کسی انسان کی عزت اس کے منصب کی مرہون منت یامحتاج نہیں
ہوتی بلکہ اس کاراستہ افکاراورکردارسے ہوکرجاتا ہے۔عبدالستار ایدھی زندگی
بھر کسی یوسی سے ناظم یاچیئرمین منتخب نہیں ہوئے مگر آج بھی دنیا بھرمیں
کئی ارب لوگ قلبی طورپران کے نام اورکام کی عزت کرتے ہیں ،آج بھی انہیں
فلاح انسانیت کااستعارہ سمجھاجاتا ہے۔سابق چیف جسٹس افتخارچودھری کا پرویز
مشرف کے دورآمریت میں ایک انکاران کیلئے سرمایہ افتخار بن گیا تھامگر بحالی
کے بعدوہ ''بدحالی''کی شاہراہ پرگامزن ہوگئے اورآج وہ ایک ناکام سیاستدان
کی حیثیت سے گمنام زندگی گزاررہے ہیں۔اِنسان کاکام اس کے نام کوزندہ رکھتا
ہے ۔اقتدارواختیار،عہدہ اورزروجواہرعزت کی علامت اورضمانت نہیں کیونکہ
اقتدارواختیار، ،زراورزورتوفرعون سمیت ملعون یذید کے پاس بھی تھامگران کے
اقتدارواختیار نے انہیں رسوائی اور پسپائی کے سواکچھ نہیں دیا ۔ڈاکٹر
عبدالقدیرخان کی طرح کچھ باکرداراورباضمیرلوگ عہدے پرنہ ہوتے ہوئے یاعہدہ
چھوڑنے کے باوجودبھی اُس عہد کاحصہ بن جاتے ہیں اورتاریخ بھی ان کی
تقدیراورتوقیرپررشک کرتی ہے جبکہ کچھ افرادکوان کے عہدے پربوجھ سمجھا جاتا
ہے اور''عدت'' کی طرح ان کی'' مدتِ'' ملازمت کے بھی دن گنے جاتے ہیں۔منصب
ملنا اس قدراہم نہیں جس قدر اس منصب کے تقاضوں پرپورااترنا اوراس عہدے
کاوقاربرقراررکھناافضل ہے۔ کسی طاقتور کے آشیربادیا اثرورسوخ سے عہدہ ملتا
ہے مگرعزت وہ نعمت ہے جو کسی بازارسے نہیں ملتی۔اقتدار یامنصب ملتا ہے
توزیادہ ترلوگ اور ماتحت اپنے سربراہان کی راہو ں میں آنکھیں بچھاتے ہیں
مگرحکومت اوراداروں کے سربراہان کو آبرومندانہ رخصتی قسمت سے نصیب ہوتی ہے
۔باکرداراوربدکردارمیں بہت باریک فرق ہے ، غیورجنرل (ر)ایوب خان نے عوام کے
تیوردیکھتے ہوئے اقتدارچھوڑدیامگرآج پاکستانیوں کی ''تُھوتُھو'' کے
باوجودکوئی اقتدارچھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ہم انسان ایک دوسرے کو قول
وفعل کی بنیادپر''باکردار''یا''بدکردار'' کی حیثیت سے یادکرتے ہیں ۔اﷲ
تعالیٰ کے ہاں بھی نیت اوراخلاص کواہمیت حاصل ہے،یہ فرزند آدم ہے جوشعبدہ
بازی سے متاثرہوجاتا ہے مگر اﷲ تعالیٰ سے اس کے بندوں کا باطن نہیں چھپتا۔
پاکستان میں منتخب حکمران جمہوریت کی آڑ میں آئین اورعوام کے ساتھ مذاق
کرتے آئے ہیں اورآج تک کسی کامحاسبہ نہیں ہوا ۔میاں شہبازشریف جلاوطنی سے
واپس آئے تو سبزہ زارپولیس مقابلہ کیخلاف عدالتی رٹ میں ان کانام ہونے کے
سبب انہیں الیکشن میں امیدوارکی حیثیت سے شریک ہونے سے روک دیا گیا جس پر
بزرگ سیاستدان سردارذوالفقارعلی خان کھوسہ کے فرزندسرداردوست محمد کھوسہ
کوتین ماہ کیلئے وزیراعلیٰ منتخب کیا گیا جبکہ آئینی اختیارات میاں
شہبازشریف کے پاس رہے اورپھر ان اختیارات کی برکت اور طاقت سے میاں
