میں اخبار کے مطالعہ میں مصروف تھا کہ میرے بائیں
کاندھے پر ہلکی سی دستک ہوئی، وجہ اس توجہ دلاؤ پروگرام کی یہ ہوئی کہ
خاتونِ اول نے کسی ٹی وی چینل پر وفاقی کابینہ کی کارروائی دیکھ لی تھی ،
یہ خبر اُن کی دلچسپی کے لئے بہت اہم تھی کہ اب گیس کے کنکشن پر پابندی ختم
کردی گئی ہے، جو کم وبیش آٹھ برس پہلے لگائی گئی تھی۔ مجھ پہلے تو خوشخبری
سنائی گئی اور بعد ازاں اس کی تفصیل میں بتایا گیا کہ اب اپنے (ادھورے اور
زیرتعمیر) مکان کے لئے گیس کنکشن کی درخواست گزار دی جائے۔ امید کی کرن بھی
موصوفہ کی آنکھوں سے جھلک رہی تھی، کیونکہ ہمارے حلقے کے معزز ممبر قومی
اسمبلی اس وقت حسنِ اتفاق سے دو اہم محکموں کے وزیر مملکت بھی ہیں۔ انہیں
کہہ کہلوا کر گیس کا کنیکشن حاصل کر لیا جائے۔ میرے پاس خاتونِ اول کی
حوصلہ افزائی کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا، کہ ہر شریف آدمی کو حالات سے
سمجھوتہ کرنا ہی پڑتا ہے۔ حالانکہ وہ خوب باخبر تھیں کہ یہی وزیر موصوف
تھے، جو اس ناچیز کا نام ای سی ایل سے نہیں نکلوا سکے تھے، ویسے انسان کو
بدگمانی سے پرہیز ہی کرنا چاہیے، کیونکہ عین ممکن ہے کہ وہ یہ نام ای سی
ایل سے نکلوانا ہی نہ چاہتے ہوں۔ دل کے خوش رکھنے کو اور بدگمانی سے بچنے
کے لئے میں موخر الذکر تصور کو تسلیم کر لیتا ہوں، مگر زبانِ خلق پہلی والی
بات کی ہی تائید کرتی ہے کہ وزیر صاحب کام کروانے کے معاملہ میں زیادہ موثر
ثابت نہیں ہوسکے۔
’’اب گیس جلے گی گھر گھر میں‘‘ کا نعرہ کسی زمانے میں پی پی حکومت نے لگایا
تھا، جب محترمہ بے نظیر پاکستان کی وزیراعظم تھیں۔ اگرچہ موجودہ حکومت یہ
کارِ خیر پہلے بھی سرانجام دے سکتی تھی، کیونکہ حکمران عموماً ترقیاتی کام
اور بجلی گیس وغیر ہ کے منصوبوں کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ اعلا نات کا یہ
سلسلہ ایک عرصہ تک جاری رہتا ہے، مگر جب الیکشن قریب آتے ہیں تو کچھ
منصوبوں پر عمل بھی شروع کر دیا جاتا ہے۔ گیس، بجلی اور سڑکوں وغیرہ کو ووٹ
بٹورنے کے لئے خاص طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ سیاستدانوں اور ووٹر کی یہ
محبت یکطرفہ نہیں ہوتی، بلکہ اس میں ووٹر کا بھی مطالبہ ہوتا ہے، کہ ہمارا
فلاں کام کردیا جائے تو ہم ووٹ دیں گے۔ سیاستدان کا تعلق حکومتی پارٹی سے
ہوا تو مطالبہ الیکشن سے قبل ہی پورا کر دیا جاتا ہے، (یا کم از کم
کارروائی شروع کردی جاتی ہے) یوں ووٹر کی ہمدردیاں حکومتی امیدوار حاصل
کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ یہ ’سیاست‘ ضمنی الیکشن میں اپنے عروج پر ہوتی
ہے۔ دیہات میں لوگوں سے وعدے ہوتے ہیں، بجلی کے کھمبے سڑکوں کے کنارے گرا
دیئے جاتے ہیں، گیس پائپ بھی جگہ جگہ بکھرے دکھائی دیتے ہیں، پختہ سڑکوں کی
تعمیر کے لئے بجری اور پتھر وغیر ہ کے چند ٹرک اتار دیئے جاتے ہیں۔ شہروں
میں گلیاں پختہ کرنے کے وعدے ہوتے ہیں، عوام الناس حکومت کے امیدواروں کے
اس فوری ردِ عمل سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ ستم ملاحظہ فرمایئے کہ برابر کے اس
جوڑ میں اپوزیشن پارٹی کے کسی امیدوار کے پاس عوام میں رشوت کے طور پر
تقسیم کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہوتا، وہ صرف وعدے کر سکتا ہے، جو کامیابی
کی صورت میں بھی پورے نہیں ہوتے، ناکامی کی صورت میں تو بات ہی دوسری ہے۔
کابینہ کے اس فیصلے پر منفی سوچ رکھنے والوں نے اسی قسم کی تنقید کی ہے، جس
قسم کے رد عمل کا اظہار اوپر کالم میں کیا گیا ہے۔ سب سے بڑا اور اہم
اعتراض یہی ہے کہ گیس ہے کہاں جس کا کنکشن جاری کیا جائے گا۔ مگر اعتراض
اٹھانے والے بھول جاتے ہیں کہ حکومت نے کنکشن دینے کا وعدہ کیا ہے، گیس
دینے کا نہیں۔ یہ تو عوام کے سوچنے کا کام ہے کہ اگر گیس ہے ہی نہیں تو
کنیکشن کس کام کے؟ اگر لوڈشیڈنگ اسی طرح بڑھتی رہی تو کوئی کنکشن کوئی کیوں
لگوائے۔ مگر ایسا نہیں، کسی اچھے وقت کی آمد کے انتظار میں کنکشن لگوانے
میں کوئی حرج نہیں۔ حکومت نے یکم اپریل کے تیرہ روز بعد قوم کو ’فول‘ بنانے
کے فیصلے کئے ہیں، قوم خوب آگاہ ہے کہ سی این جی سٹیشن بند پڑے ہیں، گیس کی
لوڈشیڈنگ بھی جاری ہے، اور اب کنکشن دینے کا وعدہ بھی کر لیا گیا ہے ۔عوام
مطمئن رہیں، انہیں گیس کا کنکشن ملے گا تو گیس بھی ضرور ملے گی، اگر پائپ
میں گیس نہ آئی تو سر میں ضرور بھری جائے گی، اور جب گیس سرمیں بھری جائے
تو انسان الٹے سیدھے کام کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ |