پاک بھارت کشیدگی کی بنیاد بھارت کی وہ ہٹ دھر می ہے جس
کے تحت اس نے کشمیر کو اپنی جاگیر بنا رکھا ہے اور نہتے کشمیروں پر گزشتہ
70سال سے بد ترین مظالم ڈھائے چلا جارہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بھارت نے
پاکستان کو پہلے دن سے ہی تسلیم نہیں کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت
کشمیر کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سرحدوں کی مسلسل خلاف ورزی کرتاچلا آرہا ہے۔
ماضی میں پاکستان سے تین باقاعدہ جنگیں ہوچکی ہیں۔ منصوبہ بندی کے تحت
بھارت نے سابقہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے میں کلیدی کردار
ادا کیا۔ جس کے شواہد بے شمار پائے جاتے ہیں۔ان جنگوں کی تفصیل کچھ اس طرح
ہے کہ پہلی پاک بھارت جنگ1947میں ہوئی جسے کشمیر میں پہلی پاک بھارت جنگ کا
نام بھی دیا جاتا ہے یہ جنگ کشمیر پر لڑی گئی ۔ دوسرے پاک بھارت جنگ1965کی
ہے۔ 17روزہ اس جنگ میں بھارت کو شکست ہوئی بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا
پڑا ۔ اس جنگ کا بدلہ لینے کے لیے بھارت نے تیاری شروع کی ۔ اس بار اس نے
پاکستان کے مشرقی حصے یعنی مشرقی پاکستان کو اپنا حدف بنا یا ، جنگ مغربی
حصے میں بھی ہوئی لیکن اس کابنیادی مقصد مشرقی پاکستان کو جدا کر کے بنگلہ
دیش بنا نا تھا۔ یہ تیسری جنگ تھی جو 1971میں دونوں ممالک کے درمیان ہوئی
اس میں پاکستان کا نقصان ہوا جس کی بنیادی وجہ ’گھر کو آگ لگ گئی گھر کے
چراغ سے‘ والی مثال تھی یعنی مشرقی پاکستان کے بنگلہ بولنے والوں کی اکثریت
نے آزادی کو نعرہ لگایا ، بھارت نے ان کی پشت پنائی کی، ہر طرح کی مدد
فراہم کی اور اس جنگ کے نتیجے میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ ان تین
باقاعدہ جنگوں کے علاوہ سرحدوں کی خلاف ورزیوں کا تو حساب ہی نہیں۔ کارگل
میں بھی پاکستان کی مصلح افواج نے بھارتی افواج کو الٹے منہ بھاگنے پر
مجبور کردیا تھا لیکن ، معاملا آگے نہیں بڑھا اور سیاسی حکومتوں کی مصلحت
آڑے آگئی۔ اب بھی بھارت پاکستان کی سرحدوں کی مسلسل خلاف ورزی کرتا رہتا
ہے۔ نہتے کشمیریوں پر بھارت کے مظالم سے دنیا واقف ہے۔ دنیا کی طاقت
ورقوتیں امریکہ، روس، برطانیہ، چین اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان
اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی اصل وجہ مسئلہ کشمیر ہے۔ جب تک کشمیریوں کو
ان کا جائز حق نہیں مل جاتا دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی جاری رہے گی۔
دنیا اس بات سے آگاہ ہے کہ یہ دنوں طاقتیں یعنی پاکستان اور بھارت اب جوہر
ی قوت بھی ہیں۔ ان کے مابین کشیدگی بڑھنے کی صورت میں اب معاملا روایتی جنگ
تک محدود نہیں رہے گا۔اس لیے دنیا کے بڑے ممالک دونوں ملکوں کے مابین
کشیدگی سے خوف زدہ بھی رہتے ہیں۔ وہ وقفہ وقفہ سے دونوں ممالک کو اپنے
درمیان کشیدگی کی بنیادی وجہ یعنی کشمیر کے مسئلہ کو باہمی گفت و شنید سے
حل کرنے کی اپیلیں بھی کرتے رہے ہیں۔
بلاشبہ امریکہ دنیا کی بڑی جوہری طاقت ہے۔ یعنی وہ سپر پاور ہے۔ دہشت گردی
کے ہاتھوں وہ بھی پریشان اور متفکر ہے، وہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا بشمول
اسلامی ممالک دہشت گردی سے پریشان اور دہشت گردتنظیموں سے سے نمٹنے کی
تدبیروں میں لگے رہتے ہیں ۔ اس کے باوجود وقفے وقفے سے کہیں نہ کہیں دہشت
گردی کے واقعات ہوہی جاتے ہیں۔ دہشت گردی اپنی جگہ اور یہ ایک اہم اور وسیع
