بالآخر بابر اعوان کامیاب ہوگیا،
اس کے ساتھ وہ قوتیں بھی سرخرو ٹھہریں جو پہلے دن سے وکلاء کی عدلیہ بحالی
تحریک میں کبھی پوشیدہ اور کبھی کھل کر مخالفت کر رہی تھیں۔ تحریک کا مرکز
بھی لاہور تھا اور اس کی مخالفت بھی شائد سب سے زیادہ یہیں پر ہوئی، اب بھی
لاہور کو ہی اس تحریک کے اثرات ختم کرنے، عدلیہ اور وکلاء میں اختلافات کی
خلیج کو گہرا کرنے، وکلاء کو بدنام اور باہم دست و گریباں کرنے کے لئے چنا
گیا۔ اگر ہم بات کو تقریباً چار ماہ پہلے سے شروع کریں تو شائد زیادہ بہتر
طور پر سمجھ سکیں بلکہ اگر اس سے بھی پیچھے جنوری میں چلے جائیں تو کہانی
سمجھنے میں اور بھی زیادہ آسانی ہوجائے گی۔ لاہور بار ایسوسی ایشن کے
سالانہ انتخابات ہر سال جنوری میں ہوتے ہیں اور تقریباً سارا سال ہی
امیدواران اپنی انتخابی مہم رواں دواں رکھتے ہیں جو اگست کی سالانہ تعطیلات
کے بعد بھرپور عروج پکڑ لیتی ہے۔ جنوری 2010ء میں ہونے والے الیکشن کے
نتیجہ میں صدر لاہور بار ایسوسی ایشن سمیت کچھ ایسے امیدوار کامیاب ہوگئے
جو تحریک کے مخالف سمجھے جاتے تھے، جن کے پیچھے وہ گروپ متحرک و فعال تھے
جو بالواسطہ یا بلا واسطہ تحریک کی کامیابی کے بعد نقصان اٹھا چکے تھے، ان
میں لطیف کھوسہ گروپ، احسن بھون گروپ، رمضان چودھری گروپ وغیرہ بالخصوص
قابل ذکر ہیں۔ ان لوگوں اور گروپوں نے چونکہ تحریک کی مخالفت کی تھی اور یہ
براہ راست اس کی زد میں بھی آگئے اس لئے جب لاہور بار میں دونوں بڑے
امیدوار ناکام ہوئے اور ساجد بشیر شیخ چند ووٹوں کی برتری سے فتح یاب ہوا
تو مذکورہ بالا تحریک مخالف گروپوں اور شخصیات کو ایک طرح کا اطمینان قلب
نصیب ہوگیا۔ تب سے ہی بابر اعوان سمیت حکومتی اور تحریک کی ڈسی ہوئی قوتیں
موقع کی تلاش میں تھیں جو انہیں تقریباً چار ماہ قبل چیف جسٹس لاہور ہائی
کورٹ کی چند انتظامی غلطیوں کے باعث ہاتھ آگیا۔
چار ماہ قبل لاہور کے سیشن کورٹ میں عدالتی عملہ کی بھرتیوں کا کام شروع
ہوا جس کی مبینہ طور پر نگرانی ہائی کورٹ سے کی جارہی تھی۔ اس وقت یہ افواہ
بار میں گردش کررہی تھی کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے صاحبزادے اور ان کے
داماد، رجسٹرار ہائی کورٹ کے ساتھ مل کر بھرتیوں میں اپنا ”کردار“ ادا
کررہے ہیں، اس افواہ کے اتنا پھیل جانے کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس سے قبل
عدالت میں وکلاء کے کوٹ اور ٹائیاں اتروانے کا کام ہوچکا تھا اور اکثر
وکلاء خواجہ شریف سے اس وجہ سے ناراض بھی تھے، سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ
لاہور بار کے عہدیداران اسی بنیاد پر سیشن جج شیخ زوار کے پاس اپنا حصہ
لینے کے لئے پہنچ گئے، جب سیشن جج نے انکار کیا تو عہدیداران اور وکلاء میں
