کشمیر میں آج1990سے بھی زیادہ سنگین حالات ہیں۔بھارتی
فورسز نے نہتے اور معصوم عوام کا قتل عام، پے در پے گرفتاریاں، چھاپے،
تشددمیں اضافہ کر دیا ہے۔بھارتی فوجی سر عام لوگوں کے گھروں مین گھس کر توڑ
پھوڑ کر رہے ہیں۔ مکانوں کی کھڑکیاں شیشیے توڑ رہے ہیں۔ گھروں پر اور
مظاہرین پر پیلٹ، پاوا، مرچی گیسیسں، زہریلے ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔
نوجوانوں کو پکڑ کر چوراہوں پر ان پر تشدد کر رہے ہیں۔تعلیمی اداروں میں
گھس کر طلباء وطالبات پر ڈنڈے برساتے ہیں اور شیلنگ کرتے ہیں۔بھارتی فورسز
کشمیریوں کے خلاف تمام وحشیانہ حربے آزما رہے ہیں۔بھارتی پارلیمنٹ کی
سرینگر نشست کے ضمنی الیکشن میں لوگوں نے 2فیصد یا بعض علاقوں میں 5فی صد
ووٹ ڈالے۔ زیادہ تر پولنگ بوتھ ویران رہے۔ سرینگر نشست تین اضلاع سرینگر،
بڈگام اور گاندربل پر مشتمل ہے۔عوام نے پہلی بار مکمل بائیکاٹ کر کے بھارت
کے حوش اڑا دیئے۔ اب کشمیریوں سے انتقام لیا جا رہا ہے۔ بھارتی پالیسی ساز
حقائق کا سامنا کرنے سے خوف زدہ ہیں۔ اس وجہ سے کشمیریوں کے جذبات روز
افزوں مشتعل ہو رہے ہیں۔ بھارت کی نسل کشی پالیسیہی اس کی بڑی وجوہات
ہیں۔1990میں بھارت نے اپنے آئین کی دفعہ 356کی آڑ لے کرکشمیر میں صدر راج
نافذ کیا تو پارلیمنٹ نے’’ آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ ‘‘نامی کالا قانون
منظور کیا جوایک سپاہی کو جنرل کے اختیارات دینے اور ماورائے عدالت ہلاکتوں
کا باعث بنا۔اس کی شق 4کے تحت ایک بھارتی فوجی کسی بھی کشمیری کو شک کی
بنیاد پرجب چاہے گولی مار کر شہید کرسکتا ہے۔گزشتہ 30سال سے کشمیریوں کی
نسل کشی جاری ہے۔وادی کشمیرمیں مزید گمنام اور اجتماعی قبریں دریافت ہورہی
ہیں۔جن میں دفن کشمیریوں کو بھارتی فوجیوں نے فرضی جھڑپوں میں شہید کر کے
دہشت گرد اور درانداز قرار دیا تھا۔جنگ بندی لائن پر بھی مزیددرجنوں گمنام
اجتماعی قبروں کا پتہ چل رہاہے۔جبکہ بھارتی فوجیوں کی حراست میں گمشدہ
کشمیریوں کی تعداد15ہزار سے زیادہ ہے۔ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس قت
مقبوضہ وادی میں یتیم بچوں کی تعداد دو لاکھ ہے ۔ چالیس ہزار بیوائیں
ہیں۔ان میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔
کشمیر میں بھارت کے خلاف نفرت کا اظہار کرنے کے پاداش میں نوجوانوں کی ذبان
بند ی کی گئی ہے۔ لاتعداد کم سن بچے انٹروگیشن مراکز اور جیلوں میں ہیں۔
ایک ایسا ملک جو جمہوریت کا دعویدار ہے۔ وہاں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک
روا رکھنے کی ایک مثال یہ ہے کہ کشمیر میں پورے بھارت سے لاکھوں ہندو یاتری
امرناتھ کے درشن کے لئے پہنچتے ہیں۔ان کو حکومت کی طرف سے مکمل سکیورٹی اور
سہولیات فراہم کی جاتی ہے۔اس کے برعکس وادی کشمیر میں لوگوں کو پرامن جلوس
نکالنے اور اجتماع کی اجازت نہیں۔سید علی شاہ گیلانی سمیت متعدد حریت رہنما
مسلسل گھروں میں نظر بند ہیں۔مسلمانوں کے خلاف کرفیو اور دفعہ 144کا ہی
سہارا نہیں لیا جاتا بلکہ ان پرمشین گنوں اور بندوقوں، پیلٹ اور پاوا