موضوع ہے یہاں میں یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ امریکہ نے پاکستان اور بھارت
کے درمیان کشیدگی اور مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنے
کی پیش کش کی ہے۔ امریکہ کے تعلقات کا تجزیہ کیا جائے تو اس کا حاصل یہ
نکلے گا کہ امریکہ پاکستان کے لیے قابل بھروسہ نہیں، پاکستانیوں کی یاد
داشت میں’ امریکی بحری بیڑے کی آمد ‘ محو نہیں ہوئی، ہم اس امریکی بحری
بیڑے کی پاکستانی ساحل پر آمد کی خوشی میں سرشار ہی رہے، لیکن وہ بحری بیڑا
نہ آنا تھا ، نہ ہی آیا اور بھارت نے اپنا کام کر دکھایا۔ امریکہ بادشاہ کی
ساکھ کچھ اچھی نہیں، یہ پاکستان سے ظاہر میں دوست اور اندر سے ان کی دوستی
کے تانے بانے بھارت سے زیادہ لگا کھاتے ہیں۔ پاکستان کے لیے امریکہ بہادر
کبھی بھی قابل اعتبار نہیں رہا، مستقبل میں بھی آثار بہتر دکھائی نہیں دے
رہے ۔
اب نئی امریکی پیشکش پر کچھ بات ، اقوام متحدہ میں امریکہ کی مستقل سفیر
’نکی ہیلی‘(Nikki Haley)نے حال ہی ایک بیانیے میں فرمایا ہے کہ ٹرمپ
انتظامیہ پاک بھارت کشیدگی کے خاتمے کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے
تیار ہے۔ نکی ہیلی نے ماہ کے لیے سلامتی کونسل کی صدارت سنبھالنے کے بعد
واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ یہ بالکل درست ہے کہ ٹرمپ
انتظامیہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کے حوالے سے تحفظات کا شکارہے
اور یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ اس کشیدگی کوکم کرنے کے لیے ہم کس طرح کردار ادا
کرسکتے ہیں۔واضح رہے کہ امریکی تاریخ میں کابینہ سطح کے کسی بھی اعلیٰ
امریکی عہدیدار کی جانب سے پاک بھارت کشیدگی کے خاتمے کے لیے موثر کردار
ادا کرنے کا یہ پہلا واضح بیان ہے۔ امریکی سفیر نکی ہیلی اس وقت بہت پر
امید تھیں کہ ٹرمپ انتظامیہ اس حوالے سے کوئی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اگر
واقعی یہ امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسی کا حصہ ہے پھر تو ممکن ہے کہ ایسا کچھ
ہو لیکن امریکہ کا ماضی کا کردار ایسا کچھ ہونے کی آس نہیں دلا تا۔ حیرت کی
بات یہ بھی ہے کہ نکی ہیلی بھارت نژاد ہیں، صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کے
مسلمان مخالف اشارے تاریخ کا حصہ ہیں۔ حالیہ مسلم ملکوں کے خلاف امریکہ کی
کاروائی اور دیگر باتیں اس بات کا اِندیا دے رہی ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کی
جانب سے یہ کہیں ترپ کا پتہ تو نہیں۔ایک اور بات نکی نے اپنی پریس کانفرنس
میں اچھی کہی ۔ ان کا کہناتھا کہ ’’میراخیال ہے کہ ہمیں کچھ ہونے کا انتظار
نہیں کرنا چاہیے ۔ ہم کشیدگی دیکھ رہے ہیں جو کسی بھی وقت مزید بڑھ سکتی
ہے۔ لہٰذا ہمیں اتنا فعال ہونا چاہیے کہ ہم بھی مذاکرات کا حصہ بن سکیں‘‘۔
نکی ہیلی نے یہاں تک کہہ دیا کہ آپ امریکہ کی نیشنل سیکورٹی کونسل کے ارکان
کو دیکھیں گے لیکن یہ بھی حیران کن نہیں ہوگا اگر اس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ
بھی حصہ لیں‘‘۔یہ بہت بری بات امریکہ کی جانب سے سامنے آئی ہے جو اس سے
پہلے کبھی نہیں کہی گئی۔
امریکہ کی سفیر نکی ہیلی کی باتوں پر یقین کرنے کو جی تو چاہتا ہے لیکن کیا
کیا جائے 70سال کا ریکارڈ ہمیں مجبور کردیتا ہے کہ امریکہ کبھی ہمارا نہیں
ہوسکتا۔ خاتون سفرکو کشیدگی نظر آرہی ہے ، انہیں روز روز بھارت کی جانب سے
کنٹرول لائن کی خلاف ورزی بھی نظر آنی چاہیے، بھارت کا کردار بلوچستان کے
