عمران خان ایڑی چوٹی کا زور وزیر اعظم پاکستان جناب
نواز شریف شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کے لئے تین مرتبہ لگایا ۔ایک ناکام
سوا سو سے زیادہ دنوں کے دھرنے کی شکل میں دوسرے الیکشن کمیشن میں دھاندھلی
کیس میں نا کام ہونے ،تیسرے پاناما میں کیس میں پی ٹی آئی،جماعتِ اسلامی
اور شیدا مسلم لیگ، تین جماعتوں کی عدالتوں میں رسوائی پر۔مگر عمران خان
ایسا بے صبرا اور ہٹی رہنما دنیا کی سیاست میں کم ہی دیکھنے کو ملے گا۔مسلم
لیگ کے لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان کا وزیر اعظم بننے اور شیروانی پہننے کا
خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔مگر ہم کہتے ہیں کہ خواب دیکھنے کا حق تو سب ہی
کو ہے۔اگر عملی نہ صحیح خواب میں ہی کوئی وزیر اعظم بن جاتا ہے۔ تو اس میں
کسی کا کیا جاتا ہے؟دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر خدا نا خواستہ ایسا ضدی
آدمی وزیر اعظم بن جاتا ہے تو ملک و قوم کا کیا بنے گا ۔جو مخالفین کو تو
کم از کم زندہ نہیں رہنے دے گا۔
پاناما کیس میں سبکی کے باوجود پی ٹی آئی کے جشن پرجگر کا یہ مصرعہ ذہن میں
بار بار گردش کر رہا ہے’’تجھے اے جگر مبارک یہ ،یہ شکستِ فاتحانہ‘‘سمجھ
بوجھ رکھنے والے کہتے ہیں کہ فیصلے ہمیشہ مضبوط دلائل کی بنیاد پر سامنے
آتے ہیں۔جہاں مضبوط دلائل نہ ہوں اُس فیصلے کو کہیں بھی پزیرئی نہیں ملتی
ہے۔ اکثریتی فیصلے کے بر عکس دو محتر م جسٹس صاحبان ، جسٹس آصف سعید کھوسہ
اور جسٹس گلزر احمد نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ وزیرِ ا عظم صا دق اور
امین نہیں رہے، الیکشن کمیشن ان کی نا اہلی کا نوٹیفکیشن جاری کرے۔ اس ضمن
میں سابق صدر سُپریم کورٹ بار عاصمہ جہانگیر جو ایک مشہور قانون دان کی
حیثیت سے جانی جاتی ہیں کہتی ہیں کہ ’’عدالتی فیصلہ اخلاقیات نہیں، قانون
کی بنیاد پر ہے۔بارِثبوت اگر شریف خاندان پر مان لیا جائے تو تین ججوں کا
فیصلہ درست نہیں ہے۔اس نقطہ نظر سے تینوں ججوں کو ثبوت پیش نہ کرنے پر نواز
شریف کو سزا دینی چاہئے تھی۔انہوں نے انہیں چھوٹ کیوں دی؟ عاصمہ جہانگیر نے
یہ بھی کہا کہ گاڈ فادر کے ساتھ مشابہت (جس میں کہا گیا تھا کہ ’’دولت کے
ہر بڑے ذخیرے کے پیچھے جرم کی ایک داستان چھپی ہوتی ہے‘‘) دینے سے پہلے سے
رائے قائم نظر آتی ہے۔ججوں کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔جج اپنا فیصلہ کرتے
ہیں۔ مگراپنی رائے اتنی ابھار کر بیان کرنا کسی جج کو زیب نہیں دیتا ہے۔ان
کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالت کہتی ہے کسی نے دائرہ اختیار کا معاملہ نہیں
اٹھایاحالانکہ اپنے دائرہ اختیار کو دیکھنا عدالت کا کام ہے۔
اپنے حق میں عدالتی فیصلہ آجانے کے بعد مسلم لیگ ن کے کیمپوں میں گھی کے
چراغ جلائے جا رہے ہیں۔فیصلہ آنے پر وزیر اعظم نواز شریف ربِ کائنات کی بار
گاہ میں جھُک گئے اور اپنے رب کے حضور شکرانے کے نفل ادا کئے اور اپنی
والدہ کو بھی فیصلے سے آگاہ کیا۔ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے اپنے لیڈر
کو مبارک باد دیتے ہوئے گلے سے لگا لیا۔مریم اورنگ یب کہتی ہیں کہ فیصلہ
مخالفین کی شکست ہے۔جھوٹے الزم لگانے والے شرمندہ ہوئے طلا ل چوہدری کہتے
