کسی بھی ملک کی دفاعی قوت کے لئے دو چیزیں درکار ہوتی ہیں
ایک طاقت ور مسلح افواج اور دوسرے تخریب کار خفیہ جاسوس۔ دونوں میں خفیہ
جاسوس کا نہایت ہی اہم رول ہوتا ہے۔ اسی کی مخبری پر ملک کی سلامتی کا دارو
مدار ہوتا ہے۔ اور وہ خفیہ جاسوس اپنے ملک کی سلامتی کے لئے اپنی جان کی
پرواہ کیے بغیر دوسرے ممالک میں چہرہ بدل کر اپنے ملک کی حفاظت پر مامور
ہوتا ہے۔ جس طرح پاکستان کی خفیہ تنظیم آئی ایس آئی ہے، امریکہ کی سی
آئی اے، اسرائیل کی موساد اسی طرح ہندوستان کی بھی خفیہ ایجنسی ’را‘ (ریسرچ
اینڈ اینالائسس ونگ) ہے جس کا قیام 1962 میں ہند چین جنگ اور 1965 میں ہند
پاک جنگ کے بعد 21 ستمبر 1968 کو عمل میں آیااس کا مرکزی دفتر ملک کی
راجدھانی میں واقع ہے۔ را میں قوم کے ذہین وفطین افراد شامل ہوتے ہیں جنہیں
شہرت وناموری مطلوب نہیں ہوتی ہے محض ملک و قوم کی حفاظت مقصود ہوتی ہے۔ را
کے ایجنٹ کے اہل خانہ تک کو پتہ نہیں ہوتا کہ وہ اس خفیہ مشن کا حصہ ہیں
حتی کہ وہ جو راز سینے میں چھپائے رکھتے ہیں اسے لے کر ہی دفن ہوجاتے ہیں
کسی کو کان وکان نہیں خبر ہوپاتی۔ اگر ملک میں حفاظتی حصار کی خاطر یہ
تنظیم نہ ہوتی تو شاید ملک کا نقشہ کچھ اور ہوتا کیوں کہ اس تنظیم نے ہر
محاذ پر کامیابی حاصل کی ہے اور کرتی رہے گی ۔ جب سے اس خفیہ تنظیم کی
بنیاد ڈالی گئی ہے تب سے لے کرآج تک یہ تنظیم اپنے مشن میں کامیاب ہے ۔ہمیں
فخر ہے بھارت کے ان بیٹوں پر جو گمنامی کی زندگی گزار کر اپنے مشن میں
مصروف رہتے ہوئے ہماری حفاظت پر مامور ہیں۔ واقعی اگر ان خفیہ بیٹوں کا
احسان ہم پر نہ ہوں تو ہم دشمنوں کے چنگل میں پھنس چکے ہوتے اور ملک درہم
برہم ہوجاتا ہمیں احسان مندہوناچاہئے ان کا کہ انہوں نے اپنی جان کی پرواہ
کیے بغیر ملک وقوم کی سلامتی کے لئے دشمنوں کے راز سے آگاہ کرکے اپنے
حفاظتی حصار کو بڑھا کر ملک کی حفاظت کی ہے۔
آج کل ہند وستان پاکستان کے مابین کلبھوشن یادو کو لے کر کشیدگی کا ماحول
گرم ہے ۔ دونوں طرف سے بیان بازی کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان نے
کلبھوشن یادو پر فوجی عدالت میں مقدمہ دائر کرکے اسے پھانسی کی سزا کا حکم
دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ ایجنٹ ہے جو ہمارے ملک کے خلاف سازشوں میں
ملوث تھا اسے ہم کیفر کردار تک پہنچا کر اپنے ملک کی حفاظت کریں گے۔ پورا
پاکستان ہندوستان دشمنی میں مضطر ہوکر انجام سے بے پرواہ اسے پھانسی پر
لٹکتا دیکھناچاہ رہا ہے ۔وہیں ہندوستان نے کلبھوشن یادو کی بازیابی کے لئے
