ملٹری کورٹ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کو سزائے موت
سنا دی۔اس کے ساتھ ہی ہندوستان میں صف ماتم بچھ گئی ہے حالانکہ ابھی اس سزا
پر عمل درآمد ہونا باقی ہے۔ بھارتی میڈیا چلا رہا ہے بھارتی پارلیمنٹ میں
موجود چور شور مچا رہے ہیں ۔ وزیر خارجہ سشما سوراج نے اسے بھارت کا بیٹا
قرار دے دیا ہے اور پاکستان کو دھمکیاں دی ہیں۔ سب سے مضحلہ خیز بیان وزیر
داخلہ راج ناتھ سنگھ کا ہے (جو کچھ عرصہ قبل پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری
نثار کے منہ سے سچائی برداشت نہ کرتے ہوئے سارک میٹنگ سے فرار ہو کو
ائرپورٹ پہنچے اور انڈیا سدھار گئے) وہ کہتے ہیں کہ جب اس کے پاس ویلیڈ
بھارتی پاسپورٹ تھا تو وہ سپائی کیسے ہوا۔ سنگھ جی مانا کہ اس کے پاس
پاسپورٹ تھا مگر اس پاسپورت میں کیا کلبھوشن یادو لکھا تھا یا حسین مبارک
پٹیل لکھا تھا؟ کیا اس سوال کا کوئی جواب ہے آپ کے پاس کہ وہ ہندو ہونے کے
باوجودداپنی اصل شناخت چھپا کر خود کو مسلمان ظاہر کر کے کیوں پاکستان میں
داخل ہو رہا تھا؟ کیا اس نے بارڈر پر اپنے اصل کاغذات جن میں اس کا نیوی کا
حاضر سروس اہلکار ہونا ظاہر ہوتا ہو دکھائے تھے؟ اور اگر ایسا نہیں تھا تو
چچا غالب کے مطابق:
کچھ تو ہے جس کی پردا داری ہے
سب سے افسوسناک بیان اویسی صاحب کا ہے کیونکہ وہ ایک دبنگ لیڈر کی شناخت
رکھتے ہیں جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتا مگر اس معاملے میں وہ بھی بھارتی
بولی بولنے لگے کہ پاکستان نے غلط کیا ہے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیئے
گئے وغیرہ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ بھارتی مسلمان غداری کریں، نہیں وہ بے شک
اہنے ملک کے وفادار رہیں مگر بلاوجہ پاکستان دشمن تو نہ بنیں، صرف اپنے
ہندو آقاؤں کو دکھانے اور خوش کرنے کے لیئے اس قسم کے بیان نہ دیں اور
حقیقت کی طرف سے آنکھیں بند نہ کریں۔
جب بھارت نے ممبئی اٹیک کا ڈرامہ کیا تھا تو پہلے ایک تصویر ٹی وی پر
دکھائی گئی اور بتایا گیا کہ یہ حملہ آور دہشت گردوں میں سے ایک ہے۔ یہ ایک
کلین شیو لڑکا سا تھا، کچھ دیر بعد اسی کی دوسری تصویر دکھائی گئی جس میں
وہ تاج محل ہوٹل کی ایک کھڑکی میں ایک ساتھی کے ساتھ نظر آ رہا تھا۔ بعد
ازاں پیش کی جانے والی ویڈیوز میں اسے ٹرین اسٹیشن پر حملہ کرتے فائرنگ
کرتے بھی دکھایا گیا اور فائنلی اسے کاما ہاسپٹل کے پاس زخمی حالت میں
گرفتار کر لیا گیا۔ نام کبھی کچھ تو کبھی کچھ بتایا گیا بالآخر اجمل قصاب
پر فیصلہ ہو گیا۔ تین پولیس آفیسرز ہیمنت کرکرے ، اشوک کامتے اور وجے
سیلسکر کے بارے میں بتایا گیا کہ ان پر کاما ہوسپٹل کے باہر فائرنگ کر کے
انہیں ہلاک کیا گیا اس دوران پولیس کی جوابی فائرنگ سے ایک دہشتگرد زخمی ہو
گیا وہ یہی اجمل قصاب تھا، اب ایک شخص ہر جگہ اور ہر کارروائی میں کیسے
شامل تھا اور وہی شخص زندہ گرفتار بھی ہو گیا جبکہ باقی ساتھی مارے گئے جن
کی کوئی تفصیل دستیاب نہیں۔پھر چچا غالب یاد آ گئے:
کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔
اس اجمل قصاب کی تصویریں دیکھیں اس نے دیوالی پوجا کا دھاگہ دائیں ہاتھ میں
باندھا ہوا ہے (یہ دھاگہ دیوالی پوجا کے بعد پنڈت باندحتا ہے جسے اتارا
