شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں کہ ایک
پہلوان جسم کے مختلف حصوں پر تصاویر گدوانے والے ایک شخص کے پاس گیا اور
اسے کہا کہ میرے جسم پر شیر کی تصویر گود دے لیکن شیر نہایت ہیبت ناک اور
بپھری ہوئی صورت کا ہو کہ میں میدان جنگ اور گانے بجانے کی محافل میں جاﺅں
تو ایسے ہیبت ناک بپھرے ہوئے شیر کی تصویر سے میرا حوصلہ بڑھے اور لوگوں پر
میری دہشت چھا جائے۔ جسم پر تصاویر گودنے والے شخص نے اپنے اوزار سنبھالے
اور باریک سوئی سے پہلوان کے شانے پر شیر کی تصویر گودنی شروع کی۔ سوئی بدن
پر چبھی تو پہلوان چیخ اٹھا”تو نے مجھے ما ر ڈالا ہے۔ سوئی گود رہا ہے یا
نشتر گھونپ رہا ہے؟ وہ شخص بولا،تم ہی نے تو کہا تھا کہ شیر کی تصویر بنا
دو۔ پہلوان نے تکلیف سے کراہتے ہوئے کہا، شیر کا کون سا حصہ بنا رہے ہو؟اس
شخص نے کہا کہ، میں نے دُم سے شیر کی تصویر شروع کی ہے۔ پہلوان نے کراہتے
ہوئے کہا، دُم رہنے دو۔ کیا بے دُم شیر نہیں ہوتے؟ وہ شخص بولا، بہت اچھا
جناب، دُم نہیں بناتا۔ اس شخص نے سوئی چلانی شروع کی تو پہلوان پھر درد سے
چلایا، اب کیا بنا رہے ہو؟اس شخص نے کہا، شیر کا کان بنا رہا ہوں۔ پہلوان
غصے سے بولا، کیا کان بنانا ضروری ہے؟ میں نے بے کان کا شیر دیکھا ہے بس
ویسا ہی بنا دے۔ اس شخص نے سوئی چبھونی شروع کی تو پہلوان پھر تکلیف سے تڑپ
اٹھا اور بولا، اب کیا بنا رہے ہو؟اس شخص نے کہا کہ، شیرکا پیٹ بنا رہا ہوں۔
پہلوان بولا، پیٹ بنانے سے کیا فائدہ؟ کیا یہ شیر گوشت کھائے گا؟ بغیر پیٹ
کے شیر بنا دے۔ وہ شخص طیش میں آگیا۔ اپنے اوزار ایک طرف پھینکے اور
بولا”پہلوان یہ کام مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ جاﺅ، کسی اور سے جا کر بے سر، بے
دُم، بے کان اور بے دھڑ کا شیر بنوا لو۔ لا حول ولا قوة۔ ایسا شیر تو خدا
نے بھی نہیں بنایا“۔۔۔پہلوان نے پرویز مشرف نہیں دیکھا تھا وگرنہ شیر کی
تصویر گودنے والے شخص کو بے سر، بے دُم کا شیر دکھاتا! پرویز مشرف کے اپنی
سیاسی پارٹی کے اعلان پر سب سے زیادہ خوشیاں شوبز کی دنیا میں منائی جا رہی
ہیں۔ لندن سے”سیاسی اداکار“ کے خطاب پر فلمی دنیا میں مسرت کی لہر دوڑ گئی
ہے۔ پاکستان کی سیاست میں چودھری برادری اور بٹ برادری ہو سکتی ہے تو مشرف
برادری کیوں نہیں ہو سکتی؟ جناب کے سیاسی میدان میں قدم رکھنے پر بھانڈ بھی
خوشی سے پھولے نہیں سما رہے جبکہ ہیجڑے صدقے واری جاتے ہوئے نہیں تھکتے۔
فنکاروں اور اداکاروں کی حوصلہ افزائی جس قدر مشرف دور حکومت میں ہوئی ہے
کسی حکومت کو یہ شرف حاصل نہیں ہو سکا۔ سرکاری تقریبات ہوتیں یا نجی محافل،
صدر مشرف کا ناچ گانا اور شغل میلہ جنرل یحیٰ کی شوقین مزاجی کو بھی پیچھے
چھوڑ گیا تھا۔ ”سانوں نہر والے پل تے بلا کے، تے خورے ماہی کتھے رہ گیا۔۔۔“