پوری قوت صرف کردیا ہے۔پورا ملک یک زبان ہوکر پاکستان پر یہ دبائو بنارہا
ہے کہ کلبھوشن یادو کو باعزت رہا کیا جائے بصورت دیگر انجام برا ہوسکتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان پر اس دھمکی کا اثر کیا ہوتا ہے ؟ کیا وہ ملک
دشمنی میں ایک فوجی سربراہ کو موت کے گھاٹ اتار کر جنگ کا ماحول پیدا کرنا
چاہتا ہے؟ کیا خطہ برصغیر میں کلبھوشن یادو کو پھانسی پر لٹکا کر افراتفری
کا ماحول قائم کرنا چاہتا ہے؟ اگر یہی مقصد ہے تو پھر نتائج برے ہوسکتے ہیں
کیوں کہ دونوں ملک ایٹمی قوتوں سے لیس ہے ۔ لہذا پاکستان کے اعلیٰ حکاموں
کو چاہئے کہ مصلحت کو مدنظر رکھتے ہوئے کلبھوشن یادو کو ہندوستان کے حوالے
کردے تاکہ امن کا ایک نیا پیغام جائے اور دونوں ملکوں کے مابین بڑھی کشیدگی
میں ٹھہرائو پیدا ہوکر امن کا کاررواں آگے بڑھے اور ہند کشمیر تنازعہ میں
پیش رفت ہو۔ اگر پاکستان کلبھوشن یادو کو رہا کردیتا ہے تو عین ممکن ہے کہ
اپنے ملکی استحکام میں آگے بڑھ سکتا ہے ورنہ ہوسکتا ہے جو سندھ اور
بلوچستان سے آزادی کی آوازیں اُٹھ رہی ہیں وہ کلبھوشن یادو کی پھانسی کے
بعد زور پکڑے اور پاکستان ٹکڑوں میں بٹ کر ایشیا میں بکھر جائے۔ اسی لیے
اسے چاہئے کہ وہ کل بھوشن یادوکو رہا کرکے پڑوسی کا حق ادا کرتے ہوئے خیر
سگالی کا پیغام دے۔ نہیں تو ہندوستان پاکستان سے کسی بھی صورت میں کم نہیں
ہے۔ اگر خدانخواستہ جنگ ہوتی ہے تو دونوں ملکوں کا نقصان ہوگا لیکن پاکستان
کا زیادہ ہوگا اور شاید اس جنگ کے بھیانک نتائج پاکستان سہہ نہ پائے اور اس
کا نقشہ بدل جائے ۔ اسی لئے مصلحت یہی ہے کہ ہندوستان کے آگے سپر ڈال دے
اور اپنے بقا کی خاطر کلبھوشن کورہا کرکے برصغیر کو خون میں لت پت ہونے سے
بچا لے۔ ملک کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ وزیر خارجہ سشما سوراج اور وزیر
اعظم نریندر مودی قابل تحسین ہیں کہ انہوں نے اس معاملے میں ڈ ٹ کر پاکستان
کو جواب دیا جس پر ثالثی کے امریکہ بھی تیار ہے ۔ ہمیں اُمید ہے کہ کلبھوشن
ضرور رہا ہوں گے اور ہند۔پاک دشمنی دوستی میں تبدیل ہوجائے گی۔ ہم نفرت کے
سودا گر نہیں ہیں ۔ ہم خطہ ایشیا میں امن دیکھنا چاہتے ہیں اور اسی کوشش
میں مصروف ہیں کہ یہاں امن پیدا ہو لیکن پاکستان نے آزادی کے بعد سے لے کر
اب تک ہمارے ملک میں تخریب کاری کی ہے اور ہمیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر
نہیں چھوڑی۔ خواہ دو ہزار آٹھ ممبئی حملہ ہو یا حالیہ اڑی حملہ پاکستان کو