شہبازشریف کسی مقابلے کے بغیر ممبر پنجاب اسمبلی منتخب ہوگئے بعدمیں ایک
تکنیکی پیچیدگی پیداہوگئی مگر وہ سٹے پراپنی آئینی مدت پوری کرنے میں
کامیاب رہے ،اب پنجاب میں آئی جی کی حیثیت سے مشتاق سکھیرا کی ریٹائرمنٹ
پرکیپٹن (ر)عثمان خٹک کوتین ماہ کیلئے قائم مقام آئی جی مقررکردیا گیا ہے
کیونکہ میاں شہبازشریف اس منصب کیلئے کسی موزوں آفیسر کی تلاش میں ہیں
اوروہ امیدواروں کا انٹریوکرنے کے بعد اس امرکافیصلہ کریں گے ۔نامزد
ایڈوائزرمشتاق سکھیرا بھی اپنے مخصوص ''اوصاف '' کی بنیادپرکسی امیدوارکی
ضمانت دے سکتے ہیں۔مشتاق سکھیرا کوایڈوائزرکاعہدہ ایڈوائز کیلئے نہیں بلکہ
''زبان بندی''کیلئے دیا گیا ہے کیونکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں وہ سلطانی گواہ
بن سکتے تھے۔باقی مشیروں سے مشورہ لیا جاتا ہے اورنہ مشتاق سکھیرا سے
مشاورت کی جائے گی بس وہ بھی دوسرے مشیروں کی طرح خاموشی سے مختلف مراعات
انجوائے کرتے رہیں گے۔اخباری اطلاعات کے مطابق مشتاق سکھیرا نے ریٹائرمنٹ
کے باوجود سرکاری بلٹ پروف گاڑی واپس نہیں کی جبکہ موصوف نے اپنے پیشروآئی
جی حضرات سے بہت کچھ واپس لے لیا تھا ۔مشتاق سکھیرا پر لگائی گئی چارج شیٹ
انتہائی سنجیدہ ہے میڈیا کے لوگ اورعام شہری ان کی طرف سے وضاحت کے منتظر
ہیں۔تسلی بخش وضاحت آنے تک انہیں ایڈوائزر کے عہدہ سے ہٹادیا جائے ورنہ
کوئی نہ کوئی پنجاب حکومت کے اس متنازعہ اقدام کو عدالت عالیہ لاہور میں
چیلنج کردے گااوروہاں پنجاب حکومت سمیت مشتاق سکھیرا کیلئے اپنا دفاع
کرناآسان نہیں ہوگا۔مشتاق سکھیرا کی طرف سے ابھی تک کسی رپورٹرکوقانونی
نوٹس بھجوایاگیا ہے اورموصوف کی طرف سے کسی الزام کی تردیدکی گئی ۔
پنجاب کامستقل آئی جی کون اوراس منصب کیلئے کیا میرٹ ہوگا اس بات کافیصلہ
صرف اورصرف میاں شہبازشریف کریں گے۔فوج کی طرح پولیس میں کمانڈکی تبدیلی
کیوں نہیں ہوسکتی ،آئی جی کی ریٹائرمنٹ کی مقررہ تاریخ سے قبل نیا آئی جی
کون ہوگااس امرکافیصلہ بروقت کیوں نہیں کیا جاسکتا ۔جس طرح پنجاب کے
وزیراعلیٰ کواپنی مرضی و''منشاء ''کاآئی جی لگانے کاحق ہے اس طرح دوسرے
صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کوصوابدیدی اختیارکیوں نہیں دیاجاتا ۔میاں شہبازشریف
کے میرٹ پرپورا اترناآسان نہیں ،کیونکہ ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے بہت کچھ
''سننا ''،''سہنا'' اور''کرنا''پڑتاہے۔آج بھی پنجاب میں کچھ سرفروش
اورسرفراز آفیسرز کاوجودباقی ہے جو ''زراورزور''کی خاطر اپنے ضمیر
کاسودانہیں کرتے۔پنجاب کے سابق نیک نام آئی جی حضرات طارق سلیم ڈوگراور
حاجی حبیب الرحمن نے بھی مشتاق سکھیرا کی طرح ہاتھ باندھ کر ''خدمات''انجام
دی ہوتیں توآج وہ دونوں بھی ایڈوائزر ہوتے ۔جوآفیسرزناجائزاحکامات تسلیم
نہیں کرتے اورحکمرانوں کے'' سہولت کار''نہیں بنتے انہیں دیوار سے
