معراجِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی عصری معنویت
(Waseem Ahmad Razvi, India)
سورۃ بنی اسرائیل کی پہلی آیت ؛ جس کو آیتِ
معراج بھی کہتے ہیں ؛اﷲ جل شانہٗ نے ارشاد فرمایا : سُبْحَانَ الَّذِیْ
أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلاً پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا۔
مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الأَقْصَی مسجد حرام سے
مسجد اقصیٰ تک الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہُ وہ مسجد جس کے ارد گرد ہم نے
برکت رکھی ہے۔ لِنُرِیَہُ مِنْ آیَاتِنَا تاکہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں
دکھائیں إِنَّہُ ہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ بے شک وہ سنتا دیکھتا ہے۔
’’معراج‘‘ میرے اور آپ کے آقا و مولا صلی اﷲ علیہ و الہ وسلم کا دوسرا بڑا
معجزہ ہے۔ سب سے بڑا معجزہ جو حضور کو عطا کیا گیا ؛ وہ ’’معجزۂ قرآن‘‘ ہے۔
اور دوسرا بڑا معجزہ جو حضور کو عطا ہوا وہ’’ معجزۂ معراج‘‘ ہے۔ معجزے کے
حوالے سے ایک اور بات ہمیں ذہن نشین کرنی چاہیے کہ اﷲ تعالیٰ جل شانہٗ کی
یہ عادت رہی ہے کہ ہر نبی کو معجزہ اس کے دور کے تقاضوں کے مطابق دیا گیا۔
مثال کے طور پہ حضرت داؤد علیہ السلام جس دور میں تشریف لائے؛ یہ لوہے کی
صنعت کے عروج کا دور تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ معجزہ دیا کہ وہ
لوہے کو ہاتھ میں لیتے تو وہ موم کی طرح نرم ہوجاتا۔ لوگ تو گرم کرتے پھر
نرم کرتے پھر ڈھال کر زِرہیں، آلاتِ حرب ، جو بھی بنانا چاہتے وہ بناتے۔
لیکن اﷲ کے نبی جب لوہے کو ہاتھ میں پکڑتے تو وہ موم بن جاتا، موم کی طرح
نرم ہوجاتا۔ اس کو ڈھال دیتے، جو شکل بنانا چاہتے بنالیتے۔ چوں کہ یہ لوہے
کہ صنعت کا دور تھا ؛ جو معجزہ دیا گیا اسی قبیل کا تھا۔
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام تشریف لائے تو یہ فنِ جادو گری کے عروج کا دور
تھا۔ گھر گھر جادو گر موجود تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ’’عصاء‘‘ عطا
کیا۔ جو کبھی چھوٹا ہوجاتا ہے کبھی بڑا ہوجاتا ہے، کبھی اس سے پتے جھاڑتے
ہیں کبھی بکریاں ہانکتے ہیں، کبھی ٹیک لگا کے کھڑے ہوجاتے، سوتے ہیں تو وہ
پہرے دار بن کے پہرا دیتا ہے اور اگر جادوگر مَنوں ٹَنوں کے حساب سے رسیاں
پھینک دیتے ہیں تو یہ اژدہا بن جاتا ہے اور ساری رسیوں کو نگل لیتا ہے۔ جب
سمٹتاہے تو عصاء کا عصاء نہ قد میں اضافہ ہوتا ہے نہ حجم میں اضافہ ہوتا ہے
اور نہ اس کے وزن میں اضافہ ہوتا ہے۔ چوں کہ جودوگری کا دور تھا ؛ جو معجزہ
دیا گیا وہ جادو کے فخر کو بھی توڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائے ؛ یہ طبِ یونانی کے عروج کا دور تھا۔
حکیم بقراط، سقراط، افلاطون، حکیم جالینوس بڑے بڑے حکما اپنا سکہ جماچکے
تھے۔ اور طبِ یونان میں ہر مرض کی تدبیر تشخیص اور علاج معالجہ دریافت
ہوگیا تھا ؛ سوائے تین امراض کے۔ تین امراض کا علاج طبِ یونانی میں نہیں
