انسان کی اچھی صحت کے لئے خوراک کے ساتھ تفریحی اور کھیل
کود بھی ضروری ہے صدیوں پہلے انسان کے پاس وافر مقدار میں جہاں خوراک کی
کمی تھی تو اس کے پاس تفریحی کا سامان بھی نہ تھا تو انسان اپنی خوراک اور
تفریحی کے لئے حاصل اشیاءکو استعمال میں لاکر تفریحی کا سامان پیدا کرتا
رہا ہے-
اس نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کھیل کے میدان میں کر کے اس کو جنگ کے میدان میں
لے گیا پھر اس طاقت کو آزما کر تخت تک جا پہنچا ۔ اب صدیوں پہلے انسان کے
پاس وہ سہولیات تو نہ تھی جو آج کے جدید دور میں موجود ہیں اس وقت انسان
مقابلہ بازی لڑ کر یا پھر کسی وزنی چیز کو اٹھا کر کرتا تھا جس سے اس کے
طاقت ور ہونے کا اندازہ ہو جاتا جس بنیاد پر اس کو قبیلے کا سردار یا پھر
بڑا ہونے کا رتبہ ملتا تھا-
ان طاقت کے مظاہروں اور کھیلوں کے لئے انسان نے پتھر جیسی وزنی چیز کو اٹھا
کر اس پتھر اٹھانے والے کھیل کی ابتداء رکھی تاریخی حوالے تو پتھر اٹھانے
کے کھیل کے بہت کم ملتے ہیں کہ اس کی ابتداء کا دور کون سا تھا پر اس بات
سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے فرعون کے محلات جن کو اہرام
مصر کہا جاتا ہے اس کی مکمل تعمیر میں پتھر کو استعمال لایا گیا-
اس دور میں نہ تو مشین تھیں اور نہ ہی کو ئی اور وسائل سوائے افرادی قوت کے
تقریباً چار من وزنی پتھر کے ہزاورں ٹکرے اتنی بلندی تک انسانی کندھوں پر
لاد کر لے جاتے رہے ہوں گے دور بدلتے رہے حکومتیں جنگوں اور طاقت کی بنیاد
پر حاصل کی جاتی تھیں ان جنگجوں نے بھی اپنے آپ کو میدان جنگ میں اتارنے سے
پہلے اپنی طاقت کا اندازہ ایسے وزن اٹھاکر اور اپنے کھیل سے فن میں مہارت
حاصل کرنے کے بعد کیا ہوگا -
موجودہ جنگیں ٹیکنالوجی کی ہیں پر پہلے دور میں روایتی جنگیں ہوتی تھی تو
اس کے لئے فوجیوں کے انتخاب میں پہلے زور آزمائی کی جاتی تھی جس میں امتحان
کی پہلی سیڑھی پتھر اٹھانا ہوتا تھا اس میں زیادہ وزنی پتھر اٹھانے والے
طاقتور انسان کو فوجی عہدے بھی دیے جاتے تھے پتھر اٹھانے کا کھیل خلفاء
راشدین کے دور میں بھی رہا ہے اس کے بعد مغلیہ دور میں بھی بادشاہ اپنی
تفریحی اور فوجیوں کی طاقت کا اندازہ لگانے اور ان کے خون کو گرمانے کے لئے
اس طرح کے مقابلے کرواتے تھے-
پتھر اٹھانے کے کھیل کے ساتھ بادشاہ کشتی کے مقابلے بھی کرواتے تھے اس سے
آگے کے دور میں دنیا ترقی کا سفر کرنا شروع کرتی ہے زندگی کا ہر شعبہ جدت
کی طرف اپنا رخ موڑ لیتا ہے ایسے ہی کھیل کے میدان میں بھی ترقی ہونے لگی
اور نئے نئے کھیلوں کی ابتداء ہوتی ہے تو پرانے کھیل بھی نئے سانچے میں ڈھل
کر نئے ناموں کے ساتھ وجود میں آجاتے ہیں اب پرانے کھیل کشتی اور پتھر
اٹھانا بھی نئے کھیل ریسلنگ اور ویٹ لفٹنگ بن جاتے ہیں پر ان کی جتنی بھی
جدید شکلیں بن جائیں ان اصل شکل آج کے دور میں بھی موجود ہے-
پتھر اٹھانے والے صدیوں پرانے اس روایتی کھیل کو دیہاتوں میں پہلوانوں نے
زندہ رکھا ہو ہے آج بھی پاکستان کے مختلف علاقوں میں یہ کھیل زندہ ہے اور
اس کے مقابلے بھی ہوتے ہیں پا کستان میں پتھر اٹھانے کا کھیل کافی حد تک
پنجاب کے علاقوں جن میں زیادہ حصہ جنوبی پنجاب میں ہے ملتان٬ مظفر گڑھ٬
سرگودھا٬ جھنگ٬ میانوالی٬ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور وغیرہ شامل ہیں کے پی
کے میں یہ کھیل ڈیرہ اسماعیل خان شمالی علاقہ جات اور فاٹا وغیرہ میں اب
بھی موجود ہے پوٹھوہار اور کشمیر کے علاقوں میں بھی یہ کھیل موجود ہے جس کو
