اسلام فطرت انسانی کی مطابق وموافق ایسا ضابطہ حیات ہے جو
ہماری جملہ فطری ضروریات کا کماحقہ خیال رکھتا ہے۔اس لئےاللہ تعالی نے بقاء
نسل کے لئے شادی کا تاکیدی ارشاد فرمایا ہے۔ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ ۔
النکاح من سنتی فمن رغب عن سنتی فلیس منی۔
ترجمہ : نکاح میری سنت ہے۔جو اس سے انحراف کرتا ہے۔وہ ہم سے نہیں ہے۔
شادی فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی خوشی،مسرت اور شادمانی کے ہیں۔ جب
کوئی بچہ یا بچی کسی گھرانے میں جنم لیتا ہے۔تو اس کے والدین اسی وقت سے
بیٹے کے سر پر سہرا سجنے اور بیٹی کےدلہن بن کر بابل کے گھر سے رخصت ہونے
کے خواب آنکھوں میں سجائے پھرتے ہیں۔پھر ایک لمبے عرصہ کے انتظار کےبعد آخر
یہ خوشی کی گھڑیاں آ پہنچتی ہیں۔جس میں سارے یار دوست،بہن بھائی
اورعزیزواقارب بڑے اہتمام سے اس خوشی کے لمحات میں شرکت کرتے ہیں۔ یہ
گھڑیاں ماں باپ کی زندگی میں حسین ترین لمحات ہوتے ہیں۔
گزشتہ دنوں میرے بھتیجےسلمان احمد قمر آف جرمنی اور بھانجی عزیزہ عائشہ
خالد لندن کی شادی تھی۔رخصتانہ کی تقریب کے لئے بارات جرمنی سے لندن
آئِی۔جس میں شرکت کا موقعہ ملا۔بچی کو سب نے بڑی سادگی مگر بہت سی دعاؤں
کے ساتھ رخصت کیا۔اس کے بعد ہم لوگ جرمنی کے شہر مائنز میں دعوت ولیمہ کی
تقریب میں شرکت کے لئے چلےگئے۔
اس تقریب سعید میں شرکت کے لئے لندن سے عزیزم تصور خالد ۔عزیزم فاروق ربانی
۔عزیزم عطاء القدیر اپنی فیملیز کے ہمراہ اپنی گاڑیوں میں مائنز روانہ
ہوگئے۔
یاد رہے کہ لندن سے مائنز تک سفر بزریعہ کا ہو تو مسافت 467 میل بنتی ہے۔
جس میں آپ کو فیری کے زریعہ سے سمندر عبور کرنا پڑھتا ہے ۔ فیری کایہ سفر
ڈیڑھ سے دو گھنٹے کا ہوتا ہے۔ فیری کا متبادل رستہ ایک معروف TUNNAL .
ہے۔جس کے زریعہ آپ اپنی گاڑی میں چالیس منٹ میں سمندر ی سفر طے کر لیتے
ہیں۔ لندن سے فرانکفرٹ کا مجموعی سفر آپ دس سے بارہ گھنٹے میں طے کرلیتے
ہیں۔
خاکسار ، میری اہلیہ محترمہ ،عزیزم تصور خورشید اور اور عزیزم محمد احمد
خورشید مع فیملی بذریعہ ہوائی جہاز فرانکفرٹ پہنچے۔ فضائی سفر تقریباً ڈیڑھ
گھنٹہ کا ہے ۔لیکن ایئر پورٹ قبل از وقت جانے اور دیگر امور کو ملا کر چار
پانچ گھنٹے لگ ہی جاتے ہیں۔
برادرم داؤد احمدقمر صاحب استقبال کے لئے ائر پورٹ پر پہلے سے موجود
تھے۔ان کے ہمراہ مائنز پہنچے اور حسب پروگرام ان کی خوشی ومسرت میں شریک
ہوئے۔
اگلے روز باجوہ شادی ہال میں دعوت ولیمہ کاا نتظام تھا۔چار سو کے قریب
مہمان تشریف لائے ہوئے تھے۔
یہ ساری تقریب بہت باوقار اور سادگی کا مرقع تھی۔ غیر اسلامی رسم ورواج سے
مبرا تھی۔
بعض ایسی باتیں جو ہمارےخاندان کے لئے باعث رحمت و برکت ہیں۔
v ہمارے ہاں شادی کے موقعہ پرجہیز کا کوئی رواج نہیں ہے۔ہاں اگر والدین کو