موجود ایک خاص مفاد پرست ٹولے کو یہ بات ہضم نہ ہوئی چنانچہ بار کے جنرل
ہاﺅس میں سیشن جج کے خلاف، ان کی ٹرانسفر کے لئے ایک قرار داد منظور کروائی
گئی اور چیف جسٹس سے مطالبہ کیا گیا کہ سیشن جج کو فی الفور ٹرانسفر کیا
جائے۔ چیف جسٹس کی جانب سے پہلے تو انکار کیا گیا، بعد ازاں یہ موقف اختیار
کیا گیا کہ سیشن جج ایک ”ایماندار“ جج ہیں اس لئے انہیں ٹرانسفر نہیں کیا
جائے گا۔ مطالبہ کیا جاتا رہا اور وقت گزرتا رہا حتیٰ کہ پہلے اگست کی
سالانہ تعطیلات، رمضان اور عید آگئی لیکن معاملہ حل نہ ہوسکا۔ عید کے بعد
اس انفرادی سطح پر شروع ہونے والے معاملہ کو انہیں شخصیات اور گروپوں نے
باقاعدہ ”ہائی جیک“ کرلیا جو اس تحریک کے شروع دن سے مخالف تھے۔ حالانکہ جب
یہ بات سامنے آگئی تھی کہ اب چند مخصوص اذہان اس معاملہ کو ایک مسئلہ بنا
رہے ہیں تو مستقبل کے کسی بڑے نقصان سے بچنے کے لئے سیشن جج کی ٹرانسفر
کردینی چاہئے تھی لیکن غیر دانشمندانہ رویہ کی وجہ سے معاملہ کو خوامخواہ
طول دیا اور ایک بڑے مسئلہ میں تبدیل کردیا گیا۔ دانشمندی کے فقدان،
معاملات کو صرف اپنی محدود نظر سے دیکھنے کے رویے اور سخت گیری کی وجہ سے
بات یہیں پر ختم نہ ہوئی اور دوسری طرف لاہور بار نے 27 ستمبر کو الٹی میٹم
دے دیا کہ اگر تین روز میں سیشن جج کا تبادلہ نہ کیا گیا تو وہ چیف جسٹس کی
عدالت کا گھیراﺅ کریں گے، اگر نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی تو بھی چیف جسٹس
سمیت باقی انتظامیہ کو کچھ سوچنا اور سمجھنا چاہئے تھا کہ ایک چھوٹے سے
مسئلہ کی وجہ سے مسائل زیادہ بڑے اور گھمبیر نہ ہوجائیں لیکن نہ تو کسی نے
غور کیا اور نہ ہی مسئلہ حل کیا اور بات جمعرات 30 ستمبر تک پہنچ گئی۔ یہاں
پر ایک اور بڑی حقیقت کا اظہار کرنا چاہوں گا کہ 30 ستمبر تک لاہور کے
وکلاء کی ایک غالب اکثریت ہرگز عہدیداران کے ساتھ نہ تھی بلکہ انہیں اکثر
وکلاء ہدف تنقید بناتے تھے کہ موجودہ عہدیداران نے وکلاء کو بدنام کرانے
اور ان کی دو سال سے زیادہ کی جدوجہد پر پانی بہانے کی دیدہ و دانستہ کوشش
کی ہے نیز وہ سیشن جج کے تبادلے کے مطالبہ کی صرف اور صرف اس لئے کسی حد تک
حمائت کرتے تھے کہ اگر اس ٹرانسفر سے اس معاملہ کو ایک بڑا مسئلہ بنانے
والوں کے منہ بند ہوتے ہیں اور مسئلہ حل ہوتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
جب 30 ستمبر کی دوپہر کو لاہور بار کے عہدیداران اور اسی مخصوص گروپ کے چند
وکلاء جو تعداد میں بھی بہت زیادہ نہیں تھے، نے لاہور بار سے جلوس نکالا
اور ہائی کورٹ پہنچ گئے تب بھی اگر چیف جسٹس ان سے ملاقات کر کے سیشن جج کے
تبادلہ کی یقین دہانی کرا دیتے تو مسئلہ ختم ہوجاتا لیکن پولیس کو ہائی
کورٹ کے اندر بلا کر خواہ مخواہ ایک اشتعال پیدا کیا گیا، جب چیف جسٹس کی
