صنم(پہلی قسظ)

مجھے محبت کے تصور سے ہراساں کر کے
آج کہتے ہیں وہ کہ انہیں محبت ہے ہم سے
کتاب کی تحریر میں محو صنم کو پتہ بھی نہیں چلا کب امی کمرے میں آگئی۔ بیٹا صنم کیا کر رہی ہو۔ امی کے سوال پر صنم نے ڈائجسٹ کے صفحہ کو ایک کونے سے تھوڑا سا موڑا۔ کچھ نہیں امی آپ کو کوئی کام ہے تو بولیں ۔ میں فارغ ہوں۔ امی نے تمحید باندھتے ہوئے کہا۔ فاخرہ وہ جو تمہاری سہیلی تھی اس کے ہاں بیٹی ہوئی ہے۔ کل اس کی امی ملیں تھیں مجھے۔ صنم نے امی کی طرف دیکھا۔ اسے پتہ تھا امی اب اس سے کیا کہنے والی ہیں لہذا اس نے ڈائجسٹ کو الماری میں ایک سائیڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔ جب بھی کوئی نیا رشتہ آتا تھا اس کی ماں اسی طرح تمحید باندھ کر صنم کو پہلے بتاتی کہ اس کی کس کس دوست کی شادی ہو چکی ہے ۔کون سی دوست کے بچے بھی ہو چکے ہیں تا کہ وہ اسے بعد میں کہہ سکیں کہ جو رشتہ دیکھنے آ رہے ہیں۔ صنم ان سے محبت و خلوص سے ملے تا کہ اس کی شادی ہو سکے ۔اپنا گھر مل سکے ۔ صنم اپنی ماں کی مجبوری کو سمجھتی تھی ۔ وہ محبت سے اپنی ماں کو دیکھتی اور ہمیشہ اپنی ماں کی دلجوئی کرتی۔ اس کی عمر پچیس سال ہو چکی تھی۔ وہ سمجھتی تھی کہ اس کی ماں کو ہر وقت اس کی فکر لگی رہتی ہے۔ اگرچہ بظاہر اس میں کوئی کم نہیں تھی مگر کبھی آنے والا رشتہ اس کے گھر والوں کو اس کے معیار کا نہیں لگتا تو کبھی رشتہ مانگنے کے لے آنے والے لوگوں کے دل کو وہ نہیں بھاتی ۔ یہ سلسلہ اس وقت سے جاری تھا ۔ جب اس نے بی ۔اے کیا تھا۔ اب وہ ایم ۔اے ۔ایم ایڈ کر کے ایک سکول میں ٹیچر لگ گئی تھی ۔رات کو کوئی کہانی پڑھ کر سو جانا اس کی عادت تھی۔ وہ حسب عادت یہ کام کر رہی تھی کہ امی نے اسے نجیب کے رشتے کا بتانا ۔ پھر دھیرے دھیرے اپنی بند مٹھی کھولی ۔ یہ تصویر دی ہے ،آمنہ نے اس کی دیکھو تو کیا پیار سا چیرہ ہے ،نا موچھ نہ دھاری ماڈرن بھی لگتا ہے۔ میں نے تو کہہ دیا کل آ جائیں وہ لوگ ۔ تم کل چھٹی کر لو نا ۔ صنم نے امی کی طرف بیچارگی سے دیکھا ۔امی آپ شام کو بلا لیتی نا انہیں۔امی نے منہ بناتے ہوئے کہا، کیسے کہتی آمنہ نے کہا کہ لڑکے کی امی نے کہا صبح دس بجے ۔ اب میں کیسے کہتی شام کو آئیں۔ ویسے بھی لڑے کو نوکری کرنے والی لڑکی نہیں چاہیے۔صنم نے امی کی طرف دیکھا ۔تو امی پھر وہ لوگ کیوں آرہے ہیں ۔میں تو نوکری کرتی ہوں نا۔ آمنہ آنٹی نے بتایا نہیں انہیں۔ امی نے صنم کا ہاتھ پکڑ کر کہا ۔اگر انہوں نےہاں کہہ دی تو نوکری چھوڑ دینا ویسے بھی چار ماہ ہی رہ گئے ہیں نا کانٹریکٹ کو۔ صنم نے افسردگی سے کہا ۔امی وہ تو دوبارہ ہو سکتا ہے نا۔ امی نے کہا ۔کیا؟صنم کانٹریکٹ امی اور کیا۔