ہیں جھوٹ کا منہ کالاکا ۔خواجہ آصف کاکہنا تھا کہ مسلم لیگ ہر قسم کی
تحقیقات کے لئے تیا ہے۔اس ضمن میں احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ہمارے خلاف
سازش ناکام ہو گئی ہے۔سعد رفیق کہتے ہیں کہ عمران خان رونا بند کریں۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے کیمپ کی جانب سے عمران خان کہتے ہیں کہ فیصلہ تو
قبول ہے مگر 60دنوں کے بعد جشن منائیں گے۔ پیپلز پارٹی کے کو چئیر مین آصف
علی زرداری نے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 9 ماہ تک عوام سے مذاق کیا
گیا۔سراج الحق کی اس سلسلے میں الگ ہی گردان ہے وہ کہتے ہیں کہ فیصلہ حکومت
کے منہ پر تھپڑ ہے۔شیخ رشید کہتے ہیں مٹھائیاں بانتنے والے شامِ گریباں
منائیں ۔مگر پتہ نہیں اُن کا اشارہ کس طرف تھا مٹھایاں تو عمران کے لوگوں
نے بھی عمران خان کے ساتھ ملکر خوب اُڑائی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ نواز شریف کے خاندان کو پاناما کیس میں کلین چٹ تو نہیں دی
گئی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے ایک جے آئی ٹی بنانے کا اعلان کر دیا
ہے۔جو جناب وزیرِ اعظم پاکستان نوازشریف، حسین نواز، حسن نوازکے اثاثاجات
کی تحقیقات کرے گی۔جے آئی ٹی میں نیب، ایف آئی اے،اسٹیٹ بینک آف پاکستان ،
ایس ای سی پی، ایم آئی ، اور آئی ایس آئی جے آئی ٹی میں شامل ہونگے۔جوہر
سات دنوں کے بعد اپنی کار کردگی کورٹ کے سامنے پیش کرنے کی پابند ہوگی۔ جس
کے تحت جے آئی ٹی اپنا تحقیقاتی کام60 دنوں میں عدالت ِعالیہ کی نگرانی میں
مکمل کر کے عدالت کے سامنے پیش کر ے گی۔
عمران خان نے مریم نواز اور ان کے شوہر پر جو الزامات لگائے تھے۔ وہ تمام
کے تمام ہوا میں تحلیل ہوگئے۔مریم نواز،کیپٹن صفدر اور اسحاق ڈار کوبھی
عدالتی فیصلے میں تقریباََ تمام ہی الزامات سے فارغ کر دیا گیا ہے۔کہا جا
رہا ہے کہ کچھ لوگوں کو پاناما کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ 20سال
اور کچھ کو 20 دن میں بھی فیصلہ یاد نہیں رہے گا۔فیصلے سے اپوزیشن مایوس
ہوئی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل کے فیصلے میں ان درخوست گذاروں یا اپوزیشن کی
جماعتوں کو جو وزیر اعظم کو ہٹانا چاہتے تھے کے لئے کئی باتیں مایوس کن
ثابت ہوئیں۔نواز شریف کے مخالفین کے لئے صرف یہ بات اطمنان کا باعث ہے کہ
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کا حکم دیدیا گیا ہے۔
اکثریتی فیصلے کے بارے میں جسٹس افضل کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کو تحقیقات سے
گذرنے دیں ،آئین توڑ مروڑ نہیں سکتے ہیں۔جبکہ اختلافی نوٹ میں جسٹس کھوسہ
نے لکھا ہے کہ وزیر اعظم سچ بتانے میں ناکام رہے۔نیب اسحاق ڈار کے خلاف
کاروائی کرے اور رحمان ملک کا تیار کیا ہوا مواد بروئے کار لایا جائے۔ جبکہ
دوسرے اختلافی نوٹ میں جسٹس گلزار نے لکھا کہ کمپنیاں اور فلیٹ در اصل نواز
شریف کے ہی ہیں۔عدالت سے محض تماشائی اور ایک بے ضررادارے کے طور پر بیٹھے
رہنے کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔ مگر اکثریت کا فیصلہ ان دونوں محترم ججز
سے مختلف ہے۔ بہر حال عدالتی فیصلہ وہ ہی ہے جوتین ججوں نے دیا ہے۔ |