عدالت کے دو شیشے ٹوٹ گئے (یہ معلوم کرنا بھی ضروری ہے کہ وہ واقعی وکلاء
نے توڑے یا کالی وردیوں میں کسی ایجنسی کے لوگوں نے) تو لاہور بار کے
عہدیداران کو ایوان عدل کے بار روم سے اس وقت گرفتار کرلیا گیا جب وہ پریس
کانفرنس کررہے تھے اور جب ان کے خلاف کسی قسم کا کوئی کیس رجسٹر نہیں ہوا
تھا، گرفتاری شام چھ بجے عمل میں لائی گئی اور دہشت گردی کی ایف آئی آر کا
اندراج رات 11/12بجے کیا گیا جو بذات خود ایک غیر قانونی اور غیر آئینی فعل
تھا، پورے میڈیا کے سامنے بار روم کے اندر داخل ہوکر عہدیداران کو گرفتار
کرنا ایک ایسا عمل تھا جس نے پورے ملک کے وکلاء میں تشویش کی لہر دوڑا دی
اور عہدیداران کے ساتھ تھوڑی سی ہمدردی واپس آگئی۔ اگلے روز یعنی جمعہ (یکم
اکتوبر) کے روز دوبارہ ایک ایسا کام سر انجام دیا گیا جس کی قطعاً کوئی
ضرورت نہ تھی اور جس نے ساری صورتحال کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا۔ جمعہ کی
نماز سے تھوڑی دیر قبل پولیس نے وہ کاروائی کی کہ مشرف دور کا ظلم، بربریت
اور وحشت بھی ماند پڑ گئی۔ نہتے وکلاء کو اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا گیا
کہ ہٹلر کی روح بھی شرما گئی، ظلم و بربریت کی انتہاء کر دی گئی اور پوری
دنیا نے میڈیا کے توسط سے سب کچھ براہ راست دیکھا۔ وکلاء کو بار روم،
عدالتوں حتیٰ کہ طہارت خانوں میں مارا پیٹا گیا اور لہو لہان کردیا گیا، اس
مار پیٹ میں خواتین وکلاء کا لحاظ بھی نہ رکھا گیا اور ان کے ساتھ بھی ایسا
سلوک کیا گیا کہ انسانیت بھی لرز اٹھی۔ یہ ایک ایسا فعل تھا جو یقیناً
عدالتی اور دیگر حکام بالا کی ہدائت کی روشنی میں سرانجام دیا گیا تھا،
ایوان عدل کے باہر پولیس نے اس طرح بھنگڑے ڈالے اور ”فتح“ کے شادیانے بجائے
کہ شائد بھارتی افواج کشمیریوں کے ساتھ اور اسرائیلی افواج فلسطینیوں کے
ساتھ ایسا نہ کرتی ہوں گی۔یہ ایک ایسا گھناﺅنا فعل تھا جس نے فوری طور پر
دو کام کئے، بار کے راندئہ درگاہ اور ملعون لوگوں کے ساتھ عام وکلاءکو
ہمدردی ہو گئی اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے ساتھ بے پناہ نفرت!کوئی بھی
ذی شعور یہ ماننے کے لئے ہرگز تیار نہیں کہ ایسی بربریت بغیر کسی حکم کے کی
گئی ہوگی، نتیجہ یہ نکلا کہ سپریم کورٹ کو اس پر ایکشن لینا پڑا اور وہ لوگ
جو ایوان عدل کے بار روم میں وکلاء کی نفرت کے باعث داخل ہونے کی جرات نہیں
کرتے تھے وہ نہ صرف فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے آئے بلکہ انہیں پھولوں کے
ہار پہنائے گئے اور وہ راتوں رات ”ولن“ سے ”ہیرو“ میں بدل گئے۔ جب کسی کے
ساتھ مقابلہ ہو رہا ہو اور مقابلہ بھی ڈنکے کی چوٹ پر ،تو ایسی غلطیوں کی
ہرگز کوئی گنجائش نہیں ہوا کرتی۔
