20اپریل 2017کی تاریخ پاکستان کی عوام کھبی نہیں بھولے گی
۔ اس دن سپریم کورٹ میں کئی ماہ سے وزیراعظم پاکستان نواز شریف کے خلاف
پانامہ کیس درج ہونے اور چلتے رہنے کے بعد فروری کے ماہ میں 5رکنی ججز نے
فیصلہ کرنے کے بعد محفوظ کر لیا تھا اور 20اپریل کو عوام ملک کی تمام سیاسی
، سماجی اور مذہبی جماعتوں سے سمیت پوری عوام نے طویل انتظار کے بعدیہ
فیصلہ سنا اور اپنے اپنے انداز میں اس پر جذبات کا اظہار کیا ۔ حکمران
جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں نے گرم جوشی کے ساتھ دھوم ، تماشے کئے اور
مٹھائیاں وافر مقدار میں کھانے کے ساتھ تقسیم کیں تو حزب اختلاف نے مجموعی
طور پر نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کیا ۔
شہر قائد میں بھی اس فیصلے کا انتظار عوام کو شدت سے تھا تاہم فیصلہ آنے کے
بعد شہر کی زندگی اپنی ریت کے مطابق چلتی اور آگے بڑھتی رہی ۔ پانامہ کیس
کے فیصلے پر عوام سے رابطہ کر کے ان کی رائے لی گئی جس میں کہیں پر تو اس
فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا گیا اور کہیں پر شدید غم و غصے کا اظہار بھی
کیا گیا ۔ کچھ شہریوں نے تو یہاں تک کہا کہ اس ملک کا جس طرح کا عدالتی
نظام ہے اس میں ایسے فیصلے ہی متوقع ہوتے ہیں اور چند شہریوں کا کہنا یہ
تھا کہ عوام کو اس فیصلے پر غور کرتے ہوئے سمجھنا چاہئے ۔ دراصل فیصلہ تو
جو بھی آیا ہے اور فیصلہ نواز شریف کے خلاف آیا ہے اور اس بات کا احساس
ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا ۔ تاہم اب جو بھی فیصلہ آیا ہے اسے کھلے
دلوں کے ساتھ تسلیم کرلینا چاہئے جس طرح تحریک انصاف کے عمران خان ، جماعت
اسلامی کے سراج الحق اور عوامی لیگ کے شیخ رشید نے کیا ہے۔
ڈیفنس کے زاہد کشمیری کا کہنا تھا کہ پاکستان سے باہر جتنے بھی ممالک کے
سربراہوں کے نام پانامہ لیکس میں آئے تھے انہوں نے اپنے ملک کی عدالتوں کا
اس طرح سے سامنا نہیں کیا بلکہ نہایت سادگی کے ساتھ استعفی دیا اور اپنی
ذمہ داریوں سے الگ ہوگئے۔ ایسا ہی یہاں بھی ہونا چاہئے تھا ۔ ان کے ساتھ
موجود زعفران کا کہنا تھا کہ ہم لوگ اور شعبوں میں مغرب کے پیچھے چلتے ہیں
ان کی ہدایات کو مانتے ہیں لیکن اس معاملے میں ہمارے حکمرانوں نے جو رویہ
اختیار کیا اس کیلئے منافقت کے علاوہ اور کوئی لفظ مناسب نہیں ۔ انہوں نے
بتایا کہ ان کسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں لیکن دل پاکستانی ہے
اور پاکستان کیلئے اچھاسن کر دل کوخوشی ہوتی ہے اور اس طرح کے حالات و
واقعات جان کر دکھ ہوتا ہے۔ پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی میں رہائش پذیر
انجینئر منصور کا کہنا تھا کہ 5ججز کا مشترکہ موقف سامنے آتا تو زیادہ خوشی
اور سکون ہوتا اب تو یہ صاف نظر آرہا ہے کہ 2ججز نے نواز شریف کو غلط ثابت
کیا ہے اور تین نے مزید تحقیقات کا حکم دیا ہے ۔ یہ فیصلہ عوام کے سامنے
آسان الفاظ میں لے آیا گیا اور میڈیا پر یہ پیش کیا گیا کہ نواز شریف بچ
گئے جو کہ غلط انداز ترویج کے ضمرے میں آتا ہے ۔
طارق روڈ پر فیاض ماشوانی کا کہنا تھا کہ ملک کے جو حالات ہیں اس حساب سے
