کرسمس کا دن تھا جب ان دونوں کو
ایک بکتر بند گاڑی سے نکالا جا رہا تھا – عوام کا غصہ اسقدر شدید تھا کہ
فوج کی مداخلت ضروری تھی. پہلے وہ بکتر بند گاڑی سے نکلا اس نے سب سے پہلے
ٹوپی اتاری اپنے بال سیدھے کیے اور بغیر کسی خوف کے ایک محافظ کے ساتھ ایک
کمرے میں اپنے میڈیکل کے لیے چلا گیا. اس نے اپنا کوٹ اتارا اور ڈاکٹروں نے
اسکا میڈیکل کیا اسوقت اسکی بیوی تھوڑی خوف زدہ تھی مگر اس کے چہرے پہ عجیب
سا ٹہراؤ تھا ایسے جیسے کسی طوفان کے بعد سمندر میں نظر آتا ہے.
آج ان دونوں کا ٹرایل تھا ایسے ہی جیسے کورٹ مارشل ہوتا ہے – بند کمرے میں
ایک طرف دو کرسیوں پہ وہ دونوں ایک پینل کے سامنے بیٹھے تھے. دروازے پہ
بندوق بردار باوردی سپاہی کھڑے تھے انھیں یہ خطرہ تھا کہ کہیں اس کے وفادار
فوجی اسے بچانے نہ آ جائیں. ملک میں آگے ہی آگ اور خون کے مناظر تھے. عوام
سڑکوں پہ تھی سب کچھ جل رہا تھا اور یہ دونوں اس بند کمرے میں اس عدالت کا
سامنا کر رہے تھے .
ان پر ہزاروں لوگوں کے قتل کا الزام تھا ان کے سامنے کوئی چارج شیٹ تحریری
صورت نہ پیش کی گئی، یہ عجیب عدالت تھی جہاں ان دونوں کو اپنا مقدمہ خود
لڑنا تھا – مقدمہ پیش کیا گیا. الزام لگا کہ انہوں نے عوام کو محروم کیا،
پہلے ان کی خواہشات کا قتل کیا پھر قومی روح کو نقصان پہنچایا، ان کے
ہاتھوں پہ ہزاروں لوگوں کا لہو ہے. اپنی صفائی میں وہ فوراً بولا " یہ غلط
ہے، یہ ایک جھوٹ ہے، یہ الزام ہی اس بات کی دلیل ہے کہ حب الوطنی کو بغاوت
کا اور وطن کی خدمت کو وطن دشمنی کا نام دیا جا رہا ہے یہ سب جھوٹ ہے" اسنے
سامنے رکھے میز پر ہاتھ مارا اور چلاتا رہا " یہ سب بکواس ہے – سفید جھوٹ"
نوے منٹ تک یہ ٹرایل چلتا رہا اور نوے منٹ تک اسپر عوام کے قتل، قومی روح
اور قوم کے وجود کے استحصال اور جبر کے الزامات لگتے رہے. وہ ہر بات پر
ایسے ہی جواب دیتا جیسے اپنے دور اقتدار میں دیا کرتا تھا– عدالت میں بیٹھے
تمام ممبران اٹھے اور ساتھ والے کمرے میں چلے گئے، وہ بندوق بردار سپاہیوں
اور اپنی بیوی کے ساتھ اسی کمرے میں بیٹھا تھا – اسنے اپنی کالی فر والی
ٹوپی اتاری، میز پہ پٹخی اور مایوس ہو کہ بیٹھ گیا. اب اسکو بھی علم ہو گیا
تھا کہ صورت حال بگڑنے والی ہے مگر اسکی آنکھوں میں ابھی بھی غرور تھا.
