کہا آپ کشمیری پتھر ماریں گے ہم پتھروں سے ٹنل بنا کر دیں گے
۔مگر کشمیریوں نے جواب دیا تم ہیرے جواہرات سے سڑکات بھی بنا دو تو ہمارا
مقصد آزادی ہے آزادی پر سب کچھ قربان کرتے رہیں گے ۔ جب مقبوضہ کشمیر کی
تحریک حریت کی بات آتی ہے تو پھر آزاد خطہ میں بیرسٹر سلطان محمود کا نام
بطور سیاستدان ایک متحرک کردار مانا جاتا ہے ۔ جو آزادخطہ سے بین الاقوامی
سطح پر کشمیر کاز کے لئے متحرک رہنے والے صف اول کی شخصیت ہیں ۔ گزشتہ دو
روزہ اپنے تنظیمی دورہ مظفرآباد میں اپنی پہلی ترجیح کشمیر کاز پر تقاریب
اور میڈیا سے نشست میں بات کرتے ہوئے اپنے خدشات کا برملا اظہار کر رہے تھے
کہ بین الاقوامی سطح پر جنوبی ایشیاءمیں امن کے حوالے سے بڑی دلچسپی پائی
جاتی ہے اور مقبوضہ کشمیر میںتحریک آزادی قربانیوں اور جدوجہد کی معراج پر
پہنچ چکی ہے حکومت پاکستان کا عالمی اقوام سطح پر جارحانہ کردار سامنے آنا
چاہیے تھا مگر ایسا لگتا ہے کہ نواز حکومت سب کے برعکس چل رہی ہے ۔ سلطان
محمود نے اپنی وزیراعظم فاروق حیدر سے ملاقات کا حال بھی بیان کیا کہ
وزیراعظم ان سے ملاقات کیلئے آئے تھے جنہوں نے گلگت بلتستان کے معاملے پر
اعتماد میں لینے سے متعلق بات کی مگر میں نے آئینی صوبہ بنانے کی صورت میں
مزاحمت کاواضح پیغام دیا ہے اور یہ مشور بھی دیا ہے کہ فاروق حیدراس معاملے
پر نواز شریف کی لائن پر نہ چلیں ۔ آئینی اصلاحات میں تعاون کریں گے تاہم
جناح سکینڈل سے لے کر جاگراں IIتک احتساب بھی شروع کریں گے ۔سلطان محمود کی
مظفرآباد آمد سے قبل اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نے عندیہ دیا کہ امریکن
صدر ٹرمپ پاک بھارت کشیدگی کی خاتمے کیلئے خود بھی کردار ادا کر سکتے ہیں
کیونکہ پاک بھارت کشیدگی بڑے سانحے کو جنم دے سکتی ہے ۔ جس کے رونما ہونے
سے پہلے امریکن انتظامیہ اپنا اثر رسوخ بروئے کار لائے گی ۔اس سے قبل چین
،ایران دیگر ممالک اور اقوام متحدہ بھی ثالثی کی پیش کش کر چکے ہیں مگر
بھارت کسی کی بھی ماننے کو تیار نہیں ہے ۔ تاہم نئے حالات میں عالمی رویے
اور دلچسپیاں خود حکومت پاکستان کے ٹھوس کردار کی متقاضی ہیں یہ اچھی بات
ہے کہ آزادکشمیر میں فاروق حیدر حکومت ادارے عالم کشمیر کانفرنس کے انعقاد
کیلئے کام کر رہے ہیں ۔جس میں صدر پاکستان ممنون حسین وزیراعظم نواز شریف
کے علاوہ مختلف ممالک اور اداروں کے نمائندوں کی شرکت بھی متوقع ہے ۔اگرچہ
پہلے مرحلے میں بہت بڑے پیمانے پر بریک تھرو نہ بھی ہو مگر اس کا آغاز ہی
آگے چل کر تسلسل قائم رکھتے ہوئے مثبت اثرات کا حامل ہو سکے گا۔ اس طرح
بلدیاتی انتخابات بھی یقینی بنانے کی تیاریوں کے احکامات اور مظفرآباد
میڈیکل کالج کا یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور سے الحاق کا فیصلہ خوش
آئند ہے اگرچہ گزشتہ سات ماہ میں خطے میں انداز حکمرانی اور اس کے بننے
والے ماحول میں تجسس کی کیفیت مایا ہے تاہم وزیراعظم فاروق حیدر کا اچانک
مختلف علاقوں کا دورہ کرنا اور لوگوں میں گھل مل جانا باعث مسرت پہلو ہے
۔جس کی لیگی رہنما خالد مغل کے مشورے کے مطابق وزراء،آفیسران بھی تقلید
کریں تو کم وقت میں زیادہ تیزی سے مثبت اثرات نمایاں ہونگے مگر کرے کون ؟
ان بے چاروں کو تو یہ نہیں پتہ ہوتا کہ ان کے اخبارات میں شائع ہونے والے
بیانات میں خود انہوں نے کیا کہا ہے ۔ جہاں تک آفیسران کا تعلق ہے تو
حکومتوں کا فریضہ پالیسی جاری کرنا اور سرکاری مشینری یعنی آفیسران کا
قانون کے مطابق اس پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوتا ہے ۔اس کیلئے وزیراعظم
وزراءکے احکامات ہدایات کا انتظار نہیں کرنا ہوتا ۔ جب وزیراعظم نے بار بار
کہا ہے کہ انصاف کی بالادستی ،قانون کی حکمرانی ،میرٹ کا بول بالا ہو گا تو
پھر ساری مشینری کو اس کے مطابق عمل پیرا رہنا چاہیے ۔چکار صوفیہ بی بی کے
ساتھ پیش آنے والے المناک واقعہ میں صحافی اعجاز میر سمیت جن لوگوں نے اپنا
فریضہ پورا کیا خراج تحسین کے حقدار ہیں مگر آئی جی پولیس سمیت تمام متعلقہ
آفیسران کو اپنی وردیاں اتار کر چوڑیاں پہن لینی چاہیے کہ اندوھناک واقعہ
پر ایف آئی آر اور کارروائی شرمناک سستی کا مظاہرہ ہے ۔جرم اور مجرم کی
کوئی برادری ،علاقہ ،مذہب ،زبان نہیں ہوتی یہ مجرم ہوتا ہے جو اپنے بڑوں
،برادریوں ،علاقے کیلئے بدنامی کاباعث بنتے ہیں جن کے ساتھ قانون کو پوری
طاقت کے ساتھ پیش آنا چاہیے ۔کوئی کسی کو پھانسی چڑھا سکتا ہے نہ رزق چھین
سکتا ہے یا ان آفیسران کو آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کا جوٹھا پانی پی لینا
چاہیے یا اے ڈی خواجہ کو یہاں لے آنا چاہیے ۔سرکار سے تنخواہ لینے والے
ایسے عناصر جو کمزور کو دبوچ لیتے ہیں اور جو دھمکائے اس کے سامنے بھیگی
بلی بن جاتے ہیں ۔اصل میں یہ سارے نظام معاشرے کی تباہی کے ذمہ دار ہیں جن
کی بزدلی سے ریاستیں ،حکومتیں اور معاشرے داغ دار ہوتے رہتے ہیں ۔ |