استطاعت ہوتو اپنی بیٹی کو جب چاہیں ،جو چاہیں دیں۔بیٹی کا اصل حق اس کی
تعلیم وتربیت ہے۔اور بیٹی کو باقاعدہ اسلامی تعلیم کی روشنی میں اس حقِ
ورثہ ادا کرنا چاہیے۔
v ہمارے ہاں شادی کے موقعہ پر کسی قسم کا گانا بجانا نہیں ہوتا اور ہر قسم
کی لغویات سے اجتناب کیا جائے۔
v کوشش کی جاتی ہے کہ اس خوشی کے موقعہ پر کسی قسم کی نمود ونمائش نہ ہو
۔جس قدر سادگی ممکن ہو اختیار کی جائے۔تاکہ شادی خوشی کا باعث ہو نہ کہ کسی
اور کے لئے حسد اور دکھ کا باعث بن جائے۔
لمحہ فکریہ
v گذشتہ دنوں یوٹیوب پر ایک شادی کی وڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔جس کے بارے
میں بتایا گیا کہ اس شادی پر ایک ارب روپے خرچ کیاگیا۔میرے کئی ایک جاننے
والے احباب نے بھی یہ وڈیو دیکھی ہے۔،ان جملہ احباب کے اس شادی کے بارے میں
تاثرات کچھ خوش کن نہیں تھے۔
ہم لوگ ایسا کیوں کرتےنہیں۔
v اس کے اسباب کیا ہیں۔دراصل یہ سب کچھ ہم ظاہری نمود و نمائش اور ذاتی
اناکے لئے تو کرتے ہیں۔
v لیکن اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔کہ ایسا کرنے کے بعد آپ کو
اپنا ضمیر ملامت کرتا ہے۔
v ایسی شادیوں پر اٹھنے والے بے جا اخراجات کے کئی ایسے مثبت مصارف ہو سکتے
ہیں جن سے ہمارا مالک و خالق خدا بھی خوش ہو جائےاور دیکھنے اور سننے والے
بھی اس اقدام کی تعریف کریں ۔جس سے بھی آپ کو خوشی ملے گی۔
v بہت سےلوگوں کے لئے آپ کا عمل ایک خوبصور ت نمونہ اورقابل تقلید مثال
بنےگا۔
v ان لمبی چوڑی رقوم سے ہزارہا ایسی بچیوں کے ہاتھ پیلے ہو سکتے تھے جو
جہیز نہ ہونے کے سبب آج تک بابل کی دہلیز پار نہیں کرسکیں۔
v کئی ایک چھوٹے چھوٹے کلینک اور رفاہی ادارے وجود میں آسکتے تھے جو بے
شمارہمارے بہن بھائی جو بسر حیات کے لئَ بنیادی سہولتوں تک سے محروم ہیں۔ان
کی داد رسی ہوسکتی تھی۔
v ہمارے بد قسمت معاشرہ میں بہت ساری معصوم جانیں جو شدت پسندی کے ظالم
عفریت کے ظلم وستم کا نشانہ بن کر بے شمار لواحقین کو بے یار ومدد گار چھوڑ
جاتےہیں ۔ان کی مدد کریں۔
v بیوہ خواتین اور بے آسرہ مظلوم بچوں کے لئے سہارا بنیں۔ ان کے سروں پر
دست شفقت رکھ سکتے ہیں۔ان کی زندگیوں میں خوشی کے رنگ بھر سکتے ہیں۔
v ہمارے معاشرہ میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں اس قسم کے ناواجب اقدام
اس لئے اٹھائےجاتے ہیں۔جو بہت لوگوں کو خوشی اور مسرت دینے کی بجائے ان کے
دلوں میں احساس محرومی ، حسد اور بغض کی فصل کاشت کردیتے ہیں۔جس کی وجہ سے
معاشرہ میں بہت سی برائیاں اور جرم جنم لیتے ہیں۔
v یہ سب کچھ ایک منفی سوچ کی وجہ سے ہوتا ہے۔کہ لوگ کیا کہیں گے۔یا د رکھیں
آپ جو بھی کریں۔جو لوگ ایسے مواقع پر بظاہر تعریفی کلمات اور واہ واہ کے
نغمات الاپ رہے ہوتے ہیں۔کاش ان کے دلوں کی کیفیت آپ پر عیاں ہو جائے۔