ایک کرنل کمرے میں آیا اور اسنے پینل کا فیصلہ سنایا اور کمرے میں موجود
سپاہیوں کو اس پر عمل کرنے کو کہا . وہ پھر چلایا " ایسا نہیں ہو سکتا اگر
تم نے ہمیں سزا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے تو الگ الگ نہیں ہمیں اکٹھے اس سزا
کا سامنا کرنا ہے " اسکی بیوی بھی بولی " ہاں ہم اس سزا کا سامنا اکٹھے
کریں گے " سپاہی نے اپنے افسر سے انکی آخری خواہش کا اظہار کیا تو افسر مان
گیا. وہ دونوں ابھی بھی حکم دے رہے تھے انکے مزاج میں آج بھی عجیب سی
چوہدراہٹ اور غرور تھا. ایک سپاہی انکے ہاتھ باندھنے کے لیے کچھ رسیاں لایا
تو وہ آگ بگولا ہو گئے " تم لوگوں کو شرم نہیں آتی، تم ہمارے ہاتھ نہیں
باندھ سکتے تمہیں ہمارے انسانی حقوق کا کوئی خیال نہیں ہے؟ یہ سب کیا ہے؟
تم ہمیں رسیوں سے نہیں باندھ سکتے . یہ غلط ہے ! سراسر غلط !"
اسکی بیوی نے باآواز بلند کہا " تم شرم کرو، میں تمھاری ماں ہوں تمہیں میں
نے پالا ہے شرم کرو " وہ چلاتے رہے جبکہ سپاہیوں نے انکے ہاتھ باندھے اور
ایک سپاہی بولا اب تمہیں کوئی نہیں بچا سکتا یہی تمہارا انجام ہے. سپاہیوں
کو حکم ہوا کہ وہ بندوقیں تیار کر لیں. انھیں دیوار کے ساتھ کھڑا کیا گیا
اور ان پہ گولیوں کی بوچھاڑ کر دی. پہلی گولی اسکی ٹانگ پر لگی دوسری چھاتی
پر جبکہ تیسری اسکی بیوی کو. فائرنگ روکنے کا حکم دیا گیا. ہوا میں بارود
کی ایک عجیب سی باغی مہک تھی جہاں وہ کھڑے تھے وہاں اب دو لاشیں پڑی تھی
اور زمین کے دو دھاڑے نظر آ رہے تھے. ایک ڈاکٹر نے اس بات کی تصدیق کر دی
کہ وہ مر چکے ہیں. یہ انکا مقدر تھا جس کا رستہ انہوں نے خود ہموار کیا تھا.
یہ فلمی کہانی نہیں بلکہ رومانیہ کے ڈکٹیٹر نیکولائی چا شسکو اور اسکی بیوی
الین چا شسکو کے انجام کی داستان ہے جن کی زندگیوں کی طرح انکی موت بھی بڑی
عجیب تھی.
یہ ایک ایسے حاکم کی کہانی کا اختتام تھا جو کبھی بہت جابر تھا اور اسکو
اپنی ذات کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا. انکی موت کے یہ مناظر ٹیلی وژن پہ
دکھائے جا رہے تھے عوام کی آنکھوں میں کرب بھی تھا اور غصہ بھی ایسے لگتا
تھا جیسے وہ اسکو زندہ کر کے پھر مرتے دیکھنا چاہتے ہیں، لگتا تھا انھیں
تسکین نہیں ملی لگتا تھا وہ اسکے انجام سے ابھی بھی خوش نہیں ہیں.
ایک ہزار سے زائد لوگوں کے خاندان، بیوہ عورتیں اور یتیم بچوں کے لیے یہ
چند گولیاں کافی نہ تھی وہ بار بار اپنے پیاروں کو یاد کرتے اور کہتے ابھی
یہ کافی نہیں ہے اس ظالم کے لیے یہ سزا تھوڑی ہے. ڈکٹیٹر نیکولائی چا شسکو
کا پچیس سالہ دور یہاں ختم ہوا یہ انقلاب کے دن تھے اور اس انقلاب میں عوام
نے ڈکٹیٹر نیکولائی چا شسکو کے مستقبل کا فیصلہ کر دیا. ہزاروں لاشوں کی
بنیادوں پہ کھڑا شاہی محل آج سنسان ہو چکا تھا. آج تاریخ نے ایک ایسا فیصلہ
کیا تھا جسمیں صرف عوام کی امنگیں شامل تھی. ڈکٹیٹر نیکولائی چا شسکو کے
انجام اور میری تحریر کا ربط بھی یہی سے شروع ہوتا ہے.
