ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہرآدمی میڈیاپرآئے
اور امریکاکے خلاف تقریرکرکے چلاجائے۔مولانافضل الرحمان اور سمیع الحق نے
تو امریکاسے ہمارے تعلقات درست نہیں کرانے؟ تعلقات تووہی درست کروائے گاجس
کوامریکاقابل اعتمادسمجھیں گے۔میں ایک بارپھر یہی کہوں گاکہ میں نے کہیں
نہیں لکھاکہ آپریشن کے وقت پاکستان کے سول یاعسکری حکام کوپہلے سے علم تھا۔
میں نے صرف یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اس دور میں امریکاپاکستان میں سول
حکام قیادت پراعتماد اور عسکری حکام پراعتمادنہیں کرتاتھا۔اس کامطلب یہ
نہیں کہ زرداری صاحب یاگیلانی صاحب کوکچھ بتایاگیاتھااورنہ ہی ایسی کوئی
بات میں نے کہی ہے اورنہ کہوں گاکیونکہ اس کامجھے علم نہیں ہے۔ امریکا میں
بیٹھے ہوئے سفیرکوامریکاکے حالات کاتوپتہ ہوتاہے ،اسلام آبادمیں
کیاہورہاہے،اس بات کاکوئی علم نہیں ہوتا۔اس وقت کے اچھے تعلقات کی وجہ سے
پہلی مرتبہ ساڑھے سات ارب ڈالرکاسویلین پیکج پاکستان کوملا۔
آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے ایک ٹوئٹر پیغام میں
کہا کہ سابق سفیر حسین حقانی کا ویزوں کے حوالے سے امریکی اخبار میں چھپنے
والے بیان سے ریاستی ادروں کے موقف کی تصدیق ہو گئی ہے۔حسین حقانی کے
انکشافات پرکئی تجزیہ نگاروں کاکہناہے :ان انکشافات سے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ
میں برہمی کاردّ ِ عمل ظاہرہواہے جسے پہلے ہی شک تھاکہ حسین حقانی ریاستی
مفادات کے خلاف مصروفِ عمل ہے۔اس سے حسین حقانی کا جھوٹ بھی پکڑاگیا۔اوبی
ایل کمیشن کے سامنے اس نے حلف اٹھاکرکہاکہ حکومت نے اسے کبھی نہیں کہاکہ وہ
لوگوں کو ویزے جاری کرے اور اب وہ انکشافات کے افشاء کی دہمکیاں دے
رہاہے۔پیپلزپارٹی کی رہنماء شیری رحمان نے حسین حقانی کے دعوے کی تردیدکرتے
ہوئے کہاَمیں بھی امریکا میں سفیررہی ہوں، مجھے توپیپلزپارٹی نے کبھی بھی
کسی مشکوک شخص کوویزہ دینے کیلئے نہیں کہا بلکہ آصف زرداری نے اس ضمن میں
امریکی دباؤ کامقابلہ کرنے کاکہاتھا مگریہ بات بھی یادرکھنی چاہئے کہ جس
وقت وہ سفیرمقررہوئیں اس وقت اسامہ بن لادن کاقصہ ختم ہو چکاتھا، سی آئی اے
اوربلیک واٹرکوبلانے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔
امریکامیں بطورسفیرخدمات انجام دینے والی ایک اورسیاسی رہنماء سیدہ عابدہ
امام کے ردّ ِ عمل میں زیادہ وزن ہے۔انہوں نے حسین حقانی کے معاملے کو
پیپلز پارٹی کی قیادت کیلئے چیلنج اورلمحہ فکریہ قراردیاہے اورکہاہے کہ پاک
فوج کوبائی پاس کرتے ہوئے پاکستانی حکومت اورامریکاکے مابین براہِ راست
تعلقات اوراسامہ کی ہلاکت کے حوالے سے حسین حقانی کابیان پیپلزپارٹی کیلئے
ایک اہم چیلنج ہے۔پیپلزپارٹی کووضاحت دینی چاہئے کہ اس نے حسین حقانی جیسے
ناقابل اعتبار،خودغرض اورعیارشخص کوامریکاجیسے اہم ملک میں سفیر کیوں
تعینات کیا جبکہ اہم ممالک میں سفیروں کی تعیناتی ہمیشہ حب الوطن،شہرت اور
کردارکودیکھ کرکی جاتی ہے۔مگربدقسمتی سے حسین حقانی کوبعض سیاسی مفادات کے
تحت وہاں بھجوایا گیا ۔اس لئے ناقابل اعتباراورذاتی مفادات کیلئے قومی
مفادات کوپامال کرنے کی شہرت کے حامل شخص کوامریکامیں سفیر تعینات کرنے
والے بھی حسین حقانی کے اعمال کے ذمہ دارہیں۔چندماہ قبل میں لندن میں تھی
توحسین حقانی اپنی اہلیہ کے ساتھ مجھے ملنے کیلئے آگئے۔میں نے حقانی سے
کہا:تمہیں پاکستان کے مفادات کے خلاف لکھنے پرشرم آنی چاہئے ۔ جواب میں
