وائرل موت

وائرل موت

گرمی کی ایک دوپہر تھی۔ لاہور کی تنگ گلیوں میں موبائل کیمرا لیے، میک اپ سے چمکتا چہرہ لیے، ماہا نور اپنی اگلی ٹک ٹاک ویڈیو کے لیے جگہ ڈھونڈ رہی تھی۔ پس منظر میں وہی عام سا نغمہ، چند ادائیں، کچھ بولڈ حرکات، اور اگلے دن لاکھوں ویوز۔ یہی اُس کی دنیا تھی ۔ جھوٹی مگر چمکدار، جعلی مگر مشہور۔

اس کا خواب تھا کہ وہ "وائرل کوئین" بنے، اور شاید بن چکی تھی، مگر قیمت کے بارے میں نہ وہ سوچتی تھی، نہ کوئی اور۔ مرد و خواتین رات کو اس کے ویڈیوز دیکھتے اور دن میں اُس کے کردار پر باتیں کرتے۔ ماہا سب سنتی، لیکن خاموش رہتی۔

"مجھے فالوورز سے فرق پڑتا ہے، فتووں سے نہیں!" وہ اکثر اپنی دوست کو ہنستے ہوئے کہتی۔

ایک شام، ماہا ایک خالی پارک میں اپنی نئی ویڈیو کی شوٹنگ کر رہی تھی۔ ساتھ ہی اس کے دو دوست ـ ایک کیمرہ مین، دوسرا صرف سیکیورٹی کے لیے۔ اچانک چند نوجوان وہاں آئے، چہروں پر غصہ، آنکھوں میں نفرت اور موبائل پر اُس کی ٹک ٹاک ویڈیوز۔

"یہی ہے وہ؟ ہماری بہنوں کو خراب کرنے والی؟"

کسی نے کچھ سنے بغیر پستول نکالا۔ صرف چند لمحوں کی گولیوں نے لاکھوں فالوورز والی ماہا کو خاموش کر دیا۔ ویڈیو ریکارڈنگ وہیں چلتی رہی۔

خبریں آئیں:
"مشہور ٹک ٹاکر ماہا نور قتل"
"ڈیجیٹل فعاشی کے خلاف عوامی ردعمل؟ یا ایک اور انتہا پسندی؟"

ٹی وی چینلز پر بحث شروع ہوئی۔ کچھ نے کہا ماہا معاشرتی بگاڑ کی علامت تھی، کچھ نے کہا وہ صرف ایک لڑکی تھی، جو اپنا راستہ خود چن رہی تھی ـ چاہے غلط یا صحیح۔

سوشل میڈیا پر اس کا آخری ویڈیو وائرل ہو گیا۔ لاکھوں لوگوں نے دیکھا، سینکڑوں نے افسوس کیا، اور چند دن بعد، سب کچھ ویسا ہی ہو گیا جیسا پہلے تھا۔ نئی لڑکیاں، نئے چہرے، نئی ویڈیوز، اور پھر نئی نفرتیں۔
 

Mirza Abdul Aleem Baig
About the Author: Mirza Abdul Aleem Baig Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.