مقامی زبان میں بغدو کہتے ہیں-
عموماً اس کھیل میں استعمال ہو نے والے کا پتھر کا وزن سو کلو گرام سے شروع
ہو کر دو سو دس کلو گرام تک ہوتا ہے- ڈیرہ اسماعیل اور ڈیرہ غازی خان کی
تحصیل تونسہ کے پہاڑی علاقوں کے قبائل میں پتھر اٹھانے کا ایک کھیل دلچسپ
پہلو رکھتا ہے جس میں کسی نوجوان کی شادی ہونی ہوتی ہے تو اس کو پہلے وزنی
پتھر اٹھانا ہوتا ہے جس کو مقامی زبان میں وٹا اٹھانا کہتے ہیں- کامیاب
ہونے والے نوجوان کی شادی کی تاریخ طے کر دی جاتی ہے جبکہ ناکام ہونے والے
کھلاڑی کو دوبارہ تیاری کے ساتھ میدان میں اترنا پڑتا ہے ان علاقوں اور کے
پی کے میں شادی کی تقریبات خاص کر مہندی کی رات جس کو مقامی زبا ن میں
نگارے والی رات کہتے ہیں کو نوجوان پتھر اٹھا کر ہلا گلہ کرتے ہیں جو ان کی
شادی کی خوشی منانے کا انوکھا طریقہ ہے-
جنوبی پنجاب میں اکثر اس کے کھیل کے مقابلے کشتی کے پروگراموں ثقافتی
پروگراموں اور چھوٹے میلوں ٹھیلوں پر ہوتے ہیں دیہاتوں میں ایسے پتھر کسی
پہلوانوں کے اکھاڑوں یا پھر چھوٹے چھوٹے آستانوں پر ہوتے ہیں جب ان آستانوں
کے عرس اور میلے ہوتے ہیں تو پہلوان لوگوں کی تفریحی کے لئے کشتی کبڈی کے
مقابلوں کے ساتھ وٹا(پتھر) بھی اٹھاتے ہیں- ڈیرہ غازی خان کے علاقے چوٹی
زیر یں میں ہر سال 11اپریل کو وٹا (پتھر) اٹھانے کا مقابلہ منعقد ہوتا ہے
جس کی ابتداء90 ء کی دہائی میں مقامی سردار و سیاست دان سردار جعفر خان
لغاری نے کروائی تھی اب وہاں پر وٹا (پتھر )اٹھانے کا مقابلہ ہر سال
باقاعدگی سے منعقد ہوتا ہے جس کی سرپرستی اب بھی سردار جعفر خان لغاری کرتے
ہیں راجن پور کی تحصیل جام پور میں اور تحصیل راجن پور کے علاقوں میں بھی
چھوٹے چھوٹے پروگرام ہوتے ہیں جس میں وٹا (پتھر) اٹھایا جاتا ہے جام پور
میں حال ہی میں ایک ایسا ثقافتی میلہ منعقد کروایا گیا جس میں مختلف علاقوں
کے چالیس کھلاڑی مقابلے میں شامل ہوئے جنہوں نے 4 من 8 کلو وزنی پتھر
اٹھائے جس میں تین کھلاڑی کامیاب قرار پائے-
غلام عباس جن کا تعلق ڈیرہ غازی کے علاقے شادن لنڈ سے تھا اول دوسری پوزیشن
پر اعجاز لغاری اور تیسری پوزیشن پر سرفراز رہے- وہاں پر موجود 5من 2کلو
وزنی پتھر کوئی بھی کھلاڑی اٹھانے میں کامیاب نہ ہو سکا جبکہ کھلاڑیوں کو
تریبت دینے والے پہلوان ملک عبدالکریم ببر جن کا تعلق راجن پور کی تحصیل
جام پور سے ہے ان کا ریکارڈ ہے جو انہوں نے سخی سرور کی دربار موجود 5من 16
کلو وزنی پتھر 4اپریل 2008 ء کو اٹھایا تھا جس کو تاحال کوئی پہلوان اٹھانے
میں کامیاب نہیں رہا ہے- استاد عبدالکریم ببر کہتے ہیں اس کھیل کے اصول یہ
ہیں کہ پتھر کو کم وقت میں اٹھا کر عوام کے دائرے میں چکر لگانا ہوتا ہے
اور اس کو اٹھانے کے لئے زور کے ساتھ مہارت کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس کو
پہلے زمین سے ایک ٹانگ کے گوڈے تک لایا جاتا ہے اور بعد میں سینے سے لگا کر
کندھے پر لے جایا جاتا ہے- استاد عبدالکریم ببر اس بات کا افسوس کرتے ہیں
کہ حکومت کی طرف سے میلوں اور ثقافتی پروگراموں پر مقامی انتظامیہ کی
پابندی کی وجہ سے ایسے کھیل ختم ہوتے جا رہے ہیں جبکہ آنے والی نسل ان
کھیلوں سے نا واقف ہوگی موجودہ دور میں نوجوان نسل کمپیوٹر اور موبائل فون
پر اپنا وقت اور صحت برباد کر رہے ہیں ان کو کھیل کے میدانوں میں آکر ایسے
طاقت والے کھیلوں میں دلچسپی لینی چاہیے جس سے میدان آباد ہوں گے تو ہسپتال
ویران ہوں گے - |