لگادیاجاتاہے ۔اگرسندھ میں حکمران جماعت پیپلزپارٹی مرضی سے آئی جی نہیں
لگاسکتی توپنجاب کی حکمران جماعت کے پاس یہ اختیار کیوں ہے۔وردی کی تبدیلی
میں مالی بدعنوانی اوربدنیتی کابھانڈا پھوٹ گیا مگر اس کے باوجود مشتاق
سکھیرا کونیب کا''اسیر''بنانے کی بجائے پنجاب حکومت کا '' مشیر ''مقررکردیا
گیا۔نوازحکومت میں وفاداروں پرنوازشات کی بارش ہوتی ہے جبکہ عوام جمہوری
ثمرات کی'' بوندبوند''کیلئے ترس جاتے ہیں ۔پنجاب میں پولیس وردی تبدیل کرنے
کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی،اس کیلئے گرمی کوجوازبنایاگیا ،ابھی کشمیر
سمیت باقی تینوں صوبوں میں پولیس آفیسرز اوراہلکارپرانی وردی استعمال کررہے
ہیں توکیاانہیں اس وردی میں گرمی محسوس نہیں ہوتی۔عوام نے حکمرانوں کووفاقی
وصوبائی اداروں میں تجربات کرنے کامینڈیٹ نہیں دیا۔پرانی وردی پنجاب پولیس
کے موجودہ یونیفارم سے ہزارگنازیادہ بارعب اور گریس فل تھی،پنجاب میں وردی
کی تبدیلی کافیصلہ بدنیتی، عجلت اورمجرمانہ غفلت کاشاخسانہ ہے ،درحقیقت''چمک
'' کام کرگئی۔مشتاق سکھیرا کیلئے ایڈوائزر کاعہدہ بھی یقینا''منشاء پیکیج''
کاحصہ ہے،قائم مقام آئی جی نے کہا ہوگامجھے بھی تین ماہ کاوقت دیاجائے ورنہ
مجھے دوچاردن کیلئے ''مہمان اداکار''بننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔قائم
مقام عہدیدار کی مدت متعین نہیں ہوتی لیکن پنجاب کے خادم اعلیٰ جوچاہیں
کرسکتے ہیں۔دوبارہ وردی پربات کرتے ہیں،مجھے تعجب ہے جولوگ وردی کی گرمی
برداشت نہیں کرسکتے وہ قبراور جہنم کی گرمی کس طرح برداشت کریں گے۔پولیس
کلچر کی تبدیلی کادعویٰ کرنیوالے وردی کی تبدیلی پرپھولے نہیں سمارہے۔ارباب
اقتدارواختیار کامائنڈسیٹ بدلے بغیر پولیس کلچر نہیں بدلے گا۔شہریوں کووردی
نہیں پولیس گردی سے خوف آتا ہے ،ابھی تک شاہراہوں پرشہریوں کوسرعام پولیس
گردی کانشانہ بنایا جارہا ہے۔پولیس اہلکاروں کی وردی بدلی مگران بیچاروں کی
حالت زار نہیں،پنجاب میں شرپسندعناصر کیخلاف آپریشن شروع ہے اس دوران وردی
کی تبدیلی سے اس اہم مشن پرمنفی اثرپڑنے کا خدشہ ہے۔ وردی گرمی کے ڈر سے
نہیں بلکہ ''مٹھی'' گرم کرنے کیلئے تبدیل کی گئی ،وردی کی تبدیلی کے دوران
ارباب اقتدارواختیار کی مرضی و''منشاء ''کوخاص اہمیت دی گئی ۔پچھلے دنوں
میڈیا پرمشتاق سکھیرا کے لاہورکینٹ میں زیرتعمیر محل کابھی خوب چرچا رہا
مگر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔مشتاق سکھیرا راوین ہیں ،ان کاآبائی تعلق قلعہ
دیوا سنگھ حویلی لکھا ڈسٹرکٹ اوکاڑہ سے ہے ،ان کے والد محمد خان قلعہ دیوا
سنگھ حویلی لکھاکے عام زمیندار تھے ۔ ماضی میں مبشر لقمان نے اپنے ٹی وی
پروگرام میں ایک مہنگاترین پلاٹ مشتاق سکھیرا کے نام ہونے کا ہوشربا انکشاف
کیا تھا،اس وقت بھی مشتاق سکھیرا کی طرف سے کوئی تردید نہیں آئی تھی ۔مشتاق
