آئے دن اخبارات کی ُسرخیاں ہمیں کچھ نہ کچھ تحر یر کرنے
پر مجبور کرتی ہی رہتی ہیں۔ روز مرہ زندگی کا ہر روز الحمدﷲ بڑے مطمئن
انداز سے فجر کی نمازکے ساتھ شروع ہوتا ہے ۔روحانی لذتّوں سے سرشا ر ہوکر
جب ہم مسجد سے باہر آتے ہیں۔تو دل و دماغ سے اپنے اپکو مطمئن پاتے ہیں۔لیکن
جسمانی تقاضے ہمیں چہل قدمی کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور ہم تیز رفتار سے
روزانہ اپنے مقرّر کردہ دائرہ حدودتک چہل قدمی کرتے ہوئے اسے بھی پورا
کردیتے ہیں۔
ان معاملات سے اپنے آپ کو فارغ کرتے کرتے وقت ہمیں اخبار بینی پر لا کھڑا
کردیتا ہے اورہمیشہ کی طرح ہم دنیا کا حال جاننے کے لیے اخبار کے مطالعہ
میں اپنے ا پ کو گم کردیتے ہیں۔ یوں تو آجdotcom کا دور چل رہاہے۔ہم
بھیInternet کے ذریعہ رنگ بدلتی دنیا کے رنگ دن بھر وقتاً فو قتاً دیکھتے
ہی رہتے ہیں۔لیکن اخبار بینی کا جو رنگ برسہا برس سے چڑھا ہے۔ اس رنگ کا
پھیکاپڑنا نا ممکن سا ہے۔ دراصل اخبار کے مطالعہ سے مراد تمام عالم کے
احوال جاننا ہی ہوتاہے ۔ یہ بات اور ہے کہ خاص دلچسپی اپنے ملک ، اپنی
ریاست،خاص الخاص اپنے شہر کی خبریں جاننا مسرت کا باعث ہوتا ہے۔
اپنے شہر کی خبریں نظر سے گزرتی ہیں تو بارہا افسوس کرنا پڑتا ہے۔ہاں کبھی
کبھار خوشی بھی ہوتی ہے۔یہ ساری خبریں ہماری نوجوان نسل سے متعلق ہوتی ہیں۔
کبھی کسی نوجوان کی خودکشی،کبھی تیزرفتار گاڑی دوڑاتے ہوئے حادثہ میں موت ۔کبھی
کسی غیر مذہب لڑکے سے شادی، کسی شراب کی دکان پرقتل یا پھر کسی چوری، لوٹ
کا ہی واقعہ وغیرہ۔ تعلیم کے نام پر بے حیا ئی کا کھیل وہ بھی سرِعام کسی
تھیٹر میں۔ کسی پارک۔ کسی ریسٹورنٹ اور عام راستوں پر کُھلے عام نا قابلِ
دید نا زیبا حر کتیں کرنے میں مشغول ،کارنامے پڑھ کراور تصاویر دیکھ کر
جتنا دکھ ہوتا ہے اُس سے کئی گناہ زیادہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ یہ کیا ہو رہا
ہے؟
کبھی کبھار ایسی خبر یں بھی ان نظروں سے گزرتی ہیں ۔عاشقی کے معاملہ میں
ایک دوسرے پر حملہ اور قتل۔ افسوس صد افسوس کہ یہ سب آج کے معاشرہ کی پہچان
بنتی جا رہی ہیں۔خوشی جو ہوتی ہے وہ سال میں صرف ایک بار کسی نوجوان کے
تعلیمی میدان میں کامیابی۔ریاست میں سرِ فہرست آنے کی خبر دیکھ کر۔
دماغ میں بارہا یہ سوال ہلچل مچاتاہے کہ۔
کیا آج سے پہلے ہمارے یہاں نوجوان نہیں تھے؟
کیا کبھی ہمارے آبا ؤ اجداد جوان نہیں تھے؟
ظاہر ہے سبھی اس دور سے گزرے ہیں۔لیکن اس طرح کی شرمسار کردینے والی
مصروفیات میں کبھی مبتلا نہیں رہے۔اس کے پس پردہ ایک حقیقت پوشیدہ ہے۔ وہ
یہ کہ ہر دور میں نوجوانوں کو اپنے بزرگوں کا خوف رہا ہے۔ نہ صرف اپنے
بزرگوں کا بلکہ محلہ کے بزرگ بھی نوجوانوں کو وقتاً فوقتاً روکتے اور تاکید
کرتے رہتے تھے ۔آج بھی یہ سلسلہ چند گنی چُنی قدیم بستیوں میں نظر آتا ہے۔