دیکھا جائے تو فیصلہ مناسب ہے ، البتہ ہم یہ ضرور کہیں گے اس طرح کے فیصلوں
سے ملک کیلئے آئندہ مسائل میں اضافہ ہوگا ۔ سیاسی رہنما اپنے ایسے کرتوت کو
کسی اور انداز میں کریں گے وہ رکیں گے نہیں بلکہ اس کام کو کسی اور مستند
انداز میں جاری رکھیں گے ۔ عطاء اﷲ کا کہنا تھا کہ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا
ہے ہم اسی مسلم لیگ کو اپنی پارٹی بنائے ہوئے ہیں اب تک ایک بار بھی مسلم
لیگ کو 5 سال حکومت کرنے کا موقع نہیں دیا گیا اس بار بھی حزب اختلاف والے
اسے ہٹانے کیلئے نئے انداز میں آئے لیکن جیت حق کی ہوتی ہے ۔
نعمان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ہی وہ جماعت ہے جس نے ماضی میں اسی سپریم
کورٹ پو حملہ کیا تھا لیکن اب ہماری عوام کو یہ سب یاد نہیں ۔ عوام کی تو
ہمیں خود کچھ سمجھ نہیں آتی کہ یہ لوگ کیا سوچتے ،سمجھتے ہیں اور پھر بار
بار کے دوکھوں کے باوجود یہ لوگ سنبھلتے کیوں نہیں ہیں ؟ آپ دیکھیں پیپلز
پارٹی نے اس ملک پر کتنی بار حکومت کی اور ان کے پاس بس ایک ہی نعرہ ہے جس
پر وہ عوام کو جمع کرتے ہیں ان سے ووٹ لیتے ہیں اور پھر منتخب ہونے کے بعد
وہ کچھ نہیں کرتے بلکہ روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگانے کے باوجود انہوں نے آج
تک عوام کو کچھ بھی نہیں دیا ۔ یہی حال اس مسلم لیگ کا بھی ہے ۔ اسٹیڈیم کے
سامنے موجود ساجد کا کہنا تھا کہ عوام کو عدالت سے اس فیصلے کی توقع نہ تھی
لیکن اب جو ہوگیا تو اس پر ہم اب کچھ نہیں کہنا چاہتے ۔ دفعتا چند لمحوں کی
خاموشی کے بعد انہوں نے کہا کہ فیصلہ تو عوام کی اور اس سے بڑھ کر انصاف کی
جیت ہے اب آپ اور آپ کا میڈیا اسے تحریک انصاف کی جیت سمجھیں یا پوری قوم
کی جیت یہ فیصلہ کرنا اب آپ اور آپ کی میڈیا کا کام ہے ۔
گلشن اقبال کے ڈاکٹر اخلاز کا کہنا تھا کہ شہر قائد کی زندگی کا ان دنوں
تین بڑے مسائل سے دوچار ہے ۔ سب سے بڑا مسئلہ بجلی اس کے بعد پانی اور
ٹریفک ہے۔ جب دفاتر سے لوگ اپنے گھروں کو جاتے ہیں تو چند منٹوں کا سفر کئی
گھنٹوں میں بدل جاتا ہے تاہم کل شہر قائد بالکل پہلے والا کراچی تھا کوئی
ٹریفک جام نہیں تھی اور عوام کو اس فیصلے سے کوئی مثبت اور منفی کوی امید
بھی نہیں ہے۔ جب تک سیاسی جماعت عوام کے مسائل کو حل نہیں کرے گی تو اس وقت
تک یہ معاملات چلتے اور بڑھتے رہیں گے ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز
پارٹی اور مسلم لیگ ہی جماعتیں ہیں جو اس ملک پر حکمرانی کرتی چلی آرہی ہیں
لیکن آپ ان کی سابقہ تاریخ دیکھ لیں انہوں نے کس طرح سے عوام کو اپنے دونوں
ہاتھوں سے لوٹا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمگیر نام کا ایک سماجی کارکن
اٹھتا ہے اور تین دن بھوکا اور پیاسا رہہ کر یونیورسٹی روڈ بنوانے کا اعلان
کرواتا ہے تو پھر اس ملک کے نواز شریف کو کیا وہ حکمران نظر نہیں آتے جنہوں
نے پانامہ لیکس میں صرف نام آنے پر حکمرانی چھوڑ دی ۔
شعبہ صحت سے وابستہ عارفہ خاتون کا کہنا تھا کہ ہم اعلانیہ یہ کہتے ہیں کہ
ہم عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے ۔ ہمیں ان سے امید ہے وہ
