بھیڑکی کھال میں بھیڑیابالآخرسامنے آہی گیااوراس نے اپنے
تمام سابق مربیوں کی عزت خاک میں ملانے کااوراس کیلئے مزید مضامین لکھنے کی
دہمکیاں بھی دیناشروع کردی ہیں گویااپنی متنازعہ شخصیت کومزیدمتنازعہ بنانے
کیلئے ایک نیاکھیل کھیلنے کیلئے میدان میں اترنے کی ٹھان لی ہے۔ ایک اہم
سوال جوعام ذہنوں میں ابھررہاہے کہ آخریہ بدنام زمانہ ننگ ملت حسین حقانی
ہیں کیاچیزجس نے پاکستان کی دوبڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہوں (نوازشریف ،بے
نظیراور زرداری) کواپنے مقاصدکیلئے خوب استعمال کیا۔اس سوال کا جواب اگرچہ
اتناآسان نہیں مگر اشارات کی مدد سے قابل فہم بنایاجاسکتاہے۔جس طرح دنیائے
فن میں چائلڈاسٹارہوتے ہیں،اسی طرح دنیائے صحافت وسیاست میں موصوف جیسے بغل
بچے پیدا ہوتے رہتے ہیں جنہیں ان کے بچپن میں مصروف اہل قلم نے
ننھااورمناکے ناموں سے پکاراجاتا،''چھوٹے''کانام بہت ابلاغ کاموجب بن
جاناتھا مگر نہ بنا۔
ملیرکراچی میں ۱۹۵۶ء میں پیداہونے والاناسورحبیب پبلک ہائی اسکول کراچی سے
فارغ ہوکر۱۹۷۴ء میں گورنمنٹ نیشنل سائنس کالج کراچی میں جب پہنچاتو اسلامی
جمعیت طلباء کی طرف سے یونین کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے طلباء
یونین کاصدربن گیا۔۱۹۷۷ء میں کراچی یونیورسٹی سے بی اے اور بعدازاں ۱۹۸۰ء
میں انٹر نیشنل ریلیشنزمیں ایم اے کی ڈگری حاصل کی لیکن دورانِ تعلیم ہی اس
نے صحافت کے میدان میں قدم رکھ دیاتھا۔۱۹۸۰ء سے ۱۹۸۸ء تک دومختلف صحافتی
اداروں میں کام کیا لیکن سیاسی میدان میں پہلی مرتبہ حسین حقانی کانام
۱۹۸۸ء میں نوازشریف کی قیادت میں بننے والے اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے
آئی)کی انتخابی مہم میں اہم کردارکے طورپر سامنے آیاتھااوربعدازاں وزیراعلیٰ
پنجاب کے معاون خصوصی کے طورپر۱۹۸۸ ء سے ۱۹۹۰ء تک ذمہ داری نبھائی اور۱۹۹۰ء
میں وہ پہلے عبوری وزیر اعظم غلام مصطفی جتوئی اورپھر منتخب وزیراعظم
نوازشریف کے معاون خصوصی کے طورپرکام کیا۔
۱۹۹۲ء سے ۱۹۹۳ء تک سری لنکامیں پاکستان کے سفیرکے مزے لوٹے اور ۱۹۹۳ء میں
ایک بارپھرانتخابی مہم چلانے میں حصہ لیا تاہم اس مرتبہ یہ مہم نوازشریف کے
خلاف اوربے نظیربھٹوکی قیادت میں بننے والے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک
فرنٹ(پی ڈی ایف)کی تھی۔انتخابات میں بے نظیرکی کامیابی کے بعد۱۹۹۳ء سے
۱۹۹۵ء تک حکومت کے ترجمان رہے اوراس دوران انہیں وزیرمملکت کادرجہ حاصل
تھا۔۱۹۹۵ء میں انہیں ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کاچیئرمین
بنادیاگیااورقریباًایک سال اس عہدے کالطف اٹھاتے رہے۔
۱۹۹۸ء میں میاں نوازشریف کے دوسرے دورِ حکومت میں ایک مرتبہ پھران کے
ہمرکاب نظرآئے اورمئی ۱۹۹۸ء میں پاکستان کی جانب سے جوہری دہماکے کے تجربے
کے بعد حسین حقانی نے امریکی پابندیوں پرامریکی حکام سے وزیر اعظم کی
نمائندگی کرتے ہوئے مذاکرات کئے۔وہ ۲۰۰۲ء میں امریکامنتقل ہوگئے اورواشنگٹن
ڈی سی کی جان ہاپکنز یونیورسٹی میں ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۴ء تک بطور لیکچراراور۲۰۰۴ء
میں امریکاکی ہوسٹن یونیورسٹی سے بطورایسوسی ایٹ پروفیسرمنسلک رہے۔اس کے
علاوہ ہڈسن یونیورسٹی کے ایک پروجیکٹ میں شریک چیئرمین بھی رہے۔
مشرف دورکے خاتمے اور۲۰۰۸ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کی فتح اور
حکومت سازی کے بعدبقول آصف زرداری ،ان کی درپردہ مددکی وجہ سے انہیں
امریکاکاسفیرمقررکیاگیا۔
انہیں میموگیٹ کیس میں پاکستان بلایاگیا۔ان پراسامہ بن لادن کے ایبٹ
آبادکمپاؤنڈ پرامریکی حملے کے بعدامریکی جنرل مائیک جولن کوخط لکھنے کا
الزام تھا، جس میں امریکی حکام سے استدعاکی گئی تھی کہ پاکستان کوممکنہ