لیکن Life Modern کے نام پر جو Colonies قدیم بستیوں والوں سے آباد ہوئی
ہیں۔وہاں اس چیزکا تصور بھی گناہ سمجھا جاتا ہے۔ Flats میں زندگی بسر کرنے
والے Families کاتو یہ عالم ہوگیا ہے کہ انکی زندگی چہاردیواری اور Single
Door تک ہی سمٹ کر رہ گئی ہے۔ ان Flats کے شیدا ئی ۔ میں،میری بیوی،میرے
بچوں کے سوائے تمام عالم کوبے کار و بیگانہ سمجھتے ہیں۔ ستم تویہ ہے کہ ان
چہاردیواری اور Single Door میں مقیم ایک ہی Family کے چارافراد چاروں سمت
سر پٹ دوڑ رہے ہیں۔کسی کو کسی سے کوئی تعلق ہی نہیں۔
تعلق سے متعلق ایک بات بتاتا چلوں محترم والد صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ
’کسی درخت کی شاخیں چاہیں کسی بھی سمت پھیل جائے، لیکن جڑوں سے اپنا تعلق
نہیں چھوڑتی‘ کاش Modern Life جینے والیFamilies اس بات پر غور کرتے اور
اپنے آبا و اجداد سے بے تعلق نہ ہوتے۔
معاشرہ میں ناسور کی طرح دن بہ دن پروان چڑھتی ہوئی برائیوں کی بنیاد یہی
ہے۔یعنی ہم اپنی جڑوں سے اپنا تعلق منقطع کر کے کامیابی و کامرانی کی جستجو
میں یوں اپنے آپ کو جھونک کر۔ اپنی زندگی کو اپنی ناقص سمجھ کے مطابق چلانے
کی نا کام کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔یہ بھی بھلا بیٹھے ہیں کہ ہمارا وجود بھی
انھیں بزرگوں کا صدقہ ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے انہیں کے ذریعہ ہمیں اس دنیائے فانی میں لایا ہے۔ابھی بھی وقت
ہے ہمارے پاس کہ ہم اپنے ا ٓپ کا تجزیہ کریں اور کوئی ٹھوس اقدام کریں ۔
تاکہ اخلاقی، سماجی،مذہبی پستی کے دلدل میں پھنستی ہوئی نوجوان نسل کو راہ
راست پر گامزن کریں۔ ورنہ یہ Modern Life میں مگن ہما ری مستی آنے والے
دنوں میں ہماری عزت،دولت اور شہرت کے لئے مذاق نہ بن جائے۔
کیوں کے and Twitter Facebook,whatsapp میں گم نوجوان نسل Google کے O میں
اپنے آپکو قیدکر کے مستقبل کے کھُلے راستے تلاش رہے ہیں۔
ابھی حال ہی میں ہمارے شہر میں ایک ایساحادثہ ہوا جو تمام سرپرستوں کے لئے
باعث غور و فکر بنا۔نوجوانوں نے کھیل کے نام پر نہ صرف اپنے ہی دوست کی جان
لے لی بلکہ سارے منظر کو اپنے آئی فون کے توسط سے فلم بندی کی اور Whatsapp
کے ذریعہ تمام شہر میں شوقیہ طور پر اسے گشت بھی کیا۔اپنے بڑوں کے بے جا
لاڈ پیار نے انھیں اس دو راہے پر لا کھڑا کیا ،جس فون کو اپنی ہر شے سے
عزیز رکھتے تھے اُسی نے انھیں قانون کے حوالے کردیا اور ماں باپ اپنا چین
وسکون برباد کرکے انکے روشن مستقبل کے لئے دن رات محنت و مشقت میں لگے ہیں
اور یہ نسل اندھیر ی راہوں پر خوشی خوشی اپنے آپکو ڈالے تمام ذمہ داریوں سے
بے پرواہ اپنی منزل کالی کوٹھری کو بنا بیٹھے ہیں۔
کیاایسا لگتا ہے یہ نسل اپنے بزرگوں کا کوئی نام رکھ پائیگی ؟
کیاایسا لگتا ہے یہ نسل خود کے کوئی کام آئیگی؟
یا پھر ہماری نوجوان نسل صرف اور صرف i-phone ہی میں غرق ہوجائیگی؟ |