رقص و سرور کی وہ محفل لوگوں کو آج بھی یاد ہے۔ ایک چنگا بھلا جرنیل تھا،
بہکی تقریر سے رہی سہی عزت بھی گنوا بیٹھا ہے۔ خدا جب کسی کو ذلیل کرنے پر
آتا ہے تو اس سے ایسی تقریریں کروانے لگتا ہے۔ مشرف دور حکومت میں بھارت کے
ساتھ تعلقات کشمیر یا پانی کے لئے نہیں ناچ گانے کے لئے کئے گئے تھے۔
فنکاروں کے لئے سرحدیں کھول دی گئی تھیں۔ شوبز کی دنیا مشرف کی احسان مند
ہے۔ جب بھی مشرف کے دور حکومت پر بات ہوتی ہے شوبز کی دنیا مشرف کی حمایت
میں بولتی ہے۔ بھارتی عوام کو بھی مشرف بہت پسند ہے۔ ”شوقیہ صحافی“اداکارہ
عتیقہ اوڈھو نے تو مشرف کا میڈیا سیکشن سنبھال لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مشرف
نے پاکستان سے صحافی خریدنے کی بہت کوشش کی ہے مگر جب کوئی راضی نہیں ہوا
تو یہ کام بھی شوبز کو سونپ دیا۔ موصوف کا سیاست میں قدم رکھنا قیامت کی
نشانیوں میں سے ایک ہے۔ بقول اس کے وہ سچ بولنے سے نہیں ڈرتا جبکہ سب سے
بڑا جھوٹ یہ ہے کہ” میں اللہ کو حاضرو ناظر جان کر کہتا ہوں کہ مجھے عافیہ
کے بارے میں کچھ علم نہیں کہ وہ کب اور کہاں گئی تھی“۔ دوسرا جھوٹ ”
پاکستان کو میری ضرورت ہے“۔ تیسرا جھوٹ ” پاکستان میں القاعدہ کے ٹھکانے
ہیں“۔ چوتھا جھوٹ ” میں کسی سے نہیں ڈرتا“۔۔۔غریب بیمار ہے۔ ۔۔”بہکی بہکی“
باتیں کرتا ہے۔۔۔پاک فوج کو داغدار کرنے والا جرنیل اپنے انجام کی طرف چل
نکلا ہے۔ چونکہ محاوروں کے استعمال میں مہارت رکھتا ہے لہٰذا چند محاورے
پیش خدمت ہیں ان میں سے جو جی میں آئے تختی پر لکھوا کر گردن میں لٹکا لے۔
چُلو بھر پانی میں ڈوب مرو۔۔۔یہ منہ اور مسور کی دال ۔۔۔کوا چلا ہنس کی چال
اپنی بھی بھول گیا۔۔۔آنکھوں میں خون اترنا۔۔۔الٹا چور کوتوال کو
ڈانٹے۔۔۔اپنے گریبان میں جھانکنا۔۔۔خون کے گھونٹ پینا۔۔۔لمبی لمبی
چھوڑنا۔۔۔رسی جل گئی لیکن بل نہیں گیا۔۔۔جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں۔۔۔کام
کا نہ کاج کا دشمن اناج کا۔۔۔اپنے منہ میاں مٹھو بننا۔۔۔پڑھے لکھے کو فارسی
کیا۔۔۔حسرتوں کے پاﺅں میں بیڑیاں نہیں ہوتیں۔۔۔گنجے کو خدا ناخن نہ
دے۔۔۔ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔۔۔بندر کے ہاتھ میں
ماچس۔۔۔جتھے دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی۔۔۔منہ ناں متھا جِن پہاڑوں
لتھا۔۔۔حضرت سلطان باہو فرماتے ہیں”دل کالے کولوں منہ کالا چنگا، جے کوئی
اس نوں جانے ہوُ“۔۔۔میڈیا نے موصوف کا اتنا ”توا“ لگا لیا ہے کہ اس غریب کے
غبارے سے ہوا نکال دی ہے
من کی من میں بات رہے تومن کو لاگے روگ
من کھولیں تو مشکل کر دیں جیون اپنا لوگ
اس بے سر، بے دُم شیر پر مزید کیا لکھوں۔۔۔؟اب تو قلم کو بھی حیا آنے لگی
ہے ۔۔۔! اب تک کے لیے اتنا کافی ہے۔ انتظار رہے گا آپ کی رائے کا۔ اللہ
حافظ |