امی نے صنم کے قریب ہوتے ہوئے کہا ،بیٹا شادی کے بعد کہاں نوکریاں کرنے ہوتی ہیں ۔ سدرہ ۔شاکرہ ۔ایمن کو دیکھو۔ سدرہ اور ایمن اس کی بڑی بہینں تھیں اور شاکرہ اس کی کزن ۔چھوٹے بچے کہاں چھوڑ کر جائے گئی عورت۔ عورت کا اصل کام تو بچوں کی تعلیم و تربیت ہی ہوتی ہے۔ صنم تو امی پھر کیاضرورت تھی مجھے اِتنی محنت کرنے کی راتوں کو جاگ جاگ کر پڑھنے کی۔اگر نوکری نہیں کرنی تھی تو ؟امی نے بیزاری سے کہاآج کل کے لڑکوں کی جو ڈیمانڈ ہے لڑکی پڑھی لکھی ہو۔بس اسی لیے ماں باپ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلاتے ہیں ۔ ورنہ میں تو کہتی ہوں کم پڑھی لکھی مائیں ذیادہ بہتر پرورش کرتیں ہیں اپنے بچوں کی۔ صنم اب آپ نے یہ کیوں کہا امی۔ کیا پڑھی لکھی مائیں اپنے بچوں کی اچھی پرورش نہیں کرتیں۔ بات وہ نہیں ہے صنم دیکھو نا آج کل کی لڑکیوں کو یہ موبائل کی ٹک ٹک اور کمپیوٹر کی چک چک کی ایسی لت لگی ہوتی ہے کہ وہ شوہر کی خوشی اور بچوں کی ضرورتوں پر اس قدر نظر نہیں رکھتیں ۔ مجھے دیکھو نویں جماعت تک پڑھی ہوں تم سات بہن بھائیوں کو جی جان سے پالا ہے ۔ تم اپنی بہنوں کو دیکھو ں سدرہ اور ایمن دو دو بچوں کی پرورش سے پریشان رہتی ہیں ۔ صنم نے دل میں امی کی بات سے اتفاق کیا سچ میں اسی نوے سال پہلے کی عورت اور آ ج کی عورت میں بہت فرق ہے۔ پہلے کی عورتیں کس قدر سخت جان تھیں۔ امی نے صنم کو کھویا ہوا پایا تو مسکرا کر بولیں ۔ کیا سوچ رہی ہو۔ شادی کے مسلوں کے بارے میں ۔ صنم نہیں امی۔ سوچ رہی ہوں آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں شاہد ۔اگر عورت نے گھر سنبھالنا ہے تو پھر اسے تعلیم دلانا فصول ہے۔ نہیں نہیں امی نے صنم کی بات کاٹی فضول نہیں ہر پڑھالکھا آدمی چاہتا ہے کہ اس کی بیوی پڑھی لکھی ہو تا کہ وہ دوسروں کے سامنے فخر سے شو کر سکے کہ اس کی بیوی تعلیم یافتہ ہے۔ صنم نے افسردگی سے امی کی طرف دیکھا۔ امی لیکن میں تو پروفیسر بننا چاہتی ہوں۔ کسی اچھے کالج میں ۔ جب بچے بڑے ہوں۔تب تو اپنی خواہش پوری کی جا سکتی ہے نا ۔ ایسا آدمی جو نوکری کے خلاف ہے ۔آپ اس سے میری شادی نہ کریں۔ امی نے مسکرا کر کہا۔ ابھی کون سا شادی ہونے لگی ہے وہ رشتہ دیکھنے آ رہے ہیں ۔ہم دیکھیں گئے۔ وہ دیکھیں گئے ۔ بات جیت چلے گئی ۔ تم تو ایسے پریشان ہو رہی ہو جیسے کل شادی ہے۔ صنم نے امی کی طرف دیکھا ۔دھیرے سے کہا ۔امی شروعات تو ہو رہی ہے نا۔ امی نے صنم کو سمجھاتے ہوئے کہا ۔بیٹا آدمی بڑھی عجیب چیز ہوتا ہے۔ کبھی تو ایسا کڑک کہ دل کانپ جائے اور کبھی ایسا نرم کہ روئی کا گولا عورت جیسے چاہیے موڑ لے۔ تم منا لینا نا اپنے شوہر کو ۔جب ایسی پیار کرنے والی خوبصورت اور خوب سیرت بیوی ہو تو شوہر کیوں نہیں اس کی بات مانے گا۔ آدمی شروع شروع میں جو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے ۔وقت گزرنے پر بچوں بیوی کے ہی ہو کر رہ جاتے ہیں ۔ جیسے عورت کو اپنے میکے کی یاد نہیں آتی ۔آدمی بھی اپنی چھوٹی سی دنیا کا ہی ہو کر رہ جاتا ہے۔مجھے یقین ہے تم بہت اچھی زندگی گزارو گی جہا ں بھی جاو گی۔ صنم اچھا امی ۔میں کل چھٹی کر لیتی ہوں ۔ آپ اب جا کر سو جائیں ۔ امی پیار سے دُعائیں دیتی کمرے سے جا چکی تھی۔

