بلوچستان میں حالات کچھ عجیب سے
ہوگئے ہیں ایک پرامن اور محبت کرنے والوں کا صوبہ کسی اور طرف جا نکلا ہے
اب اس کی ہر صبح وحشت ناک اور المناک خبریں لئے طلوع ہوتی ہے- ٹارگٹ کلنگ
نے اس کی وادیوں میں بسیرا کرلیا ہے ہم سب جانتے ہیں کہ ٹارگٹ کلنگ دو طرح
کی ہو رہی ہے اب اس میں سیاسی لوگ بھی مار جارہے ہیں اب یہ دو طرفہ ہوگئی
ہے- ایک عام سیاسی کارکن سے لیکر لیڈرز تک اور ایک حجام سے لیکر پروفیسر تک
اس کی زد میں ہیں- اب لاشیں ہر طرف گر رہی ہیں اب ایک وجہ سے خاص طبقہ
زندگی رخصت ہورہا ہے- کہاں جا رہا ہے یہ معلوم نہیں ہے- صوبہ سے ٦٣ سال کی
بے انصافیاں کسی اور طرح کے ردعمل میں ظاہر ہورہی ہیں- کچھ لوگ اس سے
اختلاف رکھتے ہیں اور کچھ لوگ اس کو ہی حل تصور کرتے ہیں- بلوچستان میں دو
بڑی قومیں آباد ہیں- دونوں اپنی اپنی سرزمین پر تاریخی طور دعوے دار ہیں-
اور یہ تاریخی اور جغرافیائی تقسیم ہے اور ان دو قوموں کے درمیان بعض دوسری
قومیں آباد ہیں اور اب ان کا مستقبل مخدوش نظر آرہا ہے کوئی اپنے دائرے میں
سمٹ رہا ہے اور کوئی اس دائرے سے ہی نکل جانے کا مقصد کئے ہوئے ہے- اب صوبہ
کی سیاست دو پہلوؤں سے ایک دوسرے سے مختلف راہوں پر چل پڑی ہے کچھ لوگوں نے
اسلام آباد کی طرز حکمرانی سے بیزار اور مایوس ہوکر پہاڑوں کی طرف چلے گئے
ہیں اور ان کے نزدیک اب بندوق کے بل حق خودارادیت حاصل کرنا ہے دوسری طرف
سیاسی جماعتیں انتخاب کے ززیعے حق کی تلاش میں ہیں-
اسلام آباد کے حکمران نہ پارلیمانی سیاست کو قبول کرتے ہیں اور نہ پہاڑوں
کی سیاست کو- یہ ایک المیہ ہے کہ ایک صوبہ اپنے حقوق سے محروم ہے اور اسے
قوت کے بل پر جھکانے کی روش ابھی تک ترک نہیں کی گئی ہے-
قارئین محترم ! اب ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے کہ بلوچ حصہ کے سیاسی شخصیات
کو اغواء کیا جارہا ہے اور پھر انہیں کچھ دنوں کے شدید تشدد کے بعد قتل ک
رکے کسی ویران علاقے میں سڑک یا میدان میں پھینک دیا جاتا ہے- اس طرح اب تک
دس دنوں میں٢٠ لاپتہ افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں یہ بات جنرل (ر)
عبدالقادر بلوچ نے قومی اسمبلی میں تحریک التواء پیش کرنے کی اجازت کے
دوران کہی ہے- چند دن قبل مچھ شہر کے ممتاز قانون دان اور صحافی علی شیر
کرد کو دن دیہاڑے بابو عبدالرحمان (مرحوم) کے گھر سے اٹھایا گیا تھا اور
پھر دو دن بعد اس کی مسخ شدہ لاش خضدار میں سڑک کے کنارے سے مل گئی- صحافت
سے بھی تعلق تھا اس لئے مچھ جانے کا فیصلہ کیا تو جماعت اسلامی کے صوبائی
امیر کا بھی ارادہ تھا اس لئے ہفتہ کے دن عبدالمتین اخونزادہ ، جمیل کرد کے
ہمراہ مچھ کے لئے روانہ ہوگئے- جمیل کرد ہمراہ سفر تھے اس لئے وہ تمام
راستے کردوں کے علاقے سے گزرتے ہوئے مختلف کہانیاں سناتے رہے- اور جب درہ
بولان کے درمیان سے گزرنے لگے اور ہم سب کچھ دیر بعد مچھ کے علاقے میں داخل
ہوگئے مچھ سے تو میری تلخ اور خوشگوار یادیں وابستہ ہیں جب بھٹو صاحب نے
١٩٧٣ء میں مینگل حکومت کو توڑ دیا تو ہم دوستوں نے اس کے خلاف اعلان کیا
اور جناح روڈ پر احتجاجی جلسہ کیا اس اس میں علی احمد کرد، امان بازئی اور
عطاءاللہ بزنجو شامل تھے- ہم سب پر مقدمہ بغاوت قائم کیا گیا اور پھر چند
ماہ بعد مجھے اور سید حسام الدین کو مچھ جیل منتقل کردیا گیا- یوں ایک ماہ
