سی ایس پی آر کی پریس لیز کے مطابق کلبھوشن یادیو بھارتی
جاسوس جو بھارت کی نیوی کا حاضر سروس ملازم تھا جس نے دہشت گردی کر کے یا
دہشت گردوں کو اسلحہ سپلائی کر کے یا پھر فنڈنگ کر کے نہ جانے کتنی قیمتی
جانیں ختم کی تھیں کو بلا آخر اس کے کرتوتوں کی پاداش میں آرمی ایکٹ کے تحت
موت کی سزا سنا دی گئی ہے۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے
اس سزا کی توثیق کر دی ہے۔کلبھوشن کو بلوچستان میں ایرانی سرحد کے قریب سے
پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیز نے گرفتار کیا تھا۔ کلبھوشن ایران کے اندر رہ
کر ایک مغربی ملک کے لیے بھی جاسوسی کر رہا تھا۔ایک سینئر صحافی کے مطابق
کہ کچھ دن پہلے ایران کے سفارتکاروں سے ایک ملاقات میں بتایا گیا تھا کہ
کلبھوشن ایران میں رہ کر یہ جاسوسی کر رہا تھااور ایران نے یہ بات پاکستان
کے ساتھ بھی شیئر کی ہے۔ کلبھوشن بھارت کی مدد سے تیار کردہ ایران کی پورٹ
چاربہار پر بھارت کی نیوی کی طرف سے تعینات تھا۔پاکستان کے ازلی دشمن بھارت
نے پاکستان کی گوادر پورٹ کو ثبوتاژ کرنے کے لیے اعلانیہ فنڈ مختص کیے
تھے۔بھارتی جاسوس کو گوادر پورٹ کو ثبوتاژ کرنے کے لیے لگایا گیا تھا۔ اس
نے انوسٹٹیگیشن میں اعترافی طور پر بتایا تھا کہ بھارت نے اُس کو بلوچستان
کے علیحدگی پسندوں اور کراچی میں بھارت کے ایجنٹوں کی فنڈنگ اور تخریبی
کاروائیوں میں مدد کے لیے لگایا تھا۔الیکٹرونک میڈیا میں اپنے اعترافی
ویڈیو بیان میں خود کہا کہ اُس نے کراچی کے بھیس بدل کر کئی دورے بھی کیے۔
کراچی اوربلوچستان کے علیحدگی پسندوں کو فنڈنگ بھی کی۔بھارتی سیاست دانوں،
میڈیا اور صحافیوں نے ایک پروگرام کے تحت اس موت کی سزا پر واویلا مچانا
شروع کر دیا ہے۔ پاکستان کو اس واویلے کی بل لکل فکر نہیں کرنی چاہیے۔ یہ
شور مچانے کا بھارتی سیاستدانوں اور میڈیا کا پرانا طریقہ ہے۔ اگر پاکستان
سے کوئی کبوتر اُڑ کر بھارتی فضاء میں داخل ہو جائے تو اسے پاکستانی جاسوس
ثابتکرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔کبوتر کا ایکسرے سٹی اسکین
تک کرواتے ہیں۔ اس طرح نادانی یا دانستہ، دنیا میں بھارتی حکومت کو شکی
مشہور کرنے میں اپناوقت اور تونائیاں ضائع کرتے ہیں۔ کمسن بچے سرحد کے قریب
کھیلتے ہوئے غلطی سے سرحد پار کر جائیں تو ان کو جاسوس ثابت کرنے کے لیے
برسوں انوسٹٹیگیشن کرتے ہیں۔ بھارتی حکومت نے اجمل قصاب کو ممبئی ہوٹل کیس
میں پھانسی پر چڑھا دیا۔ کشمیر کے فریڈم فائٹرز مقبول بٹ اور افضل گورو کو
جھوٹے مقدمے قائم کر کے پھانسی پر چڑھا چکا ہے۔پاکستان کی طرف سے اس
پراپگنڈے کا جواب یہ ہے کہ پہلے خود اپنی کاروائیوں کا جواب دو پھر پاکستان
کے خلاف اعتراض کرو۔بھارتی دہشت گرد وزیر اعظم مودی نے بھارتی یوم جمہوریہ
پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف وردی کرتے ہوئے بڑے متکبرانا انداز میں کہا
تھا کہ مجھے بلوچستان اور گلگت سے مد دکے لیے فون کال آ رہیں ہیں۔اس سے
زیادہ ثبوت اور کیا چاہییں ہیں۔ بھارت پاکستان میں مداخلت اور جاسوسی کروا
رہا ہے اور کر بھی رہا ہے۔ ریٹائرڈ میجر جنرل شاید عزیزنے اپنی کتاب ’’یہ
خاموشی کہاں تک‘‘ میں لکھا ہے کہ بھارت فاٹا میں طالبان کو دہشت گردی کی
ٹرینیگ دے رہا ہے۔ اس نے مزید لکھا کہ یہ بات اس نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف
کوبتاہی تھی مگر س نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ کیا یہ تحریر شدہ بیان بھارتی
مداخلت کا ثبوت نہیں ہے۔ کچھ عرصہ پہلے بھارت کے وزیر داخلہ نے دھمکی دے
تھی کی پاکستان کو پہلے دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا تھا اب اسے مذید دس ٹکڑوں
میں تقسیم کریں گے۔بھارت کے سیکورٹی کے مشیر بھی کہہ چکے ہیں کہ ہم
پاکستانیوں کو استعمال کر کے پاکستان کے ٹکڑے کریں گے۔ اس سے قبل بنگلہ دیش
میں ایک تقریب میں بھارت کے وزیر اعظم نے یہ تسلیم کیا ہے کہ مکتی باہنی
بھارت نے بنائی تھی اوربھارت نے اپنی فوج داخل کر کے بنگلہ دیش بنایا تھا۔
آپ بھارت کے پرنٹ اور الیکٹرک میڈیا کا مشاہدہ کریں تو آپ محسوس کریں گے کہ
بھارتی لیڈرپاکستان کے خلاف ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں جیسے کہ پاکستان ان
کی طفیلی ریاست ہے۔صاحبو! یہ رویہ تو بھارت کا ہے جس نے آج تک پاکستان کو
تسلیم نہیں کیا۔آئے دن پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کی کوششیں کرتا رہتا
ہے۔ گو کہ ہر فورم پر منہ کی بھی کھاتا ہے مگرپاکستان کے خلاف اپنی خباست
سے باز نہیں آتا۔ دوسری طرف ہمارے حکمران دہشت گرد مودی کو بغیر ویزے کے
اپنے گھر بلاتے ہیں اس کے ساتھ تحائف کاتبادلہ کرتے ہیں۔ آلو پیاز کی تجارت
کرتے ہیں۔ جبکہ بھارت پاکستان کے خلاف ہر فورم میں بکواس کرتا ہے رہتا ہے۔
ذرائع سوال کرتے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں نے خاموشی کیوں اختیار کی ہوئی ہے۔
کیا ان کے بھارت کے ساتھ کچھ پوشیدہ مفادات ہیں۔ کیا امریکا نے ایسی پالیسی
اختیار کرنے کی پاکستانی حکمرانوں کو ہدایت دی ہوئی ہے۔ دوسرے طرف پاکستان
کے خیر خواہ حکمرانوں کو بھارت کے جارحانہ رویہ کے خلاف مذرتانہ رویہ
اختیار کرنے پر شکایات کرتے رہتے ہیں۔ بھارت نے ظلم کے ذریعے کشمیریوں کو
دبانے کے لیے مہم شروع کی ہوئی ہے بیلٹ گن سے سیکڑوں کشمیریوں کو اندھا کر
دیا ہے۔ سیکڑوں کو شہید کر دیا ہے۔کشمیریوں پر ہر قسم کا ظلم روا رکھا ہوا
ہے۔ افغانستان سے بھارت کی ایما پر آئے روز دہشگردانہ حملے ہو رہے ہیں۔ لین
آف کنٹرول پر اندھا دھند فائرنگ کر رہا ہے۔یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ بھارت
ایٹمی حملے میں پہل کر سکتا ہے۔ کیا ایسی حالت میں پاکستان بھارت کے ساتھ
ہماری حکومت کارویہ درست ہے۔نہیں ہر گز نہیں۔ بھارت پر واضع کر دینا چاہیے
کہ اگر پاکستان نہیں تو کوئی اور بھی نہیں۔پاکستان کو اینٹ کا جواب پتھر سے
دینے کی پالیسی اختیار کرنے چاہیے۔لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے والی
بات ہے۔بھارتی نیوی کے حاضر سروس جاسوس کلبھوشن کی سزا موت پر عمل درآمند
ہونا چاہیے اور پاکستان کے خلاف بھارتی پراپگنڈے کا بھر پور جواب ہمارے
پاکستانی میڈیا کو بھی دینا چاہیے۔ |