حقانی نے اپنی مجبوریاں بیان کرناشروع کردیں ۔وہ کہہ رہاتھاکہ میں پاکستان
آناچاہتاہوں اوراس کیلئے اسٹیبلشمنٹ سے معاملات بہترکرنے کی کوشش کررہا ہوں
۔ جوکچھ کیااس وقت کی سیاسی قیادت کی مرضی سے کیا۔
بیگم عابدہ حسین نے ایک سوال کے جواب میں بتایا:حسین حقانی کاسیاست میں بھی
کردارگھناؤنا تھا اورجب وہ میدان سفارت میں اتراتووہاں بھی اس نے ملک و قوم
کے مفادات سے کھیلنے اوران مفادات کوفروخت کرنے کی ہرممکن جدوجہد کووتیرہ
بنائے رکھا۔پاک سرزمین سے غداری کے مرتکب ہر شخص کامحاسبہ
ہوناچاہئے۔پیپلزپارٹی کی قیادت کوتوضیح پیش کرنی ہوگی کہ انہوں نے کس بنیاد
پر حسین حقانی جیسے غدارکوامریکا میں سفیر مقرر کیا۔سمجھ نہیں آرہی کہ حسین
حقانی کی کون سی ایسی خدمات تھیں کہ میموگیٹ اسکینڈل آنے کے بعد اورفوج کے
شدیدترین تحفظات کے باوجودآصف زرداری نے اس شخص کی سرگرمیوں سے چشم پوشی
کی۔
برسوں قبل امریکی اخبارواشنگٹن پوسٹ میں ایک رپورٹ چھپی تھی جس کا چرچا کچھ
دنوں کیلئے ہوتارہاپھربات آئی گئی ہوگئی۔رپورٹ کے مطابق مشرف کے دور میں
امریکانے پاکستان میں اپنے ایجنٹوں اوردہشتگردوں کاایک گروپ ''سپائڈرز'' کے
نام سے بنایاتھاجس میں ریٹائرڈمعززین کی بڑی تعدادشامل تھی۔یہ ریٹائرڈ
معززین قبائلی علاقوں میں امریکاکیلئے دہشتگردی،تخریب کاری اور جاسوسی کرتے
تھے۔بعدازاں کیانی نے دہشتگردوں کایہ گروہ ممنوع قراردے دیالیکن کاروائی
نہیں کی۔یہ ریٹائرڈمعززین عمربھرناقابل یقین حدتک قابل رشک تنخواہیں
اورمراعات لیتے رہے اوربیش بہاجائیدادوں کے مالک بن گئے۔پھر کیا معاشی
مجبوری تھی کہ غداربن گئے۔اب انہی میں سے ایک ٹولہ روز رات کوٹی وی پر بیٹھ
کرآئین اورجمہوریت کے خلاف خرافات بکتاہے۔حسین حقانی سے کئی گنا زیادہ ان
ریٹائرڈمعززین کے مواخذہ کی کسی نے جرأت نہیں کی،اس طرح حسین حقانی کے
خلاف کسی کاروائی کی بظاہرکوئی توقع دکھائی نہیں دے رہی۔ بہرحال ذمہ
دارذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی نے حسین حقانی کے پے درپے الزامات کوحکومت کی
انتخابی مہم قرار دیتے ہوئے پنجاب اوروفاق کی سطح پر حکومت کوجواب دینے
کافیصلہ کیاہے۔آصف علی زرداری نے پارٹی کوحسین حقانی کے معاملے پردفاعی
پوزیشن اختیارکرنے کی بجائے جارحانہ حکمت عملی اختیارکرنے کی ہدایات جاری
کردی ہیں ۔ قبل ازیں حسین حقانی کے معاملے کوپانامالیکس سے توجہ ہٹانے کی
چال کہاجارہاتھاتاہم معاملہ زیادہ بڑھ جانے کے بعدحسین حقانی کے معاملے کو
منظرعام سے ہٹانے کیلئے حکومتی سطح پرہونے والی بے ضابطگیوں کوسامنے لانے
کافیصلہ ہوا ہے۔ادھرچیئرمین سینٹ میاں رضاربانی نے حسین حقانی کے بیان کے
متعلق تحریک التواء کوبحث کیلئے منظورکرلیاہے۔
یادرہے کہ موصوف پچھلے چاربرسوں سے برطانیہ میں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت
کی بدنام زمانہ ''را''کے مالی تعاون سے چلنے والے تھنک ٹینکس میں باقاعدہ
طورپرکئی مرتبہ اپنی خرافات سے وطن عزیزکے خلاف اپنے خیالات کااظہار کرتے
چلے آرہے ہیں اورعلاوہ ازیں یہ بات بھی ان سے منسوب ہے کہ پاکستان کے خلاف
کھلے عام بدزبانی اورخاکم بدہن توڑنے کیلئے بھارتی برہمن مودی کواپنی
مددکیلئے پکارنے والے الطاف حسین کیلئے امریکامیں لابی کرنے کیلئے اپنی
خدمات پیش کرچکے ہیں۔کیااب وقت نہیں آیاکہ ان تمام ننگ ملت افراد کوپاکستان
واپس لاکرقانون کے آہنی شکنجے کے حوالے کیا جائے!
|