معراج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور اہل اسلام کا موقف
(Waseem Ahmad Razvi, India)
معراج النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے حوالے سے
تین موقف پائے جاتے ہیں۔ایک موقف تو یہ ہے کہ معراج کا واقعہ ہوا ہی نہیں۔
یہ محض افسانہ ہے۔ مستشرقین، مخالفینِ اسلام یہ پراپیگنڈا کرتے ہیں۔ وہ
کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہی نہیں بلکہ یہ محال ہے۔علما کہتے ہیں: یہ محال ہے تو
عادتاً محال ہے یا عقلاً محال ہے؟ اب وہ عقلاً محال تو نہیں کہتے؛ عادتاً
محال کہتے ہیں۔ تو اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ جو چیز عادتاً محال ہو وہ فی
نفسہٖ ممکن ہوتی ہے۔ مثال کے طور پہ آج سے صدیوں قبل اگر کوئی یہ دعویٰ
کرتا کہ اتنے ٹن لوہا ہوا میں پھر پھڑا رہا ہے، پرواز کررہا ہے۔ تو کوئی
ماننے کو تیار نہ ہوتا۔ یہ محالات میں سے تھا۔ عادتاً کبھی ایسا ہوا نہیں
تھا۔لیکن جب جہاز ایجاد ہوگئے؛ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔…… تو جب
حضور نہیں گئے تھے تو محال تھا اور جب حضور گئے تو وقوع پذیر ہوگیا۔…… اس
لیے کہ جو عادتاً محال ہوتا ہے وہ ممکن ہوتا ہے۔
دوسرا موقف ؛ وہ کہتے ہیں معراج ہوا ضرور ہے ۔ کیوں کہ قرآن کہتا ہے انکار
نہیں ہوسکتا۔ لیکن خواب میں ہوا ہے۔ سوے، خواب دیکھا، اُٹھے اور بیان
کردیا۔ بس اتنی سی کہانی ہے؛ اس کو زیادہ طول دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ بس
یہ ہے دوسرا موقف۔ اس پروہ دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اﷲ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ ما فقدت جسد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم۔ مَیں
نے حضور کا جسم معراج کی رات بستر سے الگ نہیں پایا۔ بلکہ مَیں نے دیکھا کہ
بستر پر ہی موجود رہا۔ تو پھر حضور جسم کے بغیر گئے ہوں تو خواب میں گئے
ہوں گے۔ یہ موقف پیش کیا جاتا ہے اور ایسی ہی ایک روایت حضرت امیرمعاویہ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے پیش کی جاتی ہے۔
حضرت امام عبدالوہاب شعرانی الیواقیت و الجواہر فی بیان عقائد الاکابر میں
لکھتے ہیں کہ حضور کو ایک معراج نہیں ہوا۔ بلکہ حضور کو ۳۴؍معراج ہوئے۔ ان
میں سے ایک معراج یہ جس کو قرآن نے بیان کیا۔ یہ جسم و روح کے ساتھ ہوئی۔
اور باقی جو ۳۳؍ معراج ہیں وہ منامی روحانی تھے۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہا کسی اُس معراج کی کہانی سُنارہی ہیں چوں کہ یہ جو معراج ہے یہ
سفرِ طائف کے بعد ہوا ہے۔اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا مدینہ کی
ہجرت کے بعد حضور کے گھر میں آئیں۔ تو وہ کہیں کہ مَیں حضور کے جسم کو
بسترسے الگ نہیں پایا تو یہ مدینے کی کہانی ہے مکہ کی نہیں ہے۔اور یہ معراج
مکہ میں ہوا ہے۔ لہٰذا وہ کسی اور معراج کی بات کررہی ہیں ۔ اور جب یہ
معراج ہوا ہے اس وقت تو سیدہ حضور کے نکاح میں بھی نہیں آئی تھیں۔
دوسری بات ؛ باقی رہی بات حضرت امیر معاویہ کا کہنا تو وہ بھی کسی اور
معراج کی بات کررہے ہیں۔اس وقت وہ کلمہ پڑھ کے مومن بھی نہیں ہوئے تھے جب
یہ معراج ہوا۔ اس لیے یہ کسی اورمعراج کی کہانی سُنا رہے ہیں۔ یہ جو معراج
ہے ؛ سر کی آنکھوں سے حضور نے اپنے رب کو دیکھا۔
علامہ محمود آلوسی شکری بغدادی علیہ الرحمۃ تفسیرِ روح المعانی میں لکھتے
