زرداری صاحب کا نرم گوشہ دل

2013 میں وزیراعظم ہاؤس کی زندگی میں ایک یادگار دن آیا تھاکہ جب وزیراعظم پاکستان نے وہ فیصلہ کیا جس کی سعادت سے اس سے پہلے کے حکمران محروم رہے تھے۔ممکن ہے کہ وہ لوگ دوراندیش اور باریک بین نہ ہوں اس وجہ سے وہ اس فیصلے کے ثمرات سے بھی آگاہ نہ ہوں لیکن موجودہ وزیراعظم پاکستان نے اپنی سمجھداری کی وجہ سے یہ شرفِ عظیم حاصل کر لیا تھا۔اس سے عوامی مقدر کے دامن میں تو تازہ ہوا کے جھونکے نہ آسکے لیکن وزیراعظم ہاؤس کی فضامیں ایک سا مو سم پانچ سال کے لیٔے رہنے کی گارنٹی ضرور مل گئی ۔ہمارے وزیراعظم پاکستان نے وزارت سنبھالنے کے فوری بعد صدر پاکستان آصف علی زرداری کو ایک الوداعی ڈنر دیاتھا۔جو کہ صدر صاحب کے دورِ حکومت ان کی شائد سب سے زیادہ پروقار اور آخری بہترین عزت افزا ئی تھی ورنہ انکا تمام تر دور تنقید سے بھرپور رہا۔اپنے خطاب میں زرداری صاحب نے اس تقریب کو اپنے لیٔے یادگار اور اس جگہ سے اپنی بھرپورجذباتی وابستگی کا بھی ذکر کیاتھایہاں انہوں نے ان یادگار دنوں کابھی ذکر کیا جب وہ بی بی شہید اور اپنے بچوں کے ہمراہ اسی جگہ رہائش پذیر تھے۔آصف زرداری کے ذوق کو مدنظر رکھ کر مختلف انواع کے کھانے اس موقع پر موجود تھے، یعنی ایک طرح سے وزیراعظم ہاؤس کے لذیز کھانوں نے زرداری صاحب کی کمر توڑکر رکھ دی ۔جس کا انہوں نے فوری اعتراف بھی کر لیا کہ وہ سیاست پانچ سال بعد کریں گے اور اتنے عرصے کے لیٔے انھوں نے میدانِ سیاست نواز شریف کے لیٔے کھلا چھوڑ دیا ہے۔اور واقعی چار سال ہونے کو ہیں اور وزیراعظم ہاؤس میں کھایا ہوا کھانا وہ آج تک نہیں بھولے اس سے ان کی نمک حلالی ثابت ہوتی ہے وہ نواز حکومت کے خلاف کئی معاملات میں اختلاف کے باوجود مصالحت اور تحمل کی پالیسی اختیار کیٔے ہوئے ہیں لیکن ان کی ذات سے غیر متاثر ہونے والوں نے انہیں یہاں بھی نہیں بخشا اور اس خاموشی کو بھی کسی ڈیلنگ کا حصہ قرار دے رہے ہیں وہ بھی مجبور ہیں کیونکہ انہیں ابھی تک بھٹو خاندان کا حصہ بننے والے وہ لا ابالی اور کھلنڈرے سے آصف زرداری نہیں بھولے کہ جنہوں نے ــ"مسٹر ٹین پرسنٹـ" کا خطاب حاصل کیا تھابلاشبہ اب تک وہ بھٹو خاندان کے کنوؤں کا پانی پی پی کر ا نہی جیسی خصوصیات اپنا چکے ہیں جن میں شخصیت کی سنجیدگی بھی اہم ہے۔مگر لوگ اسے بھی سنجیدہ نہیں لیتے اور ایک شخصی خول قرار دیتے ہیں جو بھٹو خاندان کے چھاپہ خانے میں تیار ہوا ہے۔