سکھیرا نے قلعہ دیواسنگھ کے محلے سے شہر لاہورکے محلات کاسفر تیزی سے طے
کیا ،''سفر ابھی باقی ہے میرے دوست''۔ماضی میں کالم اورخبروں پرمتعلقہ
اداروں میں بھونچال آجاتا تھا ،تردید اوروضاحت بھی آتی تھی مگر ڈھٹائی
اوربے شرمی کی انتہا دیکھئے اب تبصروں اورخبروں سے حکام کی صحت،صحبت
اورسرگرمیوں پرکوئی اثرنہیں پڑتا ۔ کمزورشہریوں سے رشوت وصول کرنیوالے
اہلکار اپنے آفیسرز اوران کے چہیتوں کی مٹھی گرم کرنے پرمجبور ہیں بلکہ ان
سے آفیسرز کے نام پر بھتہ وصول کیا جاتا ہے۔آئی جی سے ڈی پی اواورڈی ایس پی
رینک کے آفیسرز کادفتری سٹاف مختلف پولیس لائنز اورتھانوں میں تعینات
اہلکاروں کوڈرادھمکاکریاتبادلے کی آڑ میں ان سے مسلسل رقوم بٹورتا ہے ،دفاتر
میں براجمان ان مخصوص افراد کودہائیوں تک وہاں سے تبدیل نہیں کیاجاتا،سنا
ہے یہ لوگ ''اوپر''بھی آمدنی پہنچاتے ہیں۔اہلکاروں کی ان چہیتوں سے جان
چھرائی جائے ۔
راقم نے پولیس اورتھانہ کلچر کی تبدیلی کیلئے تجاویزاورتنقیدسے بھرپور
متعدد کالم سپردقرطاس کئے اورپولیس نے ان میں سے بیشترتجاویز پرکام بھی کیا
لیکن مجال ہے جوکسی سطح پرراقم کے کسی کالم کا اعتراف کیاگیاہو۔میں چیلنج
کرتا ہوں میرے پاس وہ تمام کالم تاریخ کے ساتھ محفوظ ہیں، پولیس حکام
کارویہ افسوسناک ہے ۔راقم کی تجویز پرآئی جی پولیس نے پنجاب پولیس کی آفیشل
ویب سائٹ پرمجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث عناصر کی تصاویرسمیت ان کا نام اور
ریکارڈ اپ لوڈکرنے کافیصلہ کیاتھا،ا س کامقصد شہریوں کوسہولت فراہم کرنا
تھاکہ وہ کسی کے ساتھ کاروبار کرنے ،قرض حسنہ دینے یاکسی کواپنے پاس ملازم
رکھنے سے قبل اس کاریکارڈ چیک کر کے تسلی کریں،اس اختیاطی تدبیر سے شریف
شہری خودکو مختلف مسائل سے بچاسکتے ہیں ۔راقم نے ایف آئی آر کوفرسٹ
انفارمیشن رپورٹ کی بجائے فرسٹ انوسٹی گیشن رپورٹ بنانے جبکہ کسی بھی
واردات میں شہادت کی بجائے شواہد محفوظ اوران پرانحصار کرنے پرزوردیا۔راقم
کی تجویز پرگشت پرمامورگاڑیوں کی درست پوزیشن معلوم کرنے کیلئے ان میں ٹریک
سسٹم نصب کیاگیا۔راقم نے پولیس ہسپتال اورپولیس اہلکارو ں کے بچوں کیلئے
مخصوص تعلیمی اداروں کے قیام کی تجویز دی ۔پولیس لائنز میں اہلکاروں
کومعیاری کھانوں اورصحتمندپانی کی فراہمی جبکہ ان کاہرتین ماہ بعد میڈیکل
چیک اپ یقینی بنانے پرزوردیا ۔پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک کرنے اوروردی
کی تبدیلی روکنے کیلئے متعددکالم لکھے ،معاشرے کے ہرفردکاکسی نہ کسی طرح
پولیس سے واسطہ پڑتا ہے اوراس کی اصلاح اوربہتری کیلئے آئندہ بھی
تجاویزدیتارہوں گا۔اگرخیبرپختونخوا میں پولیس کلچر میں انقلابی تبدیلیاں
آسکتی ہیں تو ایک دن پنجاب میں بھی پولیس کلچر میں مثبت تبدیلی کاخواب ضرور
شرمندہ تعبیر ہوگا ۔ |