ہیں: اگر یہ خواب میں معاملہ ہوا فمست حال القریش؟ تو قریش نے اسے محال
کیوں جانا؟ اگر مَیں کہوں کہ مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد مَیں
مرکز(مرکزالمصطفیٰ) سے نکلا۔ راستے میں میری آنکھ لگ گئی۔ بس مَیں آسمان پہ
چلا گیا۔ ستارے توڑ توڑ کے جیبیں بھرتا رہا۔ سورج چاند کو لپیٹ کے مَیں نے
گود میں رکھ لیاپھر موڑ پہ میری آنکھ کھل گئی اور مَیں یہاں آگیا۔ اگر مَیں
یہ کہوں تو کوئی اس کا انکار کرے گا؟ کیوں کہ خواب کی بات کی ہے نا! کہ
مَیں نے خواب دیکھا اور چلا گیا۔ کوئی بھی انکار نہیں کرے گا۔ اور اگر مَیں
یوں کہوں کہ مغرب پڑھ کے نکلا تھا؛ یہاں موڑنا بھول گیا،آگے چلا گیاپھر
مریدکے (پاکستان کا ایک مقام) سے آگے گیا، پھر مجھے یاد آیا پھر مَیں واپس
پلٹ آیا۔ تو اس بات کو کوئی نہیں مانے گا کہ اتنی جلدی آپ کیسے آسکتے ہیں؟
ابھی نماز پڑھ کے فارغ ہوئے تلاوت بھی نہیں ہوئی ، آپ پہنچ گئے اور آپ کہتے
ہیں مَیں مرید کے سے ہوکر آگیا ہوں۔ یہ جاگتے ہوئے بات کی تو کوئی مانتا
نہیں۔اور آسمان پر جانے کی بات خواب میں کی اس کو سارے مان رہے ہیں۔ معلوم
ہوا خواب کا انکار نہیں ہوتا بیداری کا انکار ہوتا ہے۔
قریشِ مکہ جو انکار کررہے تھے ؛ حضور نے عالمِ بے داری میں جانے کا
کہا۔بلکہ سب سے پہلے حضور نے جب واقعۂ معراج اپنی چچا زاد ہم شیرہ حضرت
اُمِ ہانی کو بتایا ؛ جن کے گھر سے معراج کا آغاز ہوا۔ حضرت ام ہانی کو
بتایا ؛ انہوں نے کہا کہ یہ بات قریش کو نہ بتائیں ۔ وہ مذاق اڑائیں گے،
انکار کریں گے، اذیت دیں گے۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ مَیں تو ضرور
بتاؤں گا۔ انہوں نے انکار کیا۔حضور چل پڑے۔ اُمِ ہانی نے حضور کا دامن پکڑ
لیا۔ کہا مَیں آپ کو نہیں جانے دوں گی۔ پھر فرماتی ہیں؛ خود روایت کرتی ہیں
کہ حضور نے جھٹکا دے کر مجھ سے اپنا دامن چھڑایا۔ تو مَیں نے کیا دیکھا کہ
حضور کے سینے سے ایک نور نکلا جو آسمان تک چلا گیا،اور اس نور کو دیکھ کر
مَیں سجدے میں گر گئی، مَیں نے سجدے سے سر اٹھایا تو حضور جاچکے تھے۔ مَیں
نے اپنی لونڈی نبیہا سے کہا جاؤ ان کے پیچھے اور دیکھو کہ یہ کیا کہتے ہیں
اور قوم کیا جواب دیتی ہے…… تو حضرت ام ہانی جو روک رہی ہیں؛ اگر یہ خواب
کی کہانی تھی تو اس قدر ایسا کیوں ہوا؟؟
امام آلوسی لکھتے ہیں انہوں(قریش) نے اس پر بڑی بحث کی۔ وہ جانتے تھے کہ
حضور کبھی مسجد اقصیٰ نہیں گئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا: پھر آپ مسجد اقصیٰ
کے بارے میں نشانیاں بتاؤ۔حضور نے فرمایا پوچھوں مَیں نے تو دیکھا ہوا ہے……
اب ظاہر ہے حضور مسجد اقصیٰ کو سرسری نگاہ سے دیکھ آئے تھے۔ لیکن انہوں نے
وہ تفصیلات پوچھنا شروع کردی جس نقطۂ نظر سے بندہ دیکھا نہیں کرتا…… آپ
درسِ قرآن میں آئے ہیں۔ میرا حلیہ، ناک نقشہ، درسِ قرآن کا ماحول ، اس ہال
کا ماحول ، اس کی ہیئت؛ آپ کو کوئی پوچھے آپ بلا تامل بتادیں گے۔ لیکن کچھ
سوال ایسے ہیں جن کے بارے میں آپ نہیں بتاسکتے۔مثال کے طور پر اس کے اندر
بلب کتنے لگے ہوئے ہیں؟ ٹائلیں کتنی لگی ہوئی ہیں؟ کتنی کرسیاں لگی ہوئی
ہیں؟ یہ وہ تفصیلات ہے کہ بندہ اس تفصیل ، دقتِ نظر اور زاویۂ نگاہ سے نہیں
دیکھا کرتا۔ فرماتے ہیں کہ جب مَیں نے کہا کہ پوچھ لو تو انہوں نے وہ باتیں
پوچھنا شروع کردیں؛ جس نگاہ سے مَیں نے مسجد اقصیٰ کو نہیں دیکھا تھا۔ شہ
تیر کتنے تھے؟ بھالے کتنے تھے؟کھڑکیاں کتنی تھیں؟ فرماتے ہیں مَیں دو لمحوں
