اپریل میں 8انچ تا ایک فٹ برفباری کو ماہرین موسمیات غیر
معمولی اہمیت دے رہے ہیں۔ ہزارہ کی گلیات اور ٹھنڈیانی میں یہ برفباری30سال
اور مری میں 40سال بعد ہوئی ہے۔ اپریل میں جب یہاں پھول کھلتے ہیں، تب
نتھیا گلی، ڈونگہ گلی، ایوبیہ میں 8انچ تک برفباری ہوئی۔ کشمیر میں پھولائی
کے موسم میں برفباری سے بادام، خوبانی، آلو بخارہ، آلوچہ سمیت دیگر میوہ
درختوں کے پھول گر گئے۔ جیسے پھول جڑ کا موسم ہو۔ پت جڑ کے بعد یہ پھول جڑ
بے موسمی تھا۔ دو تین دن جم کا دھوپ ہوئی۔ اس کے بعد موسلا دھار بارشوں اور
برفباری سے کئی علاقوں مین سیلاب آئے۔ لینڈ سلائیڈنگ ہوئی۔ پ اور کلوٹ ٹوٹ
گئے۔ تعمیرات کو نقصان ہوا۔ مقبوضہ کشمیر میں دریائے جہلم بپھر گیا۔ ایسا
خطرہ محسوس ہو رہا تھا کہ 2014کاسیلاب پھر سے دستک دے رہا ہے۔ اس خطے میں
بے موسمی برفباری سے درجہ حرارت اچانک گر گیا۔ زیادہ تر لوگ خاص طور پر بچے
اور بزرگ نزلہ زکام ، کھانسی وغیرہ میں مبتلا ہو گئے۔ آج رات بھی سردی
برقرار رہی۔ اگر چہ دھوپ نکل آئی ہے۔ پھر سے گرم ملبوسات استعمال ہونے لگی
ہیں۔
موسم کب بدل جاتا ہے ، کوئی نہیں جانتا۔ بدلتے موسم یہاں موسمی تبدیلیوں کا
پتہ دیتے ہیں۔ یہ سب انسان کا ہی کیا دھرا ہے۔ انسان نے قدرت کے نظام میں
بے جا مداخلت کی ہے ۔ جنگل کاٹ دیئے۔ دریاؤں کا رخ موڑ دیا۔ پہاڑوں کو ریزہ
ریزہ کر دیا۔ ان میں سرنگیں نکال دیں۔ زمین کا توازن بھی بگاڑ دیا۔ پہاڑ
ایک جگہ سے توڑ کر دوسری جگہ پر لگا دیئے۔ آج کے کثیر منزلہ پلازہ بھی پہاڑ
ہیں۔ جو انسان نے منتقل کئے ہیں۔ ان میں استعمال ہونے والی ریت، بجری،
سیمنٹ کبھی قدرتی پہاڑی سلسلوں کا حصہ تھی۔ جو انسانی پہاڑوں کا سلسلہ بن
گئی ہے۔
موسم کے رنگ نرالے ہیں۔ گرمی ہو یا سردی، بارش ہو یا برفباری، گرج چمک ہو
یا بادل برسیں، دھوپ ہو یا چھاؤں، انسان جلدی اکتا جاتا ہے۔ بے صبری کا
مظاہرہ کرتا ہے۔ کسی کیفیت میں اسے سکون نہیں۔ جب کہ اﷲ کی مرضی کے آگے
انسان بے بس ہے۔ اﷲ تعالیٰ وہی کرتے ہیں جو بہتر ہے۔ بلاشبہ کائنات کی ہر
تخلیق بہترین ہے۔ کوئی چیز بدشگون نہیں۔ کوئی موسم خراب یا بے ایمان نہیں۔
تا ہم انسان کی قدرت کے کاموں میں مداخلت کا صلہ بھی ملتا ہے۔ اس کی سزا
یہی ہے کہ قدرت مہربان نہیں رہتی۔ یہ زلزلہ ، سیلاب، آندھیاں، خشک سالیاں
سب انسان کو آزمائش کے طور پر ملتی ہیں۔ ہم آج جنگلوں کو کاٹ بھی رہے ہیں،
ان میں آگ بھی لگا رہے ہیں۔ ایٹمی، ہائیڈروجن بم، میزائل تجربات کرتے ہیں۔
زمین کے اندر ان ایٹمی دھماکوں سے اﷲ کی مخلوق تباہ کی جا رہی ہے۔ یہ تباہی
انتہائی ہولناک ہے۔ جس ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم کے پھٹنے سے کروڑوں لوگ
