یہ نصف صدی کا قصہ ہے اور نہ ہی بہت پرانی بات ہے، چندبرس
پہلے کی یاد تازہ کرتے ہیں کہ پی پی پی کی سابق حکومت میں پنجاب حکومت میں
آج کی طرح جب بھی میاں شہباز شریف ہی بطور وزیر اعلیٰ باالفاظ ِدیگرخادم
اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے مسند سرکار پر براجمان تھے ۔ انہیں اچانک صوبے میں
جاری بجلی کی لوڈشیڈنگ کا درد اٹھا اور اس قدر تکلیف اور کرب محسوس کیا کہ
منٹو پارک میں احتجاجاً کیمپ آفس بناکر بیٹھ گئے ، ہاتھ کا پنکھا لئے کار
سرکار کے فرائض انجام بھی دیتے رہے اور ذرداری صاحب کے خلاف زہر اگلتے ان
کی بیڈگورننس پر انگلیاں اٹھاتے رہتے ۔ ان کا موقف تھا کہ پنجاب کے ساتھ پی
پی پی کی حکومت سوتیلی ماں جیسا رویہ رکھے ہوئے ہے ، ملک کے سب بڑے صوبے
میں اس وجہ سے لوڈشیدنگ کی جارہی ہے کیونکہ یہاں مخالف جماعت کی حکومت قائم
ہے جبکہ دیگر صوبوں میں یہاں کی نسبت صورتحال تسلی بخش ہے۔ حالانکہ صورتحال
اس کے برعکس تھی ، سیاسی سطح پر پوائنٹ اسکورننگ کیلئے یہ حربہ کار گر تھا
۔ انہوں بڑی آبادی والے صوبے کے باسیوں کو پیپلز پارٹی کے خلاف اکسایا اور
اختیارات کی کمی کا بھی گریہ کیا ۔ عوام نے اس پر ان کا ساتھ دیا اور ن لیگ
کی مکمل حمایت کی یقین دھانی کراوادی ، صرف اس لئے کہ ن لیگ کی وفاقی سطح
پر حکومت کے قیام کے بعد پنجاب میں بجلی سمیت دیگر عوامی مسائل کا ہوجائے
گا ۔ 2013ء کے عام انتخابات کیلئے انتخابی مہم میں شہباز شریف نے عوام سے
ملک بھر سے منتخب ہونے کی شرط پر تین سے چھ ماہ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے
مکمل خاتمے کا اعلان کیا، نواز شریف نے بھی اسی شرط پر عوام سے ایفائے عہد
کا وعدہ کردیا البتہ عوام سے کامیاب کرانے کا وعدہ بھی لے لیا۔ 2013ء کے
عام انتخابات میں عوام نے اپنا وعدہ سچ ثابت کردکھایا ، ن لیگ نے پورے
پنجاب میں قومی اورصوبائی اسمبلی کیلئے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں ۔ وفاق
سمیت پنجاب میں ن لیگ نے حکومت بنالی ۔ اب عوام کی نظریں اپنے منتخب وزیر
اعظم اور خادم اعلیٰ پر تھیں ، عوم نے اپنا وعدہ پورا کردیا تھا اب وہ ان
سے وعدہ نبھانے کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے ۔ وزیراعظم نے اپنے پہلے عوامی
خطاب میں ان کی تمام تر امیدوں پر پانی پھیر ڈالا ، وہ اپنے وعدہ سے نہیں
پھرے بلکہ انہیں ملک میں بکھرے دیگر مسائل میں الجھادیا ۔ انہوں نے کہا کہ
بجلی کی لوڈشیڈنگ سے بڑھ کر اور بھی مسائل موجود ہیں جن کے حل کے بغیر کوئی
کام ممکن نہیں ، یعنی اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔بجلی کا بحران
ختم کرنے کیلئے دو سے تیں کا عرصہ در کار ہو گا ، نئے منصوبوں کا آغاز ہونا
ناگزیر ہے ، عوام سے صبر کرنے کی تلقین کی گئی ، صابر قوم نے اپنے محبوب
لیڈر کی بات مان لی ۔وزیر اعظم نے کہ دیا کہ پہلے پہل ان مسائل سے چٹھکارا
پانے کے اقدامات کئے جائیں گے پھر اس ضمنی مسئلے پر سوچ بچار کیا جائے گا۔
انہوں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی لعنت سے قوم کو نجات دلانے کیلئے
اقدامات کرنے شروع کئے ۔ کامیابی حاصل ہوئی ، اس میں مزید تیزی بھی لائی
گئی ۔ عوام کی حمایت نے ان کی حوصلہ افزائی کی ۔نواز شریف اس غلط فہمی میں
آگئے کہ اب عوام ان سے اصل مطالبہ کرنا بھول جائیں گے ، ایسا نہیں ہوا موسم
سرما میں پنجاب کے لوگ صبر کرتے رہے لیکن قہر کی گرمی نے ان کا پیمانہ بھر
ڈالا وہ بجلی کی عدم فراہمی پر حکومتی اقدامات کا مطالبہ کرنے لگے ۔ حکومت
کومجبوراً اس جانب توجہ دیناپڑی ۔ وفاقی وزیر خواجہ آصف نے ڈیموں میں پانی
کی کمی کو معاملہ اٹھادیا ، عوام سے بارش کی دعاؤں کی اپیل کرڈالی تاکہ
عوام اپنا مطالبہ نہ دھرادیں ۔ یہ نفسیاتی حربہ تھا ، کارگر ثابت ہوگیا ۔
بارش ہوئی اور بہت زوروں کی ہوئی ، دریا ؤں میں اتنا پانی بھر گیا کہ
سنبھالا نہ گیا ، سیلاب نے آن دھرا۔ ملک میں سیلابی ایمر جنسی نافذ ہوگئی۔
نئی صورتحال نے عوام کو متاثر اور حکومت کو پہلو تہی کا موقع فراہم کردیا ۔وقت
ایک سا کبھی نہیں رہتا ، سیلاب کی مشکل گھڑی ٹل گئی لیکن بجلی کی کم یابی
اب بھی برقرار رہی ۔ اچانک سے نندی پاور پرجیکٹ کے عملے کو نوازنے کا سلسلہ
شروع کر دیا گیا، اس پروجیکٹ کو قوم کی امنگوں کا آئینہ دار قرار دے دیا
گیا، عوام کی امید بھر آئی ، پھر امیدوں پر پانی پھر گیا ، پروجیکٹ کی
ناکامی نے ثابت کردیا کہ حکومت کے اقدامات ناپائیدار تھے ،کنارے پر پہنچے
سے قبل ہی کشتی ڈوب گئی ۔خیبر پختون خواہ کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے وفاق
سے اپنے صوبے میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کا مسئلہ بلکل اسی طرح اٹھایا جس
طرح پچھلے دور میں شہباز شریف نے زرداری حکومت پر عدم اعتما دکا اظہار کرتے
ہوئے اٹھایا تھا ۔ کے پی کے میں مخالفین کی حکومت تھی لہٰذا اسے مخالفین کا
سیاسی حربہ سمجھ کر صرف نظر کیا گیا، لیکن یہ معاملہ تو ملک بھر کا تھا ،
کب تک دبا رہتا ، پورا ملک سراپا احتجاج ہو گیا۔ وزیر اعظم کو ان کا وعدہ
یا د دلانے کیلئے عوام نے سڑکوں پر آنے کی دھمکی دی تو وزیر اعظم جو کبھی
دھرنوں اور کبھی پاناما لیکس میں گھرے ہوئے تھے ، عوام کا درد محسوس کرنے
لگے ۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی بھی بیدار ہوگئے ، پتا چلا کہ میاں نواز کی
پوری کابینہ اس مسئلہ کے حل میں ابتدا ہی سے سر جوڑے بیٹھی تھی ، اب مسئلے
کا حل نکل آیا ہے ۔ وزیراعظم کے دفاع میں کہا گیا وہ وعدے کے سچے ہیں ، قوم
کو اندھیروں سے نکال کر ہی دم لیں گے ۔ نئے منصوبوں کا دھڑا دھڑا افتتاح
ہونا اسی بات کی طرف اشارہ ہے ۔ ناامید ی کے سائے چھٹنے والے ہیں ۔ چین نے
دوستی کا ہاتھ اور مضبوط کرلیا ، سرمایہ کاری کے لئے آگے بڑھا تاکہ حکومت
کو ایفائے عہد میں پریشانی نہ ہو۔ منصوبوں کا افتتاح ان کی تکمیل نہیں ہوتا
، ابھی عشق امتحاں اور بھی باقی ہیں لیکن ہمارے وزیراعظم کا دل اور حوصلے
جواں ہیں ، وہ شیر ہیں اور جب شیر کچھار سے باہر آتے ہیں تو ہر طرف ہو کا
عالم ہوتا ہے ، وہ اپنے راج میں انڈے دے یا بچے فائدہ ہر حال میں قوم ہی کو
ہوتا ہے ۔قوم سے کیا ہوا وعدہ ان کا اولین منشور تھا ، ہے اور رہے گا، یہی
وجہ ہے کہ وہ چین سے نہیں بیٹھ رہے ، ادھر ان کے سر پر 2018ء کے الیکشن کے
قریب آنے دباؤ ہے مگر وہ بہت عرصہ سے جھوٹوں کو جھوٹا ثابت اور قوم پر سچ
کے غلبہ کا پرچار کرتے آہے ہیں وہ کیونکر اپنا وعدہ سچا ثابت نہیں کریں گے
، قوم کے سامنے سرخرو کیوں نہیں ہونگے ، 2014ء میں مخالفین بے دھرنا دیکر
بے وجہ ملک کو ترقی کے راستے سے ہٹایا اور اب بلاجواز کرپشن کے الازمات لگا
کر ملک کے لیڈر کو ناحق پریشان کیا ۔ لوگوں کا خیال غلط ہے وہ صرف پنجاب ہی
کو ترجیح دیتے ہیں ، آپ کے پی کے میں ن لیگ کے منصوبوں کے آغاز ، بلوچستان
میں سی پیک سمیت کئی ترقیاتی اقدامات اور پھر سندھ میں جہاں ن لیگ کا کوئی
خاص نام لیوا ہے اور نہ کوئی قابل ذکر وجود وہ وہاں بھی عوام کی بھلائی کے
لئے آئے چلے جاتے ہیں ۔ جیکب آبا د میں اس سال خواجہ آصف کے مطابق گرمی کی
شدت دیگر برسوں کی نسبت زیادہ پڑی ہے اس وجہ سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا
دورانیہ بڑھ گیا ورنہ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ وزیر اعظم کا ظرف دیکھئے اس قدر
شدید گرمی میں بھی جیکب آباد کی عوام کے درمیان موجود 100کروڑ کے پیکج کا
اعلان کردیا ۔ یہ ہوتی عوام سے محبت ، کیا سندھ کی صوبائی حکومت نے کبھی
اپنے لوگوں کا اس قدر خیال کیا ہوگا ، ان کے متعلق سوچا ہوگا ، قطعی نہیں !
یہی نہیں وہ اٹھتے بیٹھتے ، سوچے جاگتے ، ملک میں ہو ں یا ملک سے باہر ،
عوامی اجتماع میں ہوں یا وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ، ہر جگہ ، ہر وقت قوم
کو اندھیروں سے نکالنے کا خواب انہیں ستاتا رہتا ہے ، وہ اسے حقیقت بنانا
چاہتے ہیں ، وعدہ سچ کردکھانا چاہتے ہیں ،آخر سچ کا بھرم تو رکھنا ہے ۔ وہ
جاری تمام تر منصوبوں کو جلد سے جلد تکمیل کرنے کی ہدایات جاری کرچکے ہیں ۔
وہ 2018ء میں جب رخصت ہوں تو وہ چاہتے ہیں کہ ملک کے چاروں طرف اجالا ہو ،
روشنی ہو ۔ اندھیرے کا دور دور تک نام ونشان نہ ہو۔ کئی منچلے کہتے ہیں کہ
نواز شریف جب ایوان وزیراعظم سے رخصت ہونگے اس دن بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں
ہوگی البتہ نگراں حکومت کے آتے ہی ملک میں ایسی تاریکی ہوگی جو اس قبل قوم
نے کبھی نہیں دیکھی ہوگی ۔ ایساہونا یقینا نہ ممکن ہے لیکن ہوا بھی تو
نگرانوں کی غیرذمہ داری ہوگی ۔ غالباً اس کا خمیازہ عام انتخابات میں ن لیگ
کو بھگتنا پڑے ۔ |