ساری صورتحال سے کچھ اہم سوال اٹھتے ہیں کہ آخر وہ کونسے عوامل تھے جن کی
وجہ سے اس طرح کے انتہائی اقدام کئے گئے، پولیس کو کس نے حکم دیا کہ بار
رومز، عدالتوں اور وکلاء کے چیمبروں میں گھس کر ایسی کارروائی کرے؟ پابند
سلاسل ہونے کے باوجود لاہور بار کے صدر کو کس نے سہولت مہیا کی کہ وہ
”اندر“ بیٹھ کر میڈیا اور بار سے ٹیلیفونک خطاب کرسکے، اس میں یقینا سازشی
عناصر بھی شامل ہیں لیکن اس میں چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی انتظامی نا
اہلی، کوتاہ نظری اور زمینی حقائق سے عدم واقفیت یا چشم پوشی بھی شامل ہے۔
ایسا سیشن جج جو عرصہ دراز سے متنازعہ چلا آرہا تھا اس کو صرف ضد بازی کی
وجہ سے وعدہ کے باوجود ٹرانسفر نہ کرنا، وکلاء کے خلاف دہشت گردی کا پرچہ
کروانا، ایوان عدل کے بار روم سے عین پریس کانفرنس کے دوران میڈیا کے سامنے
گرفتار کرنا وہ بھی اس وقت جب ان کے خلاف کوئی پرچہ درج نہ تھا، اگلے روز
ایوان عدل پر چڑھائی اور شرمناک پولیس گردی، پھر اچنبھے کی بات یہ کہ ”دہشت
گردوں“ کو بغیر کسی ضمانت نامے کے چھوڑ دینا اور بالآخر پسپائی اور نئے
سیشن جج کی تقرری....! سب کچھ ایک خاص گروپ کے لوگوں کے حق میں گیا، اب بات
سیشن جج کی ٹرانسفر سے آگے نکل چکی ہے، اب وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ خواجہ
شریف کی رخصتی تک احتجاج ہوگا اور تو اور لاہور بار ایسوسی ایشن، پنجاب بار
کونسل اور پاکستان بار کونسل نے جسٹس افتخار چودھری کی بنائی گئی کمیٹی کو
بھی مسترد کردیا ہے، ابھی تو خواجہ شریف، ان کے صاحبزادے اور داماد پر
الزامات لگے ہیں اور لاہور بار میں داخلے پر پابندی لگی ہے، اب تو یہ خدشات
پیدا ہوگئے ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب جسٹس افتخار چودھری کو بھی الزامات کا
سامنا کرنا پڑے گا، ان پر پابندیاں لگائی جائیں گی اور وہ دن شائد 13
اکتوبر ہوگا، یا جب این آر او اور صدر کے دو عہدوں کے کیسز کا فیصلہ سنایا
جائے گا۔ محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے لیکن اگر آپ خود فریق مخالف کو
مواقع دیں گے، خود ایسے حالات پیدا کردیں گے تو کون بیوقوف ہوگا جو ان
مواقع اور سازگار حالات سے فائدہ نہ اٹھائے گا؟بابر اعوان کو جزوی کامیابی
تو نصیب ہوگئی، کیا جسٹس افتخار چودھری صورتحال کو سمجھ کر دوسروں کو سمجھا
پائیں گے؟ کیا حامد خان وکلاءکی خواہشات کے مطابق الیکشن میں امیدواروں کی
حمائت کا فیصلہ کرپائیں گے؟ کیا وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرسکتے ہیں؟
ابھی مسائل ختم نہیں ہوئے، ابھی حکومت اور بابر اعوان بے چین ہیں، ابھی نا
عاقبت اندیشی ختم نہیں ہوئی، ابھی تو سلسلہ شروع ہوا ہے، ابھی تو امتحان کا
آغاز ہے، ابھی تو جنگ شروع ہوئی ہے، ابھی سازشیں جاری ہیں! |