v آپ کے منفی رویہ اور سوچ کے نتیجہ میں محروم اور ظلم وستم کی چکی میں پسے
ہوئے طبقہ کو ،جو اپنی کم مائیگی اور بے بسی کے نشتر لگ رہے ہوتے ہیں۔ وہ
آپ پرآشکار ہوجائیں ۔تو شاید آپ اپنی عارضی خوشی کو حقیقی خوشی میں بدل
سکتے ہیں۔
v ایسے موقعہ پر جب ایک آدمی نے یہ کہا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے۔تو اسے ایک
دانا نے یہی کہا تھا جو مرضی کر لو۔ لوگ ہر کسی کے مرنے پر اس کےبارے میں
انا للہ وانا الیہ راجعون ہی کہتےہیں۔
کاش کہ تیرے دل میں اترجائے میری بات
v چھوٹی بات بڑی خوشی
v اس سفر جرمنی کے دوران مکرم آفتاب احمد ،طاہر احمد اوردیگر سب عزیزان نے
بڑی ہی محبت اور دلنوازی کا سلوک کیا۔ ایک خوبصورت مثال پیش خدمت ہے۔
v ایک دن میں اپنے کمرہ میں چارپائی پر دراز تھا۔ شاید میرے چہرہ پرتھکاوٹ
اور کمزوری عیاں تھی۔میرے ایک بھانجے عزیزم سدید احمد آئے اور کہنے لگے
ماموں میں آپ کو دبا دوں۔میں نے کہا نہیں ۔تھوڑی دیر کے بعد میرا بھتیجا
سلمان احمد قمر آگیا ۔اس نے بھی یہی درخواست کی۔اس کے بعد میرا بھتیجا
دانیال آگیا اس نے بھی اس خواہش کاا ظہار کیا،اس کے بعد میرے بیٹے محمد
احمد نے آکر دبانا شروع کردیا ۔بعد ازاں میرے برادر اصغر داؤد قمر جن کی
عمر پچپن سال کے قریب آئے اور اپنے شہر میں ایک صاحب وقار شخصیت ہیں۔انہوں
نے بھی دبانے کے لئے درخواست کی۔اسی طرح عزیزی فخر احمد اور اوصاف احمد
نےبھی شب وروز سائے کی طرح میر ا ساتھ دیا۔میرے دل ودماغ میں ان سب عزیزوں
کےمحبت ،پیار اور احترام نے جو تصویر نقش کی ۔کون ہے جو اسے محو کرسکے۔یہ
ہےحقیقی خوشی اور مسرت۔جس کی وجہ سے آپ کے دست بارگاہ الہی میں از خود ہی
بلند ہو جاتے ہیں۔کہ اللہ کریم تم نے مجھ جیسے ناچیز کو اس قدر پیارے رشتوں
سےنوازا ہے جو تیرے فضل وکرم سے اس مادہ پرست دور میں بھی بزرگوں کے ساتھ
محبت، ادب اور احترام اور اخلاق عالیہ کی دولت سے مزین ہیں۔
v اس وقت میں برٹش ایئرز کے طیارہ میں فرانکفرٹ سے لندن کی جانب محو
پروازہوں۔دوران سفر چونکہ ایک بوریت کا عالم ہوتا ہے۔اس لئے سوچا کہ کچھ
کرنا چاہیے۔میں نےاپنا لیپ ٹاپ لیا اور پھرٹوٹے پھوٹے الفاظ میں یہ مختصر
سا مضمون قلم بند کردیا ۔جس کی وجہ سے وقت کے گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوا۔
اور اس کے زریعہ سے ایک محبت کا پیغام دینے کی بھی ایک کوشش کی ہے۔ طیارہ
اب مطار پر اترنے کی تیاری میں ہے۔امید ہے دس پندہ منٹ تک ائرپورٹ پر ہوں
گے۔
v آخر میں میں جملہ عزیزان کا تہ دل سے ممنون احسان ہوں جنہوں نے کمال محبت
اور شفقت سے میرا خیال رکھا۔میں بہت ساری خوشگوار یادیں سمیٹے واپس جارہا
ہوں۔اللہ تعالی سب کو خوش و خرم رکھے اور اپنے افضال اور رحمت کا دائمی
سایہ عطا فرمائے۔آمین
آپ سب کی دعاؤں کا محتاج ۔۔۔منور احمد خورشید |