پاکستان پی پی پی کے چیٔرمین بلاول بھٹو پورے جوش وخروش کے ہمراہ میدانِ سیاست میں آ ئے اپنی والدہ کی برسی کے موقع پر انہوں نے نواز حکومت کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ جلد حکومت کے خلاف لانگ مارچ کی کال دیں گے لیکن وطن واپسی کے بعد زرداری صاحب نے ان کے اس جوش کو ٹھنڈا کر دیا اب حکومت کے خلاف مذمتی بیانات تک بلاول بھٹو کی سیاست محدود ہو چکی ہے کیونکہ ان کے والد ان کے ہمراہ کسی قسم کی پیش قدمی کے لیے تیار نہیں ہیں زرداری صاحب کے ساتھی اس طریقہ کار کو ایک بہتر سیاسی فیصلہ قرار دے رہے ہیں کہ پاکستان اب کسی لانگ مارچ اور احتجاج کا متحمل نہیں ہو سکتا۔وہ نواز حکومت کے خلاف عمران خان کے جلسوں سے بھی یہ سبق حاصل کر چکے ہیں کہ نواز حکومت کے قدم مضبوط ہیں ان کے خلاف تحریک چلانا اپنے وقت کا زیاں ہے حکومت کا پیریڈ اختتام کی طرف گامزن ہے تو خاموشی سے اپنی پوزیشن برقرار رکھنی چاہئے۔آنے والا وقت یہ بتاے گا کہ بلاول بھٹو کا شخصی شجر اپنے والد کے سائے میں پروان چڑھتا ہے کہ وہ ان سے الگ اپنے لیٔے کوئی راستہ اختیار کرتے ہیں اختلافِ را ئے کی گنجائش ہر ادارے اور پارٹی میں موجود ہوتی ہے لیکن زرداری صاحب اور ان کے بیٹے کا حکومت کے بارے میں قدرے مختلف رویہ سامنے آرہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں نظریاتی اختلافات ہیں جس کے لیٔے مل بیٹھ کر گنجائش نکالی جا سکتی ہے۔ایسی ہی ایک خلیج بے نظیر بھٹو اور مرتضی بھٹو کے درمیان بات چیت کے راستے بند کر کے کچھ مفاد پرستوں نے پیدا کی تھی وہ کسی ایک نقطے بھی اکٹھے نہیں ہو سکے تھے اس صورتحال کا سامنا پی پی پی کو اب بھی ہو سکتا ہے اس کے لیٔے کو ئی درمیانی راہ ہی اس پارٹی کو استحکام دے سکتی ہے بلاول بھٹو پنجاب آمد کا سوچ رہے ہیں ا گرچہ اب ان کے والد نے یہ عندیہ دے دیا ہے کہ میدان اب پنجاب میں سجے گا اور وہاں میرا تجربہ ا ور بلاول کی جوان قیادت ہمارے مشن کو آگے بڑھاے گی ساتھ بھٹو شہید کی برسی پر انہوں نے کچھ اور کھل کر اظہار کیا کہ آ ئندہ حکومت پی پی پی مرکز میں بنا ئے گی اس سے واضح ہو رہا ہے کہ ان کا منہ اب چار سال پہلے وزیرِ اعظم ہاؤس میں کھا ئے گئے کھانے سے بے ذا ئقہ ہوتا جا رہا ہے لیکن وہ یہ نہیں بتا سکے کہ وہ اس دوران وہ بلاول بھٹو کو اظہارِرائے کے پر پھیلانے کا کتنا موقع دیں گے انہیں فرنٹ لا ئن پر کھیلنے دیں گے اور انہیں اپنے نام کے ساتھ لگے بھٹو چیک کو کیش کروانے دیں گے یا یہ چھڑی اپنے ہاتھ میں رکھیں گے اس پر زرداری صاحب شا ئد ابھی کھل کر بات کرنا پسند نہ کریں مگر کچھ جوابات آ نے والا وقت بھی واضح کر دے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد
 

NUSRAT JABEEN MALIK
About the Author: NUSRAT JABEEN MALIK Read More Articles by NUSRAT JABEEN MALIK: 12 Articles with 9011 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.