پلک چپکتے ہی ہلاک ہو سکتے ہیں، زمین کے اندر پھٹنے والے ان بموں سے کیا
حشر ہوتا ہو گا۔ اﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ کچھ اندازہ انسان بھی کر سکتا
ہے کہ یہ کتنی بڑی تباہی ہے۔ اس تباہی سے انسان کیسے بچ سکتا ہے۔ انسان اس
سے بھی بری طرح متاثر ہو تا ہے۔ متاثر ہونے کی صورتیں مختلف ہیں۔
وادی نیلم، لیپا، سدھن گلی، تولی پیر، لسڈنہ ، گلگت بلتستان میں برفباری
گرم موسم میں ہونا آئیندہ نوں یا مہینوں میں سیلابوں کے خطرات کی عکاسی
کرتا ہے۔ دسمبرتا فروری کی برف جم جاتی ہے۔ جون تا اگست یہ برف آہستہ آہستہ
پگلتی ہے یا گلیشئرز کا حصہ بن جاتی ہے۔ دسمبر تافروری کی برف نعمت ہے۔ یہی
دنیا میں پانی کا بڑا وسلیہ بنتی ہے۔ یہاں بھی سندھ، جہلم، چناب، نیلم،
سورو، اور دیگر دریا اس کی دین ہیں۔ تا ہم اپریل کی برف جمتی نہیں۔ درجہ
حرارت بڑھتے ہی فوری پگلتی ہے۔مئی میں درجہ حرارت میں اضافہ ہونا شروع ہوتا
ہے۔ تب سیلاب کا خطرہ پیدا ہوتا ہے۔ سائنسدان سمجھتے ہیں کہ شمالی پاکستان
اور کشمیر میں موسم کی تبدیلی گلیشئرز اور برف کو پگلا دے گی۔ جس سے میدانی
علاقوں کی طرف پانی کا بہاؤ تیز ہو جائے گا۔تب زمین کا کٹاؤ ہوتا ہے۔
چٹانیں کھسکتی ہیں۔ جس سے سیلابوں کا خطرہ سر پر منڈلانے لگتا ہے۔ سیلابوں
سے نمٹنے کے لئے یہاں کو حفاظتی بندوبست نہیں۔ سیلابی پانی کو روکنے یا اس
کا رخ موڑنے یا اسے ذخیرہ کرنے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ جب کہ
لاکھوں ایکڑ زمین پانی کے بغیر بنجر بنی ہے۔ اس قیمتی پانی کا درست استعمال
نہیں کیا جاتا۔ میٹھا پانی سمندر میں بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے۔ ڈیم اور
نہریں تعمیر نہ کرنے سے یہاں غلے کی قلت پیدا ہوتی ہے۔ اگر پانی کا درست
استعمال ہو تو یہاں وافر غلہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ جس سے مہنگائی بھی کم ہو
گی اور آمدن میں بھی اضافہ ہو گا۔ یہ زر مبادلہ کمانے کا بھی زریعہ بن سکتا
ہے۔ دیگر ممالک یہی سب کرتے ہیں۔ قدرت کے وسائل کی قدر کرتے ہیں۔اسے انسان
کی بہتری کے لئے بروئے کار لاتے ہیں۔پھولائی کے موسم میں پھولوں کا گرنا
یہاں میوہ جات کی پیداوار میں کمی سبب بنے گا۔ سیلابوں کے خطرات بھی بڑھ
رہے ہیں۔ اس لئے حکومت کے لئے پیشگی منصوبہ بندی کا موقع ہے۔ سارا الزام
موسمی تبدیلیوں پرڈالنے کے بجائے پیش بندی کی ضرورت ہے۔ موسمی تبدیلیوں سے
انسان کو اپنے منصوبوں میں موسم کے مطابق تبدیلی لانی ہے۔ غیر روایتی
اقدامات کی جانب توجہ دینا ہے۔ ورنہ نقصان اور خمیازہ بھگتنے کے لئے تیار
رہنا ہے۔ |