ابھی کچھ روز قبل میں نے ایک جرنیل یا پھر یوں کہیں ایک نو مولود سیاست دان
کو سیاسی دنیا میں اپنا پہلا بیان دیتے دیکھا اور سنا. آواز میں وہی کرختگی
اور سختی تھی جو کسی جابر حاکم کے ہوتی ہے. چند لوگوں کے درمیان یہ عجیب سی
پریس کانفرنس تھی اس ساری پریس کانفرنس کے دوران میری نظریں اس چہرے پر
تھیں جو کبھی عوامی حکومت کا قاتل تھا. گو کہ وہ عوامی حکومت بھی آمرانہ
مزاج کی تھی مگر جس انداز سے اس پہ شب خون مارا گیا تھا وہ غلط تھا. پریس
کانفرنس میں جب کسی نے زور سے نعرہ بلند کیا " پرویز مشرف زندہ باد " تو
میں خیال کی دنیا سے واپس حال میں آ گیا.
پاکستان میں نو سال تک حکومت پر قابض رہنے کے بعد پرویز مشرف برطانیہ سے
اپنے سیاسی سفر اور نئی سیاسی جماعت کے آغاز کا اعلان کر رہے تھے. پرویز
مشرف اپنی غلطیوں کا اعتراف ایسے کر رہے تھے جیسے ایک بچہ جو ضدی ہوتا ہے
اور غلطی کر کے یہ کہتا ہے کہ ہاں میں نے یہ غلطی کی ہے تم میرا کیا بگاڑ
لو گے. لال مسجد، سوات، لوڈ شیڈنگ، کرپشن، دہشت گردی میں مرنے والے تمام
پاکستانیوں کے لہو میں ڈوبا ہوا پاکستان اور اسکے مظلوم عوام کا تذکرہ اس
تاسیسی اجلاس کا ایجنڈا تھا. پرویز مشرف برطانیہ میں پاکستانی عوام کے
مستقبل کو سنوارنے کے غم میں اپنی جماعت کا منشور بیان کر رہے تھے، اقبال
کے شاہین کی تعریف کر رہے تھے قائد اعظم اور مسلم لیگ سے اپنی جماعت کی
نسبت بیان کر رہے تھے اور پھر انہوں نے اقبال کا شعر غلط پڑھا ہی تھا کہ
اقبال کے شاہین سے انکا رشتہ بننے سے پہلے ختم ہو گیا.
میں ابھی تک یہ نہیں سمجھ پایا کہ کون یہ لوگ تھے جو پرویز مشرف زندہ باد
کے نعرے بلند کیے پرویز مشرف کو پاکستان کا اگلا وزیر اعظم بنانا چاہتے
تھے. میری آنکھیں لال مسجد کی جلی ہوئی لاشوں اور کارگل کی حزیمت کو ابھی
بھولی نہیں تھی اور نہ ہی مجھے پاکستان کی وہ ہزاروں بیوائیں اور یتیم
بھولے تھے جو پرویز مشرف کے نو سالوں نے پاکستان کو دیے. شوکت عزیز کی
وزارت اور مشرف کی صدارت میں پاکستان کو جو غم ملے کیا وہ کافی نہ تھے؟
اس سے زیادہ کیا لکھوں اگر کوئی یہ تحریر پرویز مشرف صاحب تک پہنچا دے تو
انھیں ڈکٹیٹر نیکولائی چا شسکو کی داستان بھی سنا دے. پرویز صاحب فوج میں
رہے ہیں انھیں اس کا علم تو ہوگا تھوڑی یاد دہانی لازمی ہے. کارل مارکس نے
کہا تھا " انسان اپنی تاریخ خود بناتے ہیں مگر ایسے نہیں جیسے انکی مرضی
ہوتی ہے " میرے خیال سے پرویز مشرف صاحب کی مرضی سے عوام کا مزید قتل
ناقابل معافی ہوگا.