جب بھی موقع ملا تخریب کاری کا اس نے انجام دیا۔ اگرپاکستان اپنے دہشت
گردوں پر کنٹرول کرلیتا تو کشمیر سدا خون میں نہیں نہاتا۔ دو ہزار آٹھ میں
ممبئی لہولہان نہیں ہوتی، اڑی میں فوجی اڈہ تباہ نہیں ہوتا۔ ہندوستان نے
پاکستان کے ہر تخریب پر صبروتحمل کا مظاہرہ کیا محض اس واسطے کے خطہ کے امن
کو نقصان نہ پہنچے ۔ ہندوستان عوام نے سرکار پر دبائو بھی ڈالا کہ پاکستان
کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے۔ اور ایسا لگنے بھی لگا کہ ہوسکتا ہے اب جنگ
ہو تب جنگ ہو لیکن اعلیٰ حکام نے صبر وضبط تحمل وبردباری سے پاکستان کی طرف
خیر سگالی کا ہاتھ بڑھایا ۔ لہذا وقت کا تقاضہ ہے کہ پاکستان بھی کلبھوشن
یادو کو رہا کرکے خیر سگالی کی اعلیٰ مثال قائم کرے۔ اور خطہ ایشیا کو جنگ
میں جھونکنے سے بچالے۔ ایسا کرنے سے پاکستان کی ناک نہیں کٹ جائے گی بلکہ
اور اونچی ہوجائے گی اور شاید اس کی ناک اونچی ہونے کا یہ سنہرا موقع ہوگا
کیوں کہ ہمیشہ ہندوستان صبروتحمل کے ذریعہ ایسے موقع پر اپنی ناک اونچی
کرتا آیا ہے تو پاکستان کو چاہئے کہ وہ حالات کی سنگینی کے مدنظر اپنے
فیصلے پر نظر ثانی کرے اور کلبھوشن کو ہندوستان کے حوالے کرکےامن کا رواں
آگے بڑھائے اور سندھ، بلوچستان کو پاکستان سے الگ ہونے سے بچالے۔ ہمیں
امید ہے پاکستان کلبھوشن کو پھانسی دینے کی غلطی نہیں کرے گاـ پاکستان کا
اپنا موقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ کلبھوشن یادو بلوچستان میں تخریبی
کاروائیوں میں ملوث تھا اور بلوچ باغیوں کو پاکستان کے خلاف تخریب پر
آمادہ کر رہا تھا، البتہ راج ناتھ سنگھ نے لوک سبھا میں جو بیان دیا وہ
بھی قابل غور ہے کہ کلبھوشن یادو محض تجارتی مقاصد کے لئے اپنے ایرانی دوست
کے ساتھ آیا ہوا تھا جسے پاکستان نے را کا ایجینٹ ثابت کرکے تختہ دار پر
لٹکانے کا آرزو مند ہے جو خطہ میں اشتعال اور جنگ کی وجہ بن سکتا ہے ـ
بھارتی دھمکیوں اور اعتراضات سے قطع نظر یہ مکمل طور پر ثابت شدہ ہے کہ جب
کلبھوشن یادو تجارتی مقصد کے تحت بلوچستان آیا ہوا تھا تو کلبھوشن آخرش
کیوں ویزا کی مدت ختم ہوجانے کے باوجود بھی بلوچستان میں خفیہ زندگی گذار
رہا تھا؟ فوجی عدالت میں شنوائی اور مزید بحث کو غیر ضروری سمجھا گیا
پاکستان کا یہ سریع الحرکت قدم پاکستان کو بھی شک میں دائرے میں لاتا ہے جس
سے خطہ میں جنگ کی صورت بننے کا گمان غالب ہے ـ خطہ میں امن کی بحالی ہو
طرفین کی یہی کوشش ہونی چاہیے ـ۔
|