بندوقوں کے دھانے کھول دینا معمول بن چکا ہے۔پر امن اور نہتے لوگوں کو
گرفتار کر کے کال کوٹھریوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔بھارت کی جیلوں اور
انٹروگیشن سنٹرز میں ہزاروں کشمیری سڑ رہے ہیں۔افسپا،ٹاڈا اور پبلک سیفٹی
ایکٹ جیسے کالے قوانین کے تحت کشمیریوں کو سالہاسال تک بغیر کسی ٹرائل کے
قید میں رکھا جا رہا ہے۔
پاک بھارت مذاکرات کے دوران بھی اور ڈیڈ لاک کے عرصہ میں بھی بھارت کی
ریاستی دہشت گردی کا نشانہ کشمیری بنتے ہیں۔ ان پر بھارتی فورسز مظالم
تیزہو جاتے ہیں۔گو کہ کشمیریوں کو پاکستان سے دور کرنے کی پالیسی بھارت کی
پہلی ترجیح ہے۔بات چیت اور ان نام نہاد مذاکرات کا کشمیریوں کو کوئی فائدہ
نہیں ہوتا بلکہ جس وقت اسلام آباد میں بھارتی حکمرانوں کا ریڈ کارپٹ
استقبال ہوتا ہے اور گارڈ آف آنر پیش کیا جا تا ہے، عین اس وقت بھارتی فوجی
اندھا دھند فائرنگ کر کے کشمیریوں کو شہید اور معذور کررہے ہوتے ہیں۔بھارت
کا ماضی گواہ ہے کہ اس نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات،اعتماد سازی ،دوستی
اور تجارت کے آڑ میں کشمیریوں کا قتل عام کیا۔پاکستان کو اگر چہ اندرونی
اور خارجہ مسائل کا سامناہے۔ مگر پاکستان کے لئے سب سے زیادہ خطرہ بھارت کی
جانب سے ہے۔ اس کے جاسوس افغانستان مین سرگرم ہیں۔ ایران سے بھی یہ پاکستان
میں آزادی سے داخل ہو جاتے ہیں۔کلبھوشن یادو کی مثال ہمارے سامنے ہے۔بھارت
اس خطے کے ام و سلامتی کے لئے بڑا خطرہ بن رہا ہے۔ اس کا نشانہ سی پیک بھی
ہے۔ سی پیک کی روٹ بھارتی فائرنگ اور گولہ باری کی زد میں ہے۔ جب کہ اس
علاقے مین بھارت کا جبری قبضہ ہے۔ بھارتی قبضے کو ختم کرنے اور سی پیک کی
کامیبای کے لئے پاکستان کو بھارتی قبضے کے خلاف بیک وقت سیاسی، سفارتی،
معاشی اور عسکری محازوں پر کام کرنا ہو گا۔ امور کشمیر کی وزارت اور کشمیر
کمیٹیکا کردار اہم ہے۔ایک ایسا مسلہ جو ڈیڑھ کروڑ افراد کے لئے زندگی اور
موت کا مسلہ ہے اس سے عدم دلچسپی،لاپرواہی اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ہر گز
نہیں کیا جا سکتا۔ جو ملک و قوم کے مفادات کے بالکل منافی بلکہ ملک دشمنی
ہو گی۔بھارت کو کشمیری نہیں، کشمیر کی سر زمین سے مطلب ہے ۔یہی وجہ ہے کہ
وہ کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔باوجود اس کے کہ پاکستان کو بے شمار
اندرونی و بیرونی مشکلات و چیلنجز کا سامنا ہے لیکن اس کی بقا اور سلامتی
کا دارو مدار کشمیر کی آزادی پر ہے۔حکومت کواپنی کشمیر پالیسی پر از سر نو
غور کرنا چاہئیے۔بھارت کی ریاستی دہشگردی اور قتل عام پالیسی کیخلاف
جارحانہ سفارتی مہم تیز کی جائے۔ موثر انداز میں کشمیریوں کے قتل عام کو
بند کرانے اور مسلے کے حل کیلئے ریفرنڈم کا مطالبہ کیا جانا چاہئیے۔جب کہ
بھارت کے کشمیریوں کو تقسیم کرنے ،ان کی صفوں میں انتشار پیدا کرنے،انہیں
پاکستان سے بد ظن کرنے ،قتل عام اور تشدد سے ان کی آواز کے دبانے، دنیا کو
گمراہ کرنے اورمسلہ کشمیر کو التواء میں ڈالنے کے روایتی حربے کشمیری عوام
نے عظیم قربانیوں سے ناکام بنا دیئے ہیں۔ |