نہیں جاتا یہاں تک کہ خود ہی گر جائے) اور مندرجہ ذیل لنک پر جا کر یہ
ویڈیو ملاھظہ فرمائیں کیا یہ زبان اور لہجہ پاکستان کا ہے اور کیا ایک
مسلمان یہ کہہ سکتا ہے کہ بھگوان مجھے معاف نہیں کرے گا؟
https://www.youtube.com/watch?v=RosudvL0EmA
یہ تین پولیس ٓآفیسرز آر ایس ایس کی نظروں میں کھٹک رہے تھے کیوں کہ انہوں
نے اس کے خلاف تحقیقات شروع کی ہوئی تھیں اور ہیمنت کرکرے نے تو ان کے لیئے
ہندو دہشتگرد کے الفاظ استعمال کیئے تھے۔اس واقعے کے بعد موجودہ وزیر اعظم
مودی جو اس وقت گجرات کے وزیر اعلی تھے نے تینوں آفیسرز کے خاندان کے لیئے
ایک ایک کروڑ روپے امداد کا اعلان کیا تھا جسے کرکرے کی بیوہ نے قبول کرنے
سے انکار کر دیا تھا ، کیونکہ وہ اصلیت سے واقف تھی ۔
ہندوستان نے اس نام نہاد اجمل قصاب کو پھانسی کی سزا دی اور اس پر عمل
درآمد کے بعد لاش غائب کر دی، یہی انہوں نے افضل گورو کے ساتھ کیا کہ
پھانسی کے بعد لاش غائب کر دی گھر والوں کے حوالے نہیں کی۔
ایسا ہی ایک واقعہ ۱۹۶۵ میں شام میں پیش آیا تھا جہاں خطرناک اسرائیلی
جاسوس ا یلی کوہن پکڑا گیا تھا، اس کو سرعام پھانسی دے کر لاش کو نامعلوم
مقام پر دفن کر دیا گیا۔
اب یہاں دیکھیں انصار برنی کی ہمدردی نے کشمیر سنگھ کو آزاد کرایا جو تیس
سال سے زیادہ عرصے تک بند تھا اس نے جاسوس ہونے کا اعتراف نہیں کیا تھا مگر
آزاد ہو کر سرحد کے پار اعتراف کر لیا۔ پھر زرداری حکومت کسی خفیہ وجہ کے
تحت سربجیت سنگھ کو آزاد کرنا چاہ رہی تھی جو اقراری جاسوس اور دہشتگرد تھا
جس نے پاکستانیوں کے خون سے ہاتھ بھی رنگے تھے۔ مگر بات قبل از وقت باہر آ
گئی تو بہانہ کیا گیا کہ نام میں غلطی ہوئی ہے ہم سرجیت سنگھ کو چھوڑ رہے
ہیں مگر سرجیت سنگھ نے بھی سرحد پار جا کر اپنے جاسوس ہونے کا اقرار کر
لیا۔ اس کے بعد دوبارہ سربجیت کے لیئے کوشش کی جا رہی تھی کہ ایک جھگڑے میں
وہ جیل میں ہلاک ہو گیا تو زرداری حکومت نے اس کی لاش ہندوستان کے حوالے کر
دی ۔ ہندوستانی حکومت جو اب تک اس پر لگائے گئے الزامات کی تردید کرتی رہی
تھی نے قلابازی کھائی اور سربجیت کو اعزات سے نوازا اس کی لاش کو پرچم میں
لپیٹا اوراپنا قومی ہیرو قرار دیا۔
اب یہ ہونا چاہیئے کہ اس سزائے موت پر جو کلبھوشن کو سنائی گئی ہے جلد از
جلد عمل کر دیا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت گزرنے کے ساتھ مصلھتیں سامنے
آنے لگیں اور دباؤبڑھنے لگے،پھانسی کے بعد اس کی لاش کا کریا کرم یہیں کر
دیا جائے اس کی لاش بھارت کے حوالے نہ کی جائے جیسے اس نے نام نہاد اجمل
قصاب کی لاش پاکستان کے حوالے نہیں کی۔اس سے دوسرے لوگ جو پاکستان کے خلاف
کام کر رہے ہیں ان کو عبرت ہو۔ اگر لاش بھارت کے حوالے کی گئی تو اسے
سرکاری اعزازت ملیں گے سمادھی تعمیر ہوگی اور دوسرے ایجنٹوں کا دل بڑھے گا
کہ ایسے کارنامے انجام دے کر اپنا نام کریں، بہتر ہے اسے ایک گمنام موت دے
دی جائے اور یہ پیغام بھیجا جائے کہ جو پاکستان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھے
گا اس کا یہ انجام ہو گا۔ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ورنہ
بہتر ہوتا کہ اس کو سرعام پھانسی دی جاتی۔
|