ایک اور بات جو میں اس کالم کی وساطت سے کہنا چاہوں گا نیکولائی چا شسکو
رومانیہ میں رہتا تھا اور رومانیہ کے لوگوں کی آرزوں کا قاتل تھا شاید
پرویز مشرف کو ڈکٹیٹر نیکولائی چا شسکو کا انجام پسند نہ آئے. پاکستان کے
قریب ایک ملک افغانستان بھی ہے جہاں کے باسی پاکستان کی گندم، چینی، دالیں،
چاول اور فیکٹریوں کا بنا گھی کھاتے ہیں اور بدلے میں پاکستانی بھائیوں کو
سردے، گرمے، انار، سیب، پستے بادام اور انگور بھجواتے ہیں جو پرویز مشرف نے
بچپن سے لیکر ایوان صدر میں اپنے آخری دن تک کھائے ہونگے. مٹی کی تاثیر میں
فرق ہے مگر جذبات کی گرمی ایک جیسی ہے. مشرف کی مانند ڈاکٹر نجیب اللہ نامی
ایک شخص طویل عرصے تک افغانستان میں حکمران رہا وہ صبح اٹھتے ہی سینکڑوں کے
موت کے پروانے پر دستخط کرتا اور ہزاروں کو پل چرخی میں ڈلواتا. دیکھئیے
دونوں میں کتنی مماثلت ہے دونوں کا بچپن کراچی میں گزرا اور جوانی پشاور
میں ڈاکٹر نجیب جن دنوں پشاور میں میڈیکل کا طالب علم تھا تو پرویز مشرف
قریبی علاقے اور چھاؤنی چراٹ میں اپنی کمانڈو تربیت مکمل کر رہے تھے. دونوں
تھوڑے وقفے پر تھے مگر دریائے کابل کا پانی پیتے تھے. جب ایوان صدارت میں
پہنچے تو نجیب کی پشت پر کے جی بی اور مشرف کی پشت پر سی آئی اے کا دیوتا
کھڑا تھا اور دونوں کی پکار ایک ہی تھی " ڈو مور".
پاکستان میں کسی اندیکھے انقلاب کے سائے منڈلا رہے ہیں اور پرویز مشرف نے
اپنی سیاسی جماعت کا اعلان کر دیا ہے. افغانستان میں جنوب سے طالبان کا
سیلاب امنڈ رہا تھا اور جس رات طالبان کابل پر قبضہ کرنے والے تھے تو
واشنگٹن سے ایک دیوتا بار بار نجیب اللہ کو کہہ رہا تھا کہ تم اپنے بھائی
کے ساتھ نیا لباس پہن کر تیار رہو کیونکہ طالبان کے قبضے کے بعد تم نے صبح
افغانستان کے صدر کا حلف اٹھانا ہے.
دیکھیے کتنی مماثلت ہے پرویز مشرف کو بھی ایسے پیغامات آ رہے ہیں کہ اگلے
الیکشن سے پہلے تمہیں ہر حال میں پاکستان جانا ہے. ڈاکٹر نجیب اور اسکے
بھائی کی لاشیں کابل میں تین دن تک ایک چوک میں لٹکی رہی مگر واشنگٹن سے
کوئی فون کال نہ آئی جسمیں کہا جاتا کہ یہ تمہارا سابق صدر ہے. پرویز مشرف
صاحب پڑوسی ملک میں ہونے والے اس تاریخی فیصلے کو ذہن میں رکھ کر فیصلہ
کریں تو اچھا ہے ورنہ
پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی. |