سے زیادہ مچھ جیل کی ہوا کھانا پڑی- حالانکہ نظریاتی طور میں نیپ کا ہم
خیال نہ تھا چونکہ بھٹو کا یہ اقدام بلوچستان دشمنی پر مبنی تھا اس لئے
میری رائے میں یہ بلوچستان کے عوام کے ساتھ ظلم وزیادتی تھی اس لئے احتجاج
کیا اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا- حمید کرد، مراد کرد، خضدار
کے غوث بخش اور دیگر نوجوان مچھ جیل میں قید تھے- بھٹو کا دور بھی عجب دور
تھا بلوچستان میں بڑی قوت سے فوجی آپریشن ہورہا تھا یوں کشت و خون کا بازار
گرم تھا بلوچوں پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی- یوں بلوچ اپنی سرزمین سے افخانستان
کی طرف ہجرت کررہے تھے- ماضی کی ایک حکمران اور خودمختار ریاست کی قوم کے
لئے اپنی ہی سرزمین اجنبی بنا دی گئی تھی- مال و مویشی کوڑیوں کے بھاؤ
نیلام کئے گئے- ہیلی کاپٹروں سے مریوں کو پہاڑوں سے پھینکا گیا- قیامت تھی
جو بلوچ قوم پر مسلط کردی گئی تھی-
قارئین محترم! بلوچ قوم سے زیادہ کون محب وطن ہوسکتا تھا ان سب ظلم و ستم
کو بھلا کر وہ پھر ١٩٨٨ء کے انتخابات میں پارلیمانی سیاست میں چلے گئے-
١٩٧٠ء سے ١٩٨٨ء اور ١٩٩٨ء اور ٢٠٠٢ء تک کی پارلیمانی سیاست میں داخل رہے
مگر نتیجہ کیا نکلا نواب بگٹی کو جنرل مشرف جیسے سفاک و ظالم حکمران نے
بہیمانہ طور پر قتل کیا- بالاچ مری کو قتل کیا اور پھر یہ سلسلہ جو مشرف کے
دور میں شروع ہوا وہ جاری ہے-
یہ تمام شب و روز میری نگاہوں میں ہیں اب پھر بلوچ مظلوم بنا دیئے گئے ہییں
اور ہم ان کے غم و دکھ درد میں شریک ہیں اور یہ جذبہ ہمیں علی شیر کرد کے
گھر لے گیا ہم گھر میں داخل ہوئے ان کے والد سے تعزیت کی وہ بڑے حوصلہ مند
شخص تھے اس بڑھاپے میں بھی صبر کا دامن تھامے ہوئے تھے وہاں سلیم کرد اور
ماما مراد بھی موجود تھے- انھوں نے میرا تعارف کرایا کہ یہ شادیزئی مچھ جیل
میں ١٩٧٣ء میں تھے- کرد قوم بڑی حوصلہ مند اور بہت ہی بااخلاق اور ملنسار
قوم ہے تعلیم یافتہ قوم ہے اور سرزمین سے محبت ان کے وجود کا حصہ ہے- علی
شیر کرد کے والد نے بتلایا کہ میرے بیٹے کے جسم پر تشدد کے بے شمار نشانات
تھے جسم کے کچہ حصوں کو جھلسایا گیا تھا- بعض حصوں پر سوراخ نظر آرہے تھے
اگر میرا بیٹا مجرم تھا تو اس پر عدالت میں مقدمہ چلاتے اور سزا دیتے اس
طرح ماورائے عدالت قتل ظلم ہے جو ہمارے ساتھ روا رکھا گیا اور کہا کہ اس
طرح تو آپ پاکستان سے محبت پیدا نہیں کرسکتے- آپ نے ایک علی شیر کرد کو مار
کر نفرت کو مزید بڑھا دیا ہے اور لوگوں نے بتلایا کہ جنازے میں ہزاروں
افراد شریک تھے اور وہ مخالفانہ نعرے لگارہے تھے میرے نزدیک یہ عمل بہت ہی
منفی خیالات کو جنم دے گا-
قارئین محترم! ایک بات میری سمجھ میں ابھی تک نہیں آئی کہ بھٹو کے دور میں
عبدالواحد کے داماد اور سردار مینگل کے بیٹے کو دن دیہاڑے کراچی سے اٹھایا
گیا ان کی قبروں تک کا نشان موجود نہیں ہے ان سب ظلم و ستم کے باوجود سردار
مینگل اور ان کے نوجوان بیٹے پارلیمانی سیاست میں حصہ لیتے رہے - اب پھر
ایک اور علی شیر کرد کی لاش بلوچوں کے سامنے پڑی ہوئی تھی- پاکستان سے محبت
کرانے کا یہ انداز حکمرانوں نے ترک نہیں کیا ہے- ہم ٥ بجے علی شیر کرد کے
گھر سے روانہ ہوگئے ہمیں معلوم ہوا کہ علی شیر کرد کی شادی کو تین ماہ ہوئے
تھے- اور یوں میرے ذہن میں تو عجیب و غریب خیالات یکے بعد دیگرے آرہے تھے- |