روشنی انسان کے اندر ہوتی ہے باہر نہیں۔ مگر انسان ہے کہ
باہر کی روشنی کو دیکھ کر اس کے پیچھے بھاگتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہر چمکتی چیز
سونا نہیں ہوتی۔ پیسہ کی ظاہری چمک دمک اکثریت کو متاثر کرتی ہے۔ جس کے پاس
زیادہ پیسہ ہے اس کی عزت بھی زیادہ ہے۔ اکثریت ان پر رشک کرتی ہے۔ مگر اگر
کبھی ان کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملے یا ان سے ملنے کا اتفاق ہو تو اکثر
ایسا ہوتا ہےکہ ان کی وہ ظاہری چمک دمک آپ کے چودہ طبق ضرور روشن کر دیتی
ہے۔ پھر آپ کو احساس ہوتا ہے کہ یہ کیا میں نے تو انھیں اپنا آئیڈئیل بنایا
ہوا تھامگر یہ کیا کہ اخلاق سے بات کرنا تو دور کی بات، یہ تو عام انسانوں
کو منہ لگانا بھی پسند نہیں کرتے اور انھیں زمین پر رینگنے والی کوئ چھوٹی
موٹی مخلوق سمجھتے ہیں۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ وہ ان کیڑے مکوڑوں کو اپنے
پیروں تلے روند کر ایسےگزر جائیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
ہماری دنیا میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عزت زیادہ تر پیسے والے کو ہی دی جاتی
ہے جو کہ بساً اوقات خوامخواہ والی عزت ہوتی ہے۔ روڈ پر اگر کوئ سائیکل
والا جا رہا ہے پیچھے سے کوئ کار والا ہارن دے کر راستہ مانگے گا تو وہ
سائیکل والا اسے فوراً راستہ دے دے گا مگر کوئ گدھا گاڑی یہاں تک کہ اگر
کوئ موٹر سائیکل سواربھی اس سے لاکھ ہارن دے کر راستہ مانگے، اس نے راستہ
نہیں دینا اور وہ سائیکل چلاتا ہوا ایسے جاتا رہے گا جیسے وہ کوئ بہرا ہو۔
کوئ اسے روک کر پوچھے کہ جناب آپ نے کار والے کو تو فوراً راستہ دے دیا تھا
مگر اوروں کو کیوں نہیں دے رہے کیا وہ کار والا آپ کا قریبی رشتہ دار تھا؟
پیسہ انسان کو ہر کسی کا ایسا رشتہ دار بنا دیتا ہے جس کی ہم سب خوامخواہ
ہی عزت کرنے لگ جاتے ہیں۔ خوامخواہ عزت کرنے والوں سے پوچھا جاۓ کہ جناب
کیا ایسا کرنے سے وہ آپ کو اس پیسے میں سے کچھ حصہ دے دے گا جس پیسے کو آپ
سلام کر رہے ہیں؟ حقیقتاً ہم انسانوں کو نہیں بلکہ ان کے پیسے کو سلام کر
رہے ہوتے ہیں۔ ایک اینٹیں اٹھا نے والا مزدور اگر اینٹوں کے بٹھے کا ماللک
بن جاۓ تو اس کی عزت کے بڑھنےکا اندازہ آپ خود ہی لگا لیں۔ انسان تو وہی ہے
وہ مگر اب اس کے ساتھ پیسہ لگ گیا ہے جس کی چکا چوند لوگوں کو متاثر کرنے
لگتی ہے۔ لوگوں کو اس کا فائدہ تو کچھ نہیں البتہ نقصان ضرور ہوتا ہےکیوں
کہ غریبوں کو پیروں تلے روندنے کے لۓاس سرزمین پرایک اور انسان کا اضافہ
جوہو جاتا ہے۔ پیسے میں وہ کشش اور چمک ہے کہ جس کے پاس ہو وہ بھی اور جس
کے پاس نہ ہو وہ بھی، اس سے متاثر ہوۓ بغیر نہیں رہ سکتا۔ پیسے سے انسان
باہر تو دئے جلا کر روشنی کر سکتا ہے مگر اپنے اندر کسی دیۓ کی روشنی نہیں
کر سکتا۔ روشنی تو وہ ہے جو کوئ چرا نہ سکے، جو کبھی ختم نہ ہو اور جو
نسلوں کے دلوں میں نور بن کر رہے نہ کہ وہ جسے چوری ہونے کا خوف ہو، جس کے
ختم ہونے کا خدشہ ہو اور جو نسلوں کے اندر نفرت اور حسد کی آگ لگا دے۔ پیار،
محبت، خلوص اور ہمدردی کے احساسات کا اپنے اندر وہ دیا جلائیں جس کی روشنی
آپ کے اندر سے پھوٹنے لگے۔
یہ ٹھیک ہے کہ پیسے کی اہمیت اپنی جگہ ضرور ہے مگر یہ سمجھنا ٹھیک نہیں کہ
پیسہ ہی سب کچھ ہے۔ پیسہ وہ اچھا جو کسی مستحق کے کام آ سکے، کسی غریب کی
بیٹی کی شادی کرا سکے، کسی بیمار کا علاج کرا سکے، کسی معصوم کو تعلیم دلوا
سکے اور کسی معذور کی مدد کر سکے نہ کہ وہ جو بنکوں میں یا تالوں میں رکھا
جاۓ اور نہ صرف یہ کہ اپنی زندگی کی بے جا خواہشات اور تعیشات پر خرچ کیا
جاۓ بلکہ دوسروں کو نیچا دکھانے اور ان کی زندگی عذاب بنانے پر خرچ کیا
جاۓ۔ پیسہ سے غریب کے گھر میں چراغ جلائیں نہ کہ اس پیسہ کو چراغ بجھانے کے
لۓ استمعال کریں۔ بجھے ہوۓ چراغوں کے دھوئیں سے آپ بھی محفوظ نہین رہیں گے۔
یہ دھواں اگر دوسروں کی زندگی خراب کر سکتا یے تو وہ دن دور نہیں جب یہ آپ
کی زندگی کو بھی اندھیر کر دے۔ وقت ایک سا نہیں رہتا آج جو وقت آپ کا ہے کل
یہ کسی اور کا بھی ہو سکتا ہے۔ پیسہ سے آپ وقت کو خرید کر قید نہیں کر سکتے
کہ آپ چاہیں کہ جو وقت اچھا ہے اسے پیسے کی طاقت سے قید کر لیا جاۓ۔ وقت نے
گزرنا ہی گزرنا ہے۔ اچھا یا برا جیسے بھی۔ اپنے پیسے سے وہ روشنی اور نور
پھیلائیں جس سے |