فوجی انقلاب سے بچایاجائے جس پرموصوف کواس عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ دورانِ
سماعت حسین حقانی عدالت عظمیٰ کوبھی دھوکہ دے گئے اورعدالت سے استدعا کی :علیل
ہوں۔امریکامیں علاج کرانے کی اجازت دی جائے۔وعدہ کیاکہ فاضل عدالت جب بھی
طلب کرے گی حاضرہوجاؤں گامگرعدالت عظمیٰ کے واضح احکامات کے باوجودواپس
نہیں آئے۔
موصوف نے اب امریکاکے واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون میں اعتراف کیاہے کہ
امریکی حکام کواسامہ بن لادن تک رسائی میں موصوف کا کلیدی کردار تھا
اورساتھ یہ بھی بتایا انہیں اس وقت کے آصف زرداری اوروزیراعظم یوسف رضا
گیلانی کی مکمل تائیدحاصل تھی۔اس حوالے سے ایک نجی ٹی وی چینل پرگفتگو کرتے
ہوئے حسین حقانی کاکہناتھا:میں ١٩٩٣ء سے پاکستان پیپلزپارٹی اوربے
نظیربھٹوکے ساتھ رہا،اس کے علاوہ پارٹی کی بہت سی کمیٹیوں کابھی حصہ رہا
مگرچندماہ قبل میرے خیالات سے پیپلزپارٹی کی طرف سے لاتعلقی کا اعلان کر
دیاگیامگرمیری ہمدردیاں اس وقت بھی پاکستان کی جمہوری قوتوں اورپیپلزپارٹی
کے ساتھ ہیں۔میرا(زیرنظر)مضمون سفارتکاری کے بارے میں ہے مگراس کی پاکستان
میں غلط تشریح کی جارہی ہے۔اس مرحلے پرحسین حقانی نے نخوت سے مغلوب
اندازمیں بتایا:پاکستان اورامریکاکی انگریزی میں فرق ہے جس سے اہلیان
پاکستان کی اکثریت آگاہ نہیں۔موصوف کاکہناہے:میں نے مضمون میں لکھا ہے کہ
جب اسامہ بن لادن کیلئے آپریشن کیاگیاتو پاکستان کوبالکل نہیں بتایاگیا۔
دوسرا میں نے لکھا کہ انتخابی مہم کے دوران میں میرے ذریعے سے امریکانے
مؤقف قائم کئے، انہی کی بنیادپرامریکیوں نے ہم سے درخواست کی کہ ہمیں اپنے
کچھ لوگ وہاں متعین کرنے ہیں مگریہ میں نے نہیں کہاکہ وہ لوگ وہاں متعین
کئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ میں نے لکھاکہ اس اسامہ بن لادن کے پاکستان سے
ملنے کے بعد سے امریکا،پاکستانی فوج،انٹیلی جنس ایجنسیوں پر بالکل
اعتمادنہیں کرتا، یہ ایک معروف بات ہے، اس میں کوئی انکشاف نہیں ہے۔
اپنے مضمون کے آخرمیں ،میں نے لکھاکہ میرے اوپرالزامات لگائے گئے ہیں کہ
میں نے بہت سے ویزے دیئے ہیں،اس پرمیں نے یہ لکھاکہ میں نے جوکچھ بھی کیاوہ
حکومت پاکستان (جس کے صدراس وقت آصف علی زرداری تھے)کی اجازت سے
کیاتھا۔ویزوں کے معاملے پریہ دیکھاجا سکتا ہے کہ ہمارے لوگوں کوعلم تھاکہ
وہ کس کوویزے دے رہے ہیں مگرمجھے اس کاعلم نہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکی
وہاں موجودتھے جنہوں نے اس اقدام میں ان کی مددکی ۔ پیپلزپارٹی اس چکرمیں
ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کویقین دلائے کہ وہ ہ اچھے لوگ ہیں اوراسٹیبلشمنٹ کے کچھ
لوگ ٹی وی پربیٹھے ہیں جن کے ذریعے سے اپنے مطلب کی بات کاشورمچالیتے ہیں۔
بہت سارے اینکرزہیں جواسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پرپوراعمل کرتے ہیں اس لئے
پیپلزپارٹی والوں نے گھبراکرسوچاکہ آسان کام یہی ہے کہ حسین حقانی سے ہی
نجات حاصل کرلی جائے ۔ویسے بھی سکھراورواشنگٹن کافاصلہ بہت زیادہ ہے۔
پاکستان میں کسی پرلیبل لگاناآسان ہے اورپھراس لیبل سے جان چھڑانا ازحد
مشکل ہے اوربیان بازی آسان ہے۔ اس وقت دونوں ممالک ایک دوسرے پراعتماد نہیں
کرتے۔پاکستان میں لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اب چین آگیاہے اور ہم چین کی
مددسے آگے بڑھیں گے ،ہمیں اب امریکاکی ضرورت نہیں ہے۔دوسری طرف امریکامیں
یہ سوچا جا رہاہے کہ پاکستان کواس کے اقدامات اور پالیسیوں کی وجہ سے سزاکس
طرح دی جائے،اس وقت بہت سمجھداری کے ساتھ درمیان میں چلنے کی ضرورت ہے۔۔۔
جاری ہے |