انتہا پسند ، متعصب علیحدگی پسندوں کی کھلم کھلم حمایت اور مدد بھی نظر آنی
چاہیے، بھارت ، پاکستان کے باڈر پر بے گناہ شہریوں کو بلاجواز فائرنگ کر کے
شہید کررہا ہے ، یہ خلاف فرزیاں بھی امریکہ کو نظر آنی چاہیے، سب سے بڑھ کر
بھارت کی کشمیر میں ہٹ دھرمی ، ظلم و بربیت ، نہتے کشمیری مرد ،خواتین اور
بچوں کو ظلم کا نشانہ بنانا بھی نکی ہیلی اور امریکی انتظامیہ کو نظر آنا
چاہیے۔ کشمیریوں پر مظالم کی داستان ستر سال پرانی ہے۔ کشمیر پر پہلی پاک
بھارت جنگ 1947 میں لڑی گئی۔ وہ دن ہے اور آج کادن بھارت کشمیر پر مسلسل
جارہیت کیے جارہا ہے۔ نکی ہیلی کو یہ بھی معلوم ہوگیا ہوگا کہ بھارت نے
بلاسوچے سمجھے امریکہ کی ثالثی کی پیش کش کو مسترد کردیا ہے۔ بھارت پاکستان
کی جانب سے گفت وشنید اور مذاکرات کی پیشکش کو بھی مسترد کرتا رہاہے۔
بھارتی انتہا پسندوں کے بیانات اور دھمکیاں تو کھلی کتاب کی طرح ہیں،
بھارتی انتہاپسند ، متعصب ہندوں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے،
پاکستانی سیاست داں ہوں، تعلیم کے پیشے سے وابستہ ہوں، صحافی ہوں یا کھلاڑی
، شوبیز کے لوگ ہوں انتہاپسند ان کے خلاف مختلف قسم کے بیانات دیتے ہیں،
یہی نہیں بلکہ یہ انتہا پسند نریندر مودی کے تربیت یافتہ، ہم خیال و ہم
پیالہ ہندوں ان لوگوں کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جو بھارتی حق کی
بات کرتے ہیں، سچ کو سچ، غلط کو غلط کہتے ہیں۔کلکرنی کا منہ کالا کس وجہ سے
کیا گیا تھا ، یہی کہ اس نے ایک پاکستانی سیاست داں کی کتاب کی تعارفی
تقریب کا اہتمام کیا تھا۔انتہاپسندتو ایک طرف ہیں خود بھارتی حکمراں نریندر
مودی کی زبان اور بیانات سے پاکستان دشمنی واضح ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ امن
اور دوستی کی بات کی ہے، باہمی مذاکرات کے ذریعہ مسائل کو حل کرنے کی بات
کی ہے۔دیر آید درست آید ، بہت ممکن ہے امریکہ کو اس بات کا احساس ہوچکا ہو
کہ پاکستان حق پر ہے جب کہ بھارت ہٹ دھرمی اور بلاوجہ مسئلہ کو پرتشدد
بنارہا ہے۔ امریکی سفیر کی یہ بات بہت مناسب ہے کہ اس سے پہلے کہ کچھ
ہوجائے یعنی ہمیں کچھ ہو جانے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے اس سے پہلے ہی
فعال ہوجانا چاہیے۔ یہ بہت ہی مناسب بات ہے۔ اگر امریکہ بھارت کو کسی بھی
طرح مجبور کرے اور وہ ایسا کر سکتا ہے ۔ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ کی
بنیادمسئلہ کشمیر ہے جو ہندوستان کی تقسیم کا نا مکمل ایجنڈا ہے۔ اسی سبب
دونوں ملک تین باقاعدہ جنگیں لڑچکے ہیں۔ جنگ تو ہے ہی نقصان کا سودا کسی کا
کم کسی کا زیادہ۔ جنگ کا وہ دور جاچکا جب میدانی محازوں پر گولا باری ، توپ
اور ٹینکوں کا استعمال، ہوائی حملے، اینٹی ائر کرافٹ گن کا استعمال ہوا
کرتا تھا۔ اب دونوں ممالک جوہری قوت ہیں ۔ امریکہ کواسی احساس نے ثالثی کا
کرادار ادا کرنے پر مجبور کیا ۔ اس کی سوچ میں تبدیلی کی وجہ یہی معلوم
ہوتی ہے ۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اب جس نے پہل کر دی میدان اسی کا ہوگا ،
دوسرا فریق بھی پیچھے نہیں رہے گا جس قدر جانی و مالی نقصان ہوگا اس کا
اندازہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کی تاریخ اور اس کے مضمرات سے بخوبی لگا
یا جاسکتا ہے۔ اللہ نہ کرے کہ وہ وقت آئے ، نقصان پاکستان کا ہو یا بھارت
کا اس میں بسنے والے لوگوں کا نقصان ہوگا جو کسی بھی طرح مناسب
نہیں۔(11اپریل2017) |