جس طرح سے خیبر پختونخواہ کے حالات کو بدلنے کیلئے کام کررہے ہیں ان شاء اﷲ
وہ وقت جلد آئیگا جب وہ پورے ملک کے حالات کو بدلنے کیلئے بھی اسی انداز
میں خدمات سرانجام دینگے ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عمران خان کا اعزاز ہے کہ
انہوں نے نواز شریف کے خلاف عدالت میں مقدمہ کیا اور تاریخ یہ یاد رکھے گی
کہ فیصلہ عمران خان کے حق میں ہی آیا ہے اور وہی اس مقدمے کو جیت گئے ہیں ۔
ان حکمرانوں کو اپنی عاقبت سنوارنے کیلئے ٹھوس اور مثبت اقداماکرنے چاہئیں
لیکن یہ سب سدھرنے والے لگتے نہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی پوری
عوامی ٹیم کو اس فیصلے سے کوئی مایوسی نہیں ہوئی بلکہ ان کا حوصلہ بڑھا ہے
اور یہ کبھی ختم نہیں ہوگا ۔
مسلم لیگ کے حمایتی کارکن کا کہنا تھا کہ ہمیں یقین تھا کہ نوازشریف جیتے
گا لہذاآپ دیکھ لیں فیصلے نے نواز شریف کو جتوا دیا ۔ ہم نے اس خوشی میں کل
جی بھر کے مٹھائی کھائی اور تقسیم بھی کی۔ ان کے قریب کھڑے ایک اور صاحب نے
کہا کہ میرا نام فرید ہے اور میں اسی فیصلے کی روشنی میں یہ کہتا ہوں کہ
نواز شریف کو پتہ چل گیا ہے کہ وہ ہار گیا ہے کیونکہ آپ دیکھیں اور غور
کریں کہ 5میں سے 2ججز نے نہ تو قطری شہزادوں کے خطوط کو کوئی اہمیت دی ہے
اور نہ ہی نواز شریف کی جانب سے وکلاء نے ان کے کیس کو بہتر انداز میں پیش
کیا ۔ بات تو صاف اور بہت سیدھی سی ہے کہ نواز شریف کو اب عدالت میں خود
جاکر پیش ہونا پڑے گا اور ان کے بیٹوں کو آنا ہوگا ۔ اب کیا ایسا کہیں پر
ہوتا ہے کہ ملک کا وزیر اعظم عدالت میں ایک مقدمے میں پیش ہو۔ جب دو ججز نے
اسے فیل کر دیا ہے تو اس وزیر اعظم کو اپنے نام سے وزارت عظمی کے عہدے کو
ہٹا دینا چاہئے لیکن یہ جذبات وہاں ہوتے ہیں جہاں پر احساسات ہوتے ہیں ۔
پیپلز پارٹی کے اک کارکن نے کہا کہ ہمارے کو چیئرمین سابق صدر پاکستان آصف
علی زرداری نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر وزیراعظم سے مستعفی ہونے کو کہا
ہے ۔ آپ دیکھ لیں اس فیصلے کے بعد پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف ، جماعت
اسلامی اور دیگر سبھی جماعتیں اس وزیر اعظم کو مستعفی دیکھنا چاہتی ہیں ۔
ایک کارکن کی حیثیت سے ہم پیپلز پارٹی کے اس موقف کی بھرپور تائید کرتے ہیں
۔
عوامی جذبات و احساسات کے انداز کچھ اسی طرح کے سامنے آتے رہے ۔ تاہم
اکثریت کی آراء یہی تھی کہ نواز شریف کی پانامہ کیس میں اس قدر تفصیلات
سامنے آجانے کے بعد وزارت عظمی کو چھوڑدینا چاہئے یہی ان کیلئے ان کی جماعت
کیلئے اور سب سے بڑھ کر اس ملک و عوام کیلئے بہتر ہوگا ۔ آئندہ ملک کی دولت
ہڑپ کرنے والوں کو پہلے سے ہوش ہوگا کہ اگر وہ ملک کی دولت کو لوٹیں گے تو
کوئی اور عمران خان کی طرح ان کے کرتوتوں کو عوام کے سامنے لائیں گے اور
انہیں عدالتوں میں عدلیہ کے سامنے انصاف کیلئے لے آئیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے
کہ اس فیصلے کے بعد جو دو ماہ کاوقت وزیر اعظم کو ملا ہے اس میں وہ کس طرح
سے اپنے دفاع کیلئے اقدامات کرتے ہیں اور تحریک انصاف سمیت دیگر تمام
جماعتیں کس انداز میں اس واضح فیصلے کے بعد راہ عمل اختیا ر کرتے ہیں ۔
|