کے لیے تو خاموش ہوا، پھر اﷲ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ کو میرے لیے ایسا کیاجس
طرح میرے چچا ابو طالب کا گھر ہوتا ہے۔ اور مَیں دیکھتا جاتا اور ایک ایک
نشانی کو بتاتا جاتا۔ جب ساری تفاصیل رکھ دی ان کے سامنے تو وہ کہنے لگے
نقشہ بیان کرنے میں تو آپ بڑے ماہر ہیں چوں کہ آپ نے پروگرام بنایا تھا؛
پہلے کسی ذمہ دار شخص کو بھیج کر ساری تفصیلات منگوائی ہیں، پھر ازبر کیا
ہے، ہم نے پوچھا ہے تو بتادیا ہے۔ حضور نے کہا کہ پہلے کہتے تھے کہ اگر
بتادو گے تو ہم مان جائیں گے ؛ بتایا تو یہ بہانہ تراش لیا۔ کوئی اور بات
پوچھو۔ کفارکہنے لگے ہاں ہاں! ہمارے کچھ قافلے شام کی طرف گئے ہوئے ہیں۔
اورظاہر ہے آپ مسجد اقصیٰ گئے ہیں تو شام کے راستے سے گزر کے گئے ہوں گے؛
اُن قافلوں کے بارے میں اگر آپ خبر دے دیں ؛وہ خبر تازہ ہوگی۔ وہ کسی کو
بھیج کر آپ نے منگوائی نہیں ہوگی۔ اخبر عن عیننا ہمارے قافلوں کے بارے میں
خبر دیں۔
حضور علیہ السلام نے فرمایا یہ بھی پوچھ لو۔تمہارا فلاں قافلہ مجھے مقامِ
روحہ پہ ملا تھا۔فلاں قافلہ مقامِ تنعیم پہ ملا تھا۔ فلاں قافلے کے قریب سے
میرا براق گزرا تو ان کا اونٹ بدک گیا؛ سوار گر گیا بازو ٹوٹ گیا۔ قافلہ
پلٹے تو پوچھ لینا کسی کا بازو ٹوٹا تھا یا نہیں ٹوٹا تھا؟کفار کہنے لگے یہ
تو ایک نشانی ہوگئی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ فلاں قافلہ مکے کے
بالکل قریب آگیا ہے اور آج شام سورج غروب ہوتے ہی وہ حدودِ مکہ میں داخل
ہوجاے گا۔ اس کی نشانی یہ ہے کہ آگے آگے بھورے رنگ کے دو اونٹ چل رہے ہیں
جن کے اوپر دھاری دار بوریاں لگی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو ہتھیلی
پر سر سو جمانے جیسی بات ہے۔ آج شام کو ہی دیکھ لیتے ہیں۔
اب سورج غروب ہونے کے قریب تھا کفار ان پہاڑوں پہ کھڑے ہیں جس سمت سے حضور
نے قافلہ کے آنے کی نشان دہی کی تھی۔ حضور کے غلام(صحابہ) بھی موجود
ہیں۔سورج درد غروب سے زرد ہوا جارہا ہے لیکن آثارِ قافلہ ابھی تک دکھائی
نہیں دیا۔ کافروں کے دل بِلّیوں اچھل رہے تھے۔ کہ قافلہ لیٹ ہوگیا اور ہم
تکذیب کریں۔حضور کے کسی غلام کو تشویش ہوئی، بھاگا بھاگا خدمتِ اقدس میں
حاضر ہوا ۔ عرض کیا حضور سورج تو غروب ہوا جارہا ہے اور قافلہ ابھی تک نظر
نہیں آیا! …… آقا کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دلِ نازک پر گرانی اﷲ تعالیٰ کو
بھلا کیسے گواراہے۔ فوراً جبریل امین تشریف لائے؛ کہا اگر قافلہ نہیں آیا
محبوب پریشان نہیں ہونا جب تک قافلہ نہیں آئے گا سورج کو غروب ہی نہیں ہونے
دوں گا۔
اہلِ سِیَر نے اس واقعہ کو اپنی کتب میں بیان کیا کہ جب سورج اپنی آخری
کرنیں لپیٹ رہا تھا تو کفار نے شور کیا قد غربت الشمس وہ دیکھو سورج غروب
ہوگیا مسلمانوں نے کہا ذرا نظر ادھر بھی تو اٹھاؤ قافلہ بھی نظر آگیا۔ اور
جب قافلہ بالکل قریب آگیا جو نشانیاں آقا کریم نے بتائی تھیں وہ ساری
نشانیاں پائی گئیں۔ اب کوئی بات نہ آئی تو کہنے لگے ھذا سحر ابن ابی کبشۃ
یہ ابو کبشہ کے بیٹے کا جادو ہے جو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ……تو یہ اتنا کچھ
ہوا ؛ …… علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ اگر یہ ’خواب‘ کی کہانی ہوتی تو یہ
اتنا سب کچھ کیوں ہوا؟ حضور نے خواب میں جانے کی بات نہیں کی تھی عالمِ
بیداری میں جانے کی بات کی تھی۔
}ماخوذ از افاداتِ مصطفائی(زیر ترتیب){
٭٭٭
|
|