تھا؛ مادَر زاد اندھے کی آنکھوں میں روشنی نہیں بھر سکتے تھے، دوسرا ان کے
پاس کوڑی کے جسم کے لیے کوئی دوا نہیں تھی، تیسرا موت کا علاج نہیں تھا۔ اﷲ
تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان تینوں امراض کا علاج دے
کر مبعوث کیا۔ وہ مادر زاد اندھے کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے ہیں ؛ روشنی اتر
آتی ہے۔ کوڑی کے جسم پر ہاتھ رکھتے ہیں؛ شفا ہوجاتی ہے۔ اور مُردے کو ٹھوکر
مارتے ہیں ؛ وہ اُٹھ کے باتیں کرنے لگ جاتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ جل شانہٗ نے ہر دور میں جو نبی کو معجزہ دیا؛ انبیاء علیہم
السلام کی تاریخ پڑھ لیں پھر نبی کو دیا گیا معجزہ دیکھیں؛ مطابقت کر لیں۔
اگر لوگ پتھروں سے چیزیں تراشنے کے عادی ہیں تو حضرت صالح علیہ السلا کو یہ
معجزہ دیا جاتا ہے کہ وہ پتھر سے زندہ اونٹنی نکالتے ہیں۔
جب میرے اور آپ کے آقا و مولا صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے؛ یہ زبان و بیان
کے عروج کا دور تھا۔ گھر گھر شاعر، ادیب، نثر نگار پائے جاتے تھے۔ اﷲ
تعالیٰ نے اپنے محبوب کو سب سے بڑا معجزہ ’’معجزۂ قرآن‘‘ دیا۔ اور پھر ان
شاعروں ادیبوں نثر نگاروں کو کہا کہ قرآن کی مثل ایک سورۃ ہی لے آؤ۔ امام
جلال الدین سیوطی الاتقان فی علوم القرآن میں لکھتے ہیں: اگر قرآن کی مثل
لایا جانا ممکن ہوتا تو بدر و احد کی لڑائیاں نہیں ہوتیں۔ سیدھی سی بات تھی
کہ قرآن کی مثل ایک سورۃ لے آتے اور اسلام و پیغمبرِ اسلام کی تکذیب
کردیتے؛ لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔کسی کے اندر یہ ہمت ہی نہیں کہ وہ قرآن کی
مثل لے آئے۔ سیدی اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں
ترے آگے یوں ہیں دبے لچے فصحا عرب کے بڑے بڑے
کوئی جانے منھ میں زباں نہیں، نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
ہر نبی کو معجزہ اس کے دور کے مطابق دیا گیا۔ تو حضور علیہ السلام کا دور
تو بڑا طویل دور ہے۔ قیامت تک حضور کا دور ہے۔ لہٰذا صرف زبان و بیان ہی نے
عروج حاصل نہیں کرنابلکہ کئی چیزوں نے اپنے اپنے دور میں عروج پانا تھا۔اس
لیے اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اﷲ علیہ وسلم کو کئی معجزات دیے۔ تاکہ کسی
دور کا مسلمان احساسِ کم تری میں مبتلا نہ ہو اپنے دور کی اُٹھان دیکھیں؛
پھر نبی کے معجزہ کی فہرست دیکھیں۔ اسے کوئی نہ کوئی معجزہ اس کے دور کا
فخر توڑتاہوا دکھائی دے گا۔ لیکن دو دَور حضور کے انتہائی اہم ہیں۔دورِ
آغاز ؛ جب زبان و بیان کو عروج تھا تو ’’قرآن‘‘ دیا گیا۔ اور دوسرا قربِ
قیامت کا دور؛ اس میں سائنس نے عروج پانا تھا ، لوگوں نے Apollo XIکے ذریعے
چاند پر جانے کی بات کرنی ہے، مریخ پر سفر کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ تو دوسرا
بڑا معجزہ ’’معراج‘‘ دیا۔ یہ سائنس داں اُلٹی چھلانگیں بھی لگاتے رہیں؛
جہاں میرے محبوب کے قدم چلے گئے ہیں وہاں کسی کا خیال بھی نہیں جاسکتا۔
کوئی حد ہے ان کے عروج کی؟
بلغ العلیٰ بکمالہٖ
}ماخوذ از افاداتِ مصطفائی(زیر ترتیب){ |
|