میرافسر امان عجیب سا نام ہے، ہر جگہ میر مجلس بن جاتا
ہے، افسری بھی بھی کہیں نہ کہیں جھلک جاتی ہے، اور امان اور شانتی تو اس پر
حرف آخر ہے، محبت سے رسان سے نرمی سے اس کی باتیں دل کو چھولیتی ہیں۔ بابا
جی ہاں یہ نام بھی ان پر سجتا ہے۔ بابا جی سے پہلی ملاقات ہماری ویب رائیٹر
کی ایک میٹنگ میں ہوئی، ہر بار ملاقات میں ان کی شخصیت کا جادو کچھ اور اثر
کرتا۔ پھر ہماری ویب رائٹرر کلب بن گیا اور باباجی ہماری نائب صدر بابا جی
نے کالم لکھنا شروع کیا، بیماری اور گونا گوں مسائل کے باوجود بابا جی نے
موبائیل فون اور کمپیوٹر کو اپنا بستروال بنالیا،ایک کمرہ جو کتابوں اخبار
سے پھرا ہے، اس میں بیھٹے دن بھر دو انگلیوں سے ٹائپ کرتے رہیتے ہیں، ٹی
چینل پر آنے والی بریکنگ نیوز کو کیچ کرتے ہیں اور کوئی کیچ چھوڑتے ہی نہیں
،اگلے ہی دن اس پر ایسا کالم کو بیٹ گھماتے ہیں کہ کئی پنا سر سہلاتے رہ
جاتے ہیں۔ کیسا ہی تیکھا موضوع ہو، مجال ہے یہ اس پر اپنا بیٹ میرا مطلب
کالم سے ہے، نہ آزمائیں، اپنے مخالفین کو جی بھر کر لتاڑتے ہیں، لکھتے میں
کوئی آسرا نہیں کرتے، جماعت اسلامی کے شیدائی اور اس کے بارے میں ڈٹ کر
لکھتے ہیں ، کوئی چھاپے یا نہ چھاپے انھیں اس کا کوئی غم بھی نہیں ہے اور
نہ اس کی فکر بھی ہے، ملک بھر کے سو ڈیڑھ سو اخبارات کو روزانہ اپنا کالم
بھیج دیتے ہیں، جو کہیں نہ کہیں چھپ ہی جاتا ہے۔ ہماری ویب بھی ان کے
کالموں کی دستائی ہوئی ہے۔ اس مشین کے دوزخی پیٹ کو میر افسر امان کے کالم
ہی بھرتے ہیں۔ کئی کالم پجاس ساٹھ اخبارات میں شائع ہوجاتے ہیں۔اور کئی کی
مار ہندوستان کے اخبارات تک بھی جاتی ہے۔بابا جی بیماریوں کی پوٹ بھی رہے،
لیکن لوٹ پوٹ کر پھر سے جوان ہوجاتے ہیں، کہتے ہیں کہ جوں جوں عمر بڑھ رہی
ہے ، جوانی زور کررہی ہے۔ دوستوں کے دوست ہیں، اسلام سے وابستگی ایسی کہ اب
اسلام آباد کو اپنا مستقل گھربناکر کراچی کو داغ مفارقت دے رہے ہیں۔ کہتے
ہیں کہ اسلام کا نام تو اسلام اباد میں شامل اب میرے جانے سے شائد وہاں
اسلام کو بول بالا ہوجائے۔کل دوستوں نے ان کے اعزاز میں ایک محفل سجائی،
رئیس صمدانی صدر نشین تھے۔ خوب باتیں ہوئیں، محمد اعظم عظیم اعظم ، ثنا
غوری، شبیر ارمان، خالد بن زاہد، ابراہیم خان، مصدق صاحب، فرازصاحب نے
ابرار احمد اور ہماری ویب کی نمائندگی کی۔ یوں یہ محفل دیر تک جاری رہی- |