صنم اپنے گھر میں سب سے چھوٹی تھی ۔ اس کے سارے بہن بھائی شادی شدہ تھے ۔اس کےبھائی اور بھابھی کی شادی کو ایک سال ہی ہوا تھا۔وہ سمجھتی تھی کہ شادی کا مطلب زمہ داری کے سوا کچھ بھی نہیں،پھر بھی ڈائجسٹ پڑھ پڑھ کر اس کے دل میں ایک رومینٹک پیار کرنے والے جیون ساتھی کا تصور ابھرتا تھا جو آفس سے گھر لوٹنے کے بعد نہ صرف اسے اپنے دن کی مصروفیت کا بتائے ۔بلکہ اس سے اس کا حال بھی پوچھے ۔ وہ اکثر محبت کرنے والوں میں جدائی کا پڑھتی تو رونے لگتی ۔ ایسی کہانی جس میں کسی وجہ سے ہیرو اپنی محبوبہ سے جدا ہو جاتا تھا۔ساری کہانی پلٹ پلٹ کر دیکھتی ۔کہ آخر میں کیا ہوا ؟کیا دونوں مل گئے یا نہیں ۔اس نے فون اُٹھایا اور اپنی دوست مریم کو ایس ایم ایس کیا او بتایا کہ وہ ایک درخواست دے دے۔ مریم نے مبارک دی اور دُعا بھی تو صنم مسکرانے لگی۔جوابی ایس ایم ایس پڑھ ہی رہی تھی کہ عجیب سی باتوں کی آواز سنائی دی ۔ گھر میں وہ پانچ ہی تو لوگ تھے ۔چھوٹا بھائی ،بھابھی ، ابو ، امی اور وہ ۔ یہ شور کیسا تھا۔ وہ کمرے سے باہر نکل آئی ۔پہلی بار اس نے دیکھا ۔ا س کے گھر میں اس طرح کا منظر ۔اس کا بھائی اس کی بھابھی کو گھر سے دھکے دے کر باہر نکال رہا تھا۔ امی ابو بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن عارف پر تو جیسے خون سوار تھا۔ صنم کو اپنے قدم زمین میں دو فٹ اندر دھنسے ہوئے محسوس ہوئے ۔ قدم اُٹھانے کی کوشش بے کار تھی ۔ شرمیلا رو رہی تھی ۔ عارف کے ہاتھ میں اس کے گناہ کا ثبوت تھا۔اس نے دو چار تھپڑ لگائے تو شرمیلا بے ہوش ہو گئی۔ جب شرمیلا بے ہوش ہوگئی ،عارف اسے وہیں چھوڑ کر کمرے میں جا چکا تو صنم کو اپنے جسم میں کچھ حرارت محسوس ہوئی ۔اس نے امی ابو کو شرمیلا کو کمرے میں لے جاتے ہوئے دیکھا۔ وہ دھیرے دھیرے سے کچن کی طرف بڑھی امی جب کچھ دیر بعد کچن میں آئی تو رو رہی تھی ۔ امی کیا ہوا؟امی بھائی نے یہ سب کیوں کیا ۔ ان لوگوں کی تو پسند کی شادی تھی۔ سات آٹھ ماہ میں ہی محبت ختم ہو گئی عارف کی ۔ ایسا کیا کیا تھا شرمیلا نے؟
امی نے افسردگی سے صنم کو بتایا۔صنم بیٹا وہ شرمیلا امید سے ہے۔ صنم نے حیرت سے امی کو دیکھا۔تو اس میں مارے والی کون سی بات ہے۔ امی نے آہ بھری او ر کہا کہ عارف کہتا ہے۔میں نے اسے تین ماہ سے ہاتھ نہیں لگایا ۔اس کے پیٹ میں دو ماہ کا بچہ کہاں سے آگیا۔بس اسی بات کو لے کر۔ شرمیلا کا کہنا ہے کہ الڑا سونڈ میں مسلہ ہو گا۔عارف کا کہنا ہے کہ یہ بچہ اس کا ہو ہی نہیں سکتا ۔ باتوں باتوں میں اس کے منہ سے نکلا کہ وہ باپ بن ہی نہیں سکتا تو ۔اور اس کا کہنا ہے کہ اگر اسے پتہ ہوتا کہ وہ بدچلن نکلے گی تو وہ کبھی اس سے شادی نہ کرتا۔ صنم امی اب کیا ہو گا؟امی نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ۔ عارف تو کہہ رہا ہے میں طلاق دو ں گا اسے ۔ کسی اور کی گندگی کو دامن میں نہیں رکھ سکتا۔صنم نے امی کو تسلی دی ۔ امی آپ فکر نہ کریں ،آپ کا بلڈ پریشر بڑھ جائے گا۔

صنم حیرت اور افسوس کے ملے جلے جذبات سے کمرے میں لوٹ آئی۔ یہ کیسی محبت ہے آج کل ۔ عارف کو جب پتہ تھا کہ وہ کس قابل ہے اور کس قابل نہیں تو اسے شرمیلا کو بتا دینا چاہیے تھا۔ شرمیلا کو اگر شوہر سے مسلہ تھا تو کوئی جائز حل نکالتی یہ کیاکیا اس نے ۔ آج کل خودغرضی نے انسان کو کس قدر تبدیل کر دیا ہے۔ شرمیلا کے گھر فون کر دیا گیا تھا۔ وہ رورہی تھی ۔اس نے اپنے ساس سسر کی منت سماجت کی کہ وہ اس کے باپ اور بھائی سے اس بات کا تذکرہ نہ کریں ۔وہ عارف کو منا لے گی ۔ عارف کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ صنم کے ابو پریشان ہو گئے ۔ہم انہیں کیا کہیں گئے ، رات کے اس وقت کیوں انہیں بلایا ہے ۔ شرمیلا نے کہا میں کہہ لوں گی پلیز انکل میرے ابو کا غصہ تو آپ جانتے ہی ہیں اور نعیم تو پاگل ہے اگر اسے پتہ چلا کہ عارف نے مجھ پر یہ الزام لگایا ہے تو پتہ نہیں وہ لوگ عارف کے ساتھ کیا سلوک کریں ۔ مجھے اپنی نہیں عارف کی فکر ہے ۔ میں ان سے خود بات کر لوں گی۔

تھوڑی دیر میں شرمیلا کے بھائی اور باپ گھر آ چکے تھے۔ صنم نے ان کے لیے چائے رکھی۔ شرمیلا کے ابو نے تلخی سے کہا ۔آپ نے اس طرح بلایا میں تو پریشان ہو گیا تھا۔ شرمیلا کا اگر گھر آنے کا دل تھا تو عارف چھوڑ جاتا نا اُسے ۔ ابو نے دھیرے سے کہا وہ عارف تو گھرمیں ہے نہیں ۔میری طبعیت کچھ ٹھیک نہیں تھی اس لیے۔ شرمیلا کے ابو نے پھر اپنی تسلی کے لیے پوچھا ۔اگر کوئی اور مسلہ ہے تو بتائیں ۔ سعید صاحب نے شرمیلا کی طرف ایک نگاہ ڈالی ، کس قدرم مشکل تھا وہ بات کہنا جو عارف نے بتائی تھی۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ لڑکی سچی ہے یا ان کا بیٹا۔انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔شرمیلا کچھ دیر میں گھر سے چکی تھی۔دوسرے دن نجیب کی فیملی آئی انہوں نے دیکھتے ہی صنم کو پسند کر لیا۔ انہو ں نے بتایا کہ نجیب نے صنم کو اس کی دوست کی شادی میں دیکھا تھا دو سال پہلے تو اسے کوئی اعتراض نہیں ۔ سعید صاحب نے سوچنے کے لیے وقت مانگا ۔ صنم کو بھی عجیب بے چینی محسوس ہوئی ۔ یہ پہلا رشتہ تھا ۔جنہوں نے آتے ہی صنم کوپسند کر لیا تھا ۔ انہوں نے اگلے ہفتہ کھانے پر آنے کی دعوت دے دی۔سعید صاحب نے دعوت قبول کر لی۔ صنم کی امی نے خوشی سے کہا ۔ اب تو آنا جانا لگا رہے گا۔ نجیب کی امی مسکرائی۔ ہاں کیوں نہیں۔ اسی شام دروازے پر بڑے ذور کی دستک ہوئی ، نعیم کھڑا چیخ رہا تھا۔ عارف اور نعیم دونوں ہی شدید غصہ میں تھے۔

شرمیلا نے خود کشی کی کوشش کی تھی ۔ نعیم یہاں عارف کو بلانے آیا تھا۔ لیکن عارف نے اسے جو باتیں شرمیلا سے متعلق بتائیں تھی۔ وہ شدیدغصہ میں آگیا۔اس نے چیختے ہوئے کہا اگر میری بہن کو کچھ ہوا تو یاد رکھنا ،بہنیں تمہاری بھی ہیں۔ بہت بچھتاو گئے تم۔ عارف نےغصہ سے کہا ،میری بہنیں بدچلن نہیں ، تمہاری بہن کی طرح۔ وہ عزت دار ہیں۔ شرمیلا کے لیے دعا کرو مر جائے ،ورنہ ایسی بہنوں کے بھائیوں کو بھی خود کشی کرنی پڑتی ہے۔ نعیم اور عارف ایک دوسرے کو مارنے پر تلے ہوئے تھے کہ محلے والوں نے پولیس کو بلا لیا۔ نعیم کی رات کو ضمانت کروا لی گئی۔ شرمیلا کا رات کو ہی جنازہ تھا۔ سعید صاحب کے گھر والوں میں سے وہاں کوئی نہ گیا تھا۔ بات پورے خاندان میں پھیل چکی تھی۔ صنم کی امی نے صنم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ پتہ نہیں اگر ان لوگوں کو شرمیلا کا پتہ چلے گا تو وہ کیا سوچیں گئے ۔ ہماری بہو ایسی نکلی۔ صنم امی جو ہو نا تھا ہو گیا۔ اب کیا کر سکتے ہیں ۔ آپ کو کیا لگتا ہے عارف سچا تھا یہ شرمیلا ۔ میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ۔ کتنا پسند کرتی تھی وہ عارف کو۔ اس کی ہر چیز کا خیال رکھنا۔ آپ نے دیکھا نہیں ۔ کیسے اس کے آنے سے دو گھنٹے پہلے ہی تیار ہو کر انتظار کر رہی ہوتی تھی۔ اپنے گھر والوں کو منا کر ذبردستی شادی کی تھی اس نے عارف سے ۔ اب یہ ۔ مجھے تو عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔

صنم کی امی فاخرہ بیگم نے افسردگی سے کہا، میں کیا بولوں ، سمجھ میں تو میری بھی کچھ نہیں آتا۔ممکن ہے کہ عارف کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو۔ بیٹھے بیٹھائے مصیبت آگئی ۔ اچھا خاصا رشتہ آیا تھا نجیب کا۔ صنم امی آپ کو شرمیلا کا کوئی افسوس نہیں ۔بس میرے رشتے کی پڑی ہے۔ ان لوگوں کی جوان بیٹی مر گئی۔ کیا گزر رہی ہو گی ان پر۔ فاخرہ بیگم نے الجھتے ہوئے کہا ۔ افسوس ہے ۔ مگر کیا کروں ۔ ان لوگوں نے چھوٹ بھی کتنی دی ہوئی تھی شرمیلا کو۔ عارف اور اس کی دوستی ، شادی سب کچھ ۔شریف لڑکیاں اس طرح کی حرکتیں تو نہیں کرتیں نا۔ عارف کو میں نے پہلے ہی سمجھایاتھا جو لڑکی ایک لڑکے سے ملتی ہے ۔ وہ دوسرے لڑکوں سے بھی مل سکتی ہے۔ پر اس پر تو عشق کا بھوت سوار تھا۔ اب بھوت اُترا ہے تو ماں یاد آئی ہے اسے ۔ کہتا ہے امی آپ تھیک کہتی تھیں ۔ مجھ سے غلطی ہو گئی۔ میں نے زندگی برباد کر لی اپنی۔
صنم نے امی کی طرف افسردگی سے دیکھا۔ جیسے اسے ان کی باتوں کا یقین نہ ہو کہ شرمیلا شریف لڑکی نہیں تھی۔ امی نے بیزاری سے اُٹھتے ہوئے کہا۔ اچھا۔ سو جاو کل تمہیں سکول بھی جانا ہے ۔ میں بھی سوتی ہوں۔ صنم نے جاتی ہوئی ماں کو دیکھا۔ وہ واقعی شرمیلا کے لیے کوئی دُکھ محسوس نہیں کر رہیں تھیں ۔ صنم کو حیرت ہو رہی تھی۔ شرمیلا۔ فاخرہ کی پسند نہیں تھی ۔ مگر وہ بہت خوش اخلاق اور سب سے بات کرنے والی لڑکی تھی ۔صنم کو اس سے کوئی شکایت نہیں تھی ۔ وہ صنم کی پسندیدہ بھائی تھی ۔ صنم کو شرمیلا